-1 کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی بذات خود ایک مقصد نہیں ہوتی۔ یہ حصول مقصد کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ مقاصد مختلف ہو سکتے ہیں صرف ایک قدر مشترک ہوتی ہے۔ (ENLIGHTEND SELF INTREST) ہر ملک کے پیش نظر صرف اپنا مفاد ہوتا ہے۔ قربانی ایفائے عہد‘ روا داری کا ڈپلومیسی میں عمل دخل نہیں ہوتا۔ اسی لئے کہا گیا ہے۔
SINCERE DIPLOMACY IS NO MORE POSSIBLE THAN A WOODEN IRION OR DRY WATER.
-2 ہر ملک کی خارجہ پالیسی معروضی حالات کے تحت تشکیل دی جاتی ہے۔ جو بڑے ملک ہیں انکی HEGEMONIC INTENSIONS ہوتی ہیں کیونکہ طاقت کی اپنی منطق ہے۔ ملکی سالمیت کے علاوہ وہ دیگر ممالک کو زیر اثر رکھنا چاہتے ہیں۔ بالخصوص چھوٹے اور کمزور ملکوں کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیتے۔ کمزور ملکوں کو اپنی سالمیت کی فکر ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ دنیا دو بلاکس میں بٹی ہوئی تھی۔ طاقت میں کسی حد تک توازن تھا۔ چھوٹے ممالک اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ جب سے روس شکست و ریخت کا شکار ہوا اور امریکہ واحد سوپر پاور کے طور پر ابھرا ہے اسکی فارن پالیسی کے CONTOURS بدل گئے ہیں۔
-3 مختلف ادوار میں پاک امریکہ تعلقات میں زیروبم آتا رہا ہے۔ ایک عجیب طرح کی LOVE HATE RELATION SHIP دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر INDIACENTRIC ہے۔ ہندوستان نے کبھی ذہنی طور پر پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ مولانا آزاد اپنی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ میں لکھتے ہیں۔ سردار پٹیل کا خیال تھا کہ پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔ اسے محض ایک دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی اس مخاصمت کے پیش نظر پاکستان سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدوں میں شامل ہوا۔ ہندوستان نے یکسر انکار کر دیا۔ پاکستان شامل تو ہو گیا لیکن اسکے اور امریکہ کے نکتہ نظر میں بنیادی فرق تھا۔ امریکہ ان معاہدوں کو کمیونزم کیخلاف ایک حصار سمجھتا تھا جبکہ پاکستان کا مقصد ہندوستانی جارحیت کو روکنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاک بھارت جنگ میں امریکہ نے کبھی پاکستان کی مدد نہ کی۔ اسکی بنیادی وجہ ہندوستان کی عددی اکثریت تھی۔ امریکی سمجھتے تھے کہ یہ حساب کا سا سوال ہے۔ 10 کروڑ کی آبادی والے ملک کو ایک ارب والے ملک پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں بڑے ملک اس کو رام کرنے کیلئے کوشاں رہے۔ دونوں اس کو چین کے مقابل کھڑا کرنے کے خواہاں تھے۔
-4 اس وقت پاک امریکہ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔ گو پاکستان افغان جنگ میں امریکہ کا حلیف رہا اور اس نے حد سے بڑھ کر حصہ لیا ہے لیکن امریکہ کے ’’ڈو مور‘‘ کے تقاضے ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ ہندوستان کی انگیخت نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ باایں ہمہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر نہ تو جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی بامقصد امن مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو اس نے مکمل طور پر امداد روکی ہے اور نہ SANCTIONS کا سوچا ہے۔
-5 لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ اس وقت صدارتی انتخابات ہونیوالے ہیں ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی امیدوار ہیں۔ ٹرمپ کا شمار امریکہ کے امیر ترین آدمیوں میں ہوتا ہے۔ وہ منہ سے آگ اگل رہا ہے۔ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیگا۔ انکے امریکہ آنے پر پابندی لگا دیگا۔ افغان جنگ میں پاکستان کی امداد روک دیگا۔ اسکی سوچ اور روس کو بدلے گا۔ ظاہر ہے یہ کام وہ ہندوستان کی مدد اور معاونت سے کریگا۔ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کر دیگا۔ تعمیر کا سارا خرچ میکسیکو کی حکومت ادا کرے گی۔ نیٹو ممالک کو مجبور کریگا کہ وہ اپنے حصے کی رقم دگنی کر دیں۔ روس کے ساتھ تعلقات استوار ہوں گے۔ مخاصمت کی جگہ بھائی چارے کی فضا قائم ہو گی۔ اسکی سوچ کیمطابق امریکہ اس وقت قہر ذلت میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلا دیگا۔ HE WILL MAKE AMERICA GREAT AGAIN جوش خطابت میں اس نے عورتوں کو PIG کہا ہے۔ کالوں کیخلاف نفرت کا اظہار کیا ہے۔ مسلمانوں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ ایک پاکستانی نژاد وکیل خضر خان کا بیٹا امریکی فوج میں کپتان تھا۔ وہ عراق جنگ میں مارا گیا۔ اسکی جرأت اور بہادری کی وجہ سے امریکی حکومت نے اسے سب سے بڑا فوجی اعزاز ’’پرپل ہارٹ میڈل‘‘ دیا۔ ٹرمپ نے مسلم دشمنی میں اسے بھی نہیں بخشا اور اس کیخلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ اس سے سارے امریکہ میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی، ڈیمو کریٹک کنونشن میں خضر خان نے ایک جاندار تقریر کی۔ اس نے اپنی جیب سے امریکی آئین کی کاپی نکال کر ٹرمپ کو پیش کی۔ مقصد یہ تھا کہ امریکہ میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو مسلمانوں کا داخلہ روک سکے۔ آئین میں ترمیم ایک ایسا مشکل عمل ہے جو ٹرمپ سو سال میں بھی نہیں کروا سکتا۔
5 ۔ ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے باشعور امریکیوں کو ہلا کر رکھ دیا اسکی اپنی پارٹی کے بااثر افراد نے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ ان میں نمایاں بش فیملی، جان مکین، ہائوس کا سپیکر، ارب پتی بلوم برگ دل کولن پائول و دیگران شامل ہیں۔ ان سب کا خیال ہے کہ یہ شخص(Temperamentally unstable) پارٹی کی بنیادیں ہل جائیں گی اور ایک طویل عرصہ تک ریپبلکن پارٹی کوئی الیکشن نہیں جیت پائے گی۔ فوری طور پر ٹرمپ کی ریٹنگ گر گئی اور کئی لیڈروں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ الیکشن سے دستبردار ہو جائے جس شخص کو نہ اپنے جذبات پر قابو ہو‘ نہ زبان کنٹرول میں ہو، وہ امریکی صدر بننے کا اہل نہیں ہے۔ تمام مسلمان افریکن‘ امریکن (حبشی) اور عورتیں اس کیخلاف ہو گئی ہیں۔ Hispanic ووٹ بھی اس کیخلاف پڑینگے۔
6۔ ان تمام مشکلات کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری حیران کن طور پر تادم تحریر اسکے قدم آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔
(1) اس نے سفید فام امریکیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ 9/11 کے بعد ساری قوم ایک ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ جب بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مسلمان ملوث ہوتا ہے۔ ٹرمپ کا نعرہ ’’وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیگا۔ بااثر ثابت ہو رہا ہے۔
(2) امریکہ کو عظیم تر بنانے کا اعلان بھی عام آدمی کو متاثر کر رہا ہے۔ عظمت کے ساتھ معیشت بھی جڑی ہوتی ہے۔ گویا وہ باور کرا رہا ہے کہ لوگوں کی زندگی میں معاشی انقلاب آئیگا۔
(3) آج تک کوئی عورت امریکی صدر نہیں بن سکی۔ اب کیسے بن پائے گی؟ یہ سوال بھی سر اٹھانے لگا ہے۔ تمام ہندو اور یہودی دل و جان سے اسکی مدد کر رہے ہیں۔
بالفرض ٹرمپ جیت گیا تو یقیناً یہ پاکستان کیلئے بہت بری خبر ہو گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38