ریاستی بیانیے میں قومی مسائل بدستور غائب ہیں۔ شخصیت پرستی اور خاندانی سیاسی کلچر کی وجہ سے میڈیا قومی ایشوز کی بجائے شخصیات میں الجھ کر رہ گیاہے۔ دنیا کی وہ ریاستیں جنہوں نے امن و امان کے قیام اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا انہوں نے ہر شعبے میں ترقی کی۔ پولیس ریاست کا بنیادی ادارہ ہوتا ہے جو عوام کے تعاون سے ریاست کے امن اور اندرونی استحکام کا ضامن بنتاہے۔ پولیس کے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال، سفارشی بھرتیوں ، کرپشن اور غیر انسانی رویوں کی بناء پر پاکستانی پولیس عوام کا اعتماد کھو چکی ہے جبکہ پاک فوج مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود تاحال عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام پاک فوج سے محبت کرتے ہیں اور پولیس سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ انگریزوں نے 1857ء کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد نئے سامراجی عزائم اور تقاضوں کے مطابق 1861ء کا پولیس ایکٹ منظور کیا جس کا مقصد عوام پر حکمرانی کرنا اور ریونیو (ٹیکس) جمع کرنا تھا۔ کلونیل پولیس عوام کی خدمت اور معاونت کیلئے نہیں بلکہ ان کو دبانے کیلئے تھی تاکہ وہ انگریز حکمرانوں کیخلاف دوبارہ سر اُٹھانے کی کوشش نہ کریں اور غلام بن کر رہیں۔ قائداعظم نے 1948ء میں کراچی میٹروپولیٹن پولیس کی منظوری دی تاکہ پولیس غیر سیاسی، مستعد اور جوابدہ ہو اور کلونیل ذہنیت کا خاتمہ ہوسکے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد مقتدر قوتوں نے کلونیل پولیس کو مزاج اور ذہنیت کے اعتبار سے پاکستانی پولیس بنانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی اور پولیس کو عوام کی خدمت کی بجائے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔
جنرل ایوب خان نے آمرانہ مزاج کیمطابق پولیس سسٹم کو 1861ء پولیس ایکٹ کے مطابق چلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پولیس کو عوامی بنانے کی بجائے ایف ایس ایف قائم کرلی جس کو اپوزیشن کو ہراساں کرنے اور انتقام کیلئے استعمال کیا گیا۔ وزیراعظم جونیجو نے 1985ء میں بھارت کے کامیاب تجربے کی روشنی میں پاکستان کے چاروں صوبائی دارلحکومتوں میں میٹروپولیٹن پولیس کے ادارے قائم کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی میٹروپولیٹن پولیس کیلئے احکامات جاری کیے مگر استحصالی اور مفاداتی ذہنیت نے ان پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ 1990ء کی دہائی میں پولیس میں غیر معمولی سیاسی مداخلت دیکھنے میں آئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس کو پروفیشنل، جوابدہ، غیر سیاسی اور خود مختار بنانے کیلئے سنجیدہ کام ہوا۔ برطانوی پولیس ماڈل کی روشنی میں منتخب اور غیر سیاسی افراد پر مشتمل مانیٹرنگ سسٹم وضع کیا گیا اور پولیس آرڈر 2002ء جاری کیا گیا جو زمینی حقائق اور عوامی ضرورتوں کے مطابق تھا۔ جنرل مشرف نے 2004ء میں سیاسی حکومتی مصلحتوں کے تابع 2002ء کے پولیس ایکٹ میں تبدیلیاں کردیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد کسی حکومت نے پولیس اصلاحات پر توجہ نہ دی۔ خیبرپختونخواہ میں پولیس کو غیر سیاسی اور پروفیشنل بنانے کیلئے سنجیدہ کام ہوا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جبکہ باقی صوبے کم و بیش انگریزوں کے پولیس ایکٹ 1861ء پر ہی عمل کررہے ہیں۔ اگر اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں میٹروپولیٹن پولیس کے ادارے کام کررہے ہوتے تو یہ شہر امن و امان کا گہوارہ ہوتے۔ بے نظیر بھٹو پولیس کی غفلت سے شہید نہ ہوتیں اور نہ ہی پولیس ماڈل ٹائون میں سیدھی گولیاں چلا کرچودہ بے گناہ انسانوں کو شہید کرتی۔
سندھ کراچی کے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ پروفیشنل آفیسر ہیں انکی خواہش ہے کہ کراچی پولیس معیاری اور غیر سیاسی ہو اور بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔ سندھ حکومت کے اپنے سیاسی عزائم اور مصلحتیں ہیں جن کیلئے وہ پولیس کو استعمال کرنا چاہتی ہے۔ افسوس ہم نے ستر سال ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات کا اسیر بن کر گزاردئیے۔ پولیس کو معیاری اور پروفیشنل نہ بننے دیا۔ آج بھی پاکستان ویلفیئر سٹیٹ کے بجائے سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ قومی بجٹ کے اربوں روپے سکیورٹی پر خرچ ہورہے ہیں اور عوام صاف پانی، تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہیں۔ قائداعظم کے احکامات کے مطابق پولیس سسٹم کی تشکیل نو کردی جاتی تو آج پاکستان پر امن ملک ہوتا۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ (پولیس سروس) کا شمار پاکستان کے ان قابل فخر افسروں میں ہوتا ہے جنہوں نے سروس کیرئیر کے دوران بانی پاکستان قائداعظم کی اس ہدایت پر بطور عقیدہ عمل کیا۔ ’’تم عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم ہو تمہارا اس سیاسی جماعت یا اُس سیاسی جماعت سے کوئی سروکارنہیں ہونا چاہیئے اور تمہیں اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق ادا کرنے چاہئیں‘‘۔[سرکاری ملازمین سے خطاب 1948] طارق کھوسہ نے پاکستان کی گورنینس، سکیورٹی اور پولیس سسٹم پر عالمی معیار کی کتاب "The Faltering State" لکھی ہے جس میں انہوں نے ذاتی مشاہدات کی روشنی میں مختلف حکمرانوں کی حکمرانیت کے بارے میں دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ پاکستان کی اندرونی سکیورٹی کے بارے میں یہ پہلی منفرد اور مستند کتاب ہے جسے پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیئے۔ وفاقی اور صوبائی حکمران اگر پولیس کے نظام کو معیاری اور عوامی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
طارق کھوسہ نے اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف پانچ صفحات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں، سازشیوں اور سہولت کاروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ بے نظیر قتل کے عینی شاہدین اور سہولت کاروں کو پراسرار طور پر قتل کرادیا گیا جن میں سے دو سی آئی اے نے ڈرون حملوں سے ہلاک کرائے۔ سررابرٹ پیل نے 1829ء میں لندن میٹروپولیٹن پولیس کیلئے جو اُصول اور ضابطے تشکیل دئیے وہ آج بھی قابل توجہ اور قابل عمل ہیں۔ (1)پولیس کا بنیادی مشن جرائم پر قابو پانا اور امن و امان قائم کرنا ہے۔(2)پولیس کی اہلیت اور کارکردگی کا واحد معیار یہ ہے کہ پبلک اس کی توثیق اور تعریف کرے۔ (3)پولیس عوام کا رضاکارانہ اعتماد اور تعاون حاصل کرے۔ (4) پولیس کو عوام کا اعتماد حاصل ہو تو طاقت کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ (5) پولیس کا عمل اگر شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوگا تو عوام اس سے تعاون کرینگے۔ (6) پولیس اس وقت مناسب اور موزوں طاقت استعمال کرے جب انتباہ ، ترغیب اور نصیحت کے حربے ناکام ہوجائیں۔ (7)پولیس کو کمیونٹی کا حصہ ہونا چاہیئے اور عوام کا مفاد ہر حال میں مقدم رہنا چاہیئے۔ (8)پولیس آئینی اور قانونی حدود میں رہ کرکام کرے اور عدالتی اختیار میں مداخلت نہ کرے۔ (9)پولیس کی کارکردگی کا جائزہ اسکی سرگرمیوں اور اقدامات کی بنیاد پر نہیں بلکہ کرائم ریٹ اور امن کے قیام کی بنیاد پر لیا جانا چاہیئے۔ انگریزوں نے انکے اُصولوں کے مطابق ہندوستان کیلئے پولیس ایکٹ منظور نہ کیا بلکہ پولیس کو حکمرانی کیلئے استعمال کیا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ پولیس کو عوامی خدمت اور مفاد کی بجائے حکمرانی اور استحصال کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ دو سیاسی خاندان جو کئی بار حکمران رہے انہوں نے بوجوہ پولیس کو معیاری اور غیر سیاسی بنانے کی کوئی کوشش نہ کی۔
پاکستان کے کسی سپہ سالار نے پولیس کو معیاری بنانے پر زور نہ دیا تاکہ ہر حکومت امن و امان کے قیام کیلئے بھی پاک فوج کی مرہون منت رہے اور غریب و مقروض قوم کے دفاع اور سکیورٹی پر غیر معمولی اخراجات کا جواز باقی رہے۔ بیوروکریسی نے ہمیشہ عوامی اداروں کو منظم اور مستحکم بنانے کے بجائے قومی لٹیروں سے گٹھ جوڑ کرلیا۔ عسکری اور سیاسی قیادتوں کی مجرمانہ غفلت کا خمیازہ عوام، پولیس اور فوج کو بھگتنا پڑرہاہے۔ پولیس ریاست کے نظم و نسق چلانے کا بنیادی اور مرکزی ادارہ ہے۔ پولیس کو معیاری اور غیر سیاسی بنائے بغیر عوام کے جان و مال کے تحفظ، امن و امان کے قیام، دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاکستان اور عوام کے نام پر دانشوروں، صحافیوں، اینکرز اور سیاسی کارکنوں سے التجا ہے کہ وہ شخصیات کی بجائے ریاست کے قومی مسائل پر توجہ دیں اور پولیس کو ہرلحاظ سے معیاری اور مثالی بنانے کیلئے توانا آواز بلند کریں۔ مختلف حیلے بہانوں سے پسندیدہ شخصیات کے گن گانا اور بنیادی قومی مسائل کو نظر انداز کرنا مادر وطن کے مستقبل اور عوام کے مقدر سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ علامہ اقبال نے درست کہا تھا۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا