"اژدھا اور ہاتھی ازلی دشمن ہیں" مغرب کا پیدا کردہ یہ تاثر بالکل غلط اور لغو ہے یہ بھارت میں چینی سفیر عزت مآب H.E.Luo Zhaohuiہیں جو عالمی شہرت یافتہ تحقیقی ادارے (USI)میں خطاب کر رہے تھے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں 125 ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہوگی۔ ہمالیہ سے بلند ' سات سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کے دعوو¿ں کے پس منظر میں عزت مآب چینی سفیر کا خطاب تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور نئی حقیقتوں کا آئینہ دار ہے۔H.E.Luo Zhaohuiپاکستان میں بھی سفیر رہ چکے ہیں۔موصوف فرماتے ہیں ”میرے لئے یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوشن جیسے معتبر تھنک ٹینک میں خطاب کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے جس کےلئے مدعو کرنے پر انتظامیہ کا تہ دل سے شکرگزار ہوں۔ گزشتہ مہینے میں نے آسام میں چینی سپاہیوں کے قبرستان کا دورہ کیا تھا وہ سپاہی جو جنگ عظیم دوم کے دوران اپنے بھارتی ساتھیوں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اجنبی سرزمین پر مارے گئے تھے اس قبرستان میں 4سو سپاہی دفن ہیں جن میں صرف ایک سپاہی کا کتبہ ملتا ہے باقی سب بے نام و نشان وہاں دفن ہیں۔ 1442ءسے 1945ءکے دوران ایک لاکھ چینی سپاہیوں نے مختلف محاذوں پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔ انکے خاندانوں اور عزیز و اقارب کو کچھ علم نہیں ہے کہ انکے پیارے کہاں دفن ہوئے کہ سپاہیوں کا مقدر کچھ اس طرح کا ہوتا ہے میدان جنگ میں بروئے کار سپاہی دراصل امن کی تلاش میں اپنی جانیں قربان کرتے ہیں جس کا مطلب ایثار و قربانی سے عبارت ہوتا ہے۔میں سفارت کار ہوں جس کی زندگی قربانی، نظم و ضبط اور امن کی تلاش سے عبارت ہوتی ہے۔ یہی اوصاف سپاہی اور سفارت کار میں قدر مشترک ہوتے ہیں اس لئے میں دنیا کے تمام سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلام کرتا ہوں۔
میں چینی ہوں، عظیم چین جو بھارت کا ہمسایہ اور ہزاروں برس سے تہذیبی، معاشرتی اور سماجی اشتراک عمل اور دوستی کا امین ہے۔ بسا اوقات اختلافات بھی پیدا ہوتے رہے اور گلے شکوے بھی چلتے رہے ہیں۔سب سے پہلے بتانا چاہتا ہوں کہ چینی بھارت اور اسکے لوگوں کے بارے میں کیسے سوچتے ہیں جن کے ساتھ ہزاروں سال قدیم دیرینہ رشتے رکھتے ہیں۔ مہاتما بدھ اور ہزاروں برس قدیم سندھ ساگر تہذیب اور شاہراہ ریشم کے روشن نقوش ذہن میں جگمگاتے ہیں۔ چین میں بدھا کا سٹوپا سفید گھوڑے کامندر آج بھی موجود ہے۔2003ءمیں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اس قدیم سٹوپا کا دورہ کیا اور بھارتی طرز تعمیر کا شاہکار ہال تعمیر کرکے عطیہ کیا جو آج چین بھارت دوستی کی تابندہ علامت بنا ہوا ہے۔سمندر کنارے گانذو.. تجارتی مرکز'صدیوں سے بھارتی تاجروں کی آماجگاہ رہا ہے جو سمندری سلک روٹ کا آج نقطہ آغاز بن گیا ہے۔گزشتہ دنوں میں نے اجنتا کے غاروں کی سیاحت کی جن کے خدوخال چین میں اس طرح کے غاروں سے بہت مماثل ہیں۔ ہماری تاریخی کتب بھارت اور چین کے تعلقات اور ایثار و محبت کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں ابھی دونوں ممالک نے باہمی اشتراک سے ”گنگفو یوگا“ فلم بنائی جس نے عالمی سطح پر پر مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ اب اس طرح کی دوسری عظیم بدھی دھرما زیر تکمیل ہے۔ چینی ثقافت اور سماج پر بھارتی اثرات کے گہرے نقوش آج تک واضح اور نمایاں ہیں۔ہمارا مشترکہ تاریخی ورثہ اور باہمی مماثلت چین بھارت تاریخی اشتراکِ عمل کا مظہر اور آئینہ دار ہے۔ تاریخ عالم کے دو عظیم دانش مند کنفیوشس اور مہاتما بدھ ایک ہی تاریخی دور میں گزرے ہیں جس کے بعد بھارت اور چین نے دور غلامی کا عرصہ بھی یکساں ادوار میں گزارا تھا۔ اسی طرح دونوں ہمسایوں نے آگے پیچھے آزادی کی منزل بھی پائی تھی۔ تاریخی مماثلت اور تہذیبوں کی ہم آہنگی نے اقتصادی اور معاشی ترقی کا دور بھی یکساں سفر بنا دیا ہے۔ اس لئے ”پنج شیلا“ روایات کے ہم امین اور وارث ہیں۔
بھارت نے سیاحت کے فروغ کیلئے 'بھارت مہان کا نعرہ لگایا۔ ہم چینیوں کےلئے بھارت پراسرار زمین ہے جس کے مسحور کن مناظر آسمان کی بلندیوں کو چھوتے،فلک بوس اور سفید پوش پہاڑ اور سرسبز و شاداب رنگین پھولوں سے مزین وادیاں اور منفرد ثقافت ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی رہی ہے۔
بھارت تاریخی اعتبار سے عبقری اور دیوقامت شخصیات کا وطن رہا ہے۔ چینیوں کا خیال ہے بھارتی ذہین، اور حساب کے ماہر اور منطقی طرز استدلال واعتبار سے اعداد و شمار کے ماہر ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ ہر بھارتی آئی ٹی کا ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ رقص اور گلوکاری کا ماہر ہوتا ہے۔
رام کرشن چندر، بدھا، شنکر اچاریہ، اکبر اعظم، گاندھی جی اور ٹیگور نے یہیں جنم لیا تھا۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کا بھارت گہوارہ ہے اور اب بھارت یوگا کا پرچم اٹھائے میدان میں نکلا ہے، تناﺅ اور دباﺅ کے اس دور میں یوگا ساری دنیا میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ چینی نوجوانوں میں بھی یوگا تیزی سے مقبول ہورہی ہے کہ اعصابی دباﺅ اور تناﺅ کا سانس کی مشقوں کے ذریعے فوری علاج نے دنیا کو ششدر کرکے رکھ دیا ہے۔ نئی دہلی کے چینی سفارت خانے میں سفارت کاروں کی بڑی تعداد یوگا کی مشقیں کرتی ہے جبکہ چین میں چٹخارے دار بھارتی کھانے، خاص طور پر تندوری چکن اور چپاتی تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے بھارت میرے لئے دوسرا گھر ہے۔ صرف بھارت دیکھنے کی لگن مجھے محکمہ خارجہ اور سفارت کاری کی دنیا میں لے گئی۔ میں 1980ءکے اوائل سے بھارت میں مختلف ذمہ داریاں ادا کرتا رہا ہوں۔ میری بیوی نے دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔
گزشتہ 20 سال کے دوران میں بھارت کی تیز رفتار ترقی کا چشم دید گواہ ہوں۔ میں مختلف بھارتی ریاستوں کے دورے کرچکا ہوں اور بنیادی اقتصادی تعمیر اور روز افزوں ترقی کا سفر طے کرتے دیکھتا رہا ہوں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) 2 کھرب 20 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کی چھٹی بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے جو تیزی سے اقتصادی اہداف کی منزلیں سر کرتا جارہا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ چین نے بھی بھارت کی اس شاندار اور شاہکار ترقی میں اپناحصہ ڈالا ہے۔ دونوں میں باہمی تجارت 70 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ چین بھارت میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ 500 چینی کمپنیاں بھارت میں کام کررہی ہیں۔ گزشتہ سال 10 لاکھ افراد نے بھارت اور چین کے درمیان سفر کیا۔ ہفتے میں کم از کم 70 فلائٹس دونوں ممالک کے درمیان آتی جاتی ہیں۔ چین آج دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہے جس کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) 11 کھرب ڈالر ہے جس میں بھارت کا بھی حصہ ہے۔ ہم بھارت کی ترقی کے سفر میں شانہ بشانہ اور قدم بقدم چل رہے ہیں۔ بعض مغربی دانشور بھارت چین تعلقات کے حوالے سے شدید غلط فہمی کا شکار ہیں جن کا خیال ہے کہ ”اژدھا“ اور ”ہاتھی“ ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں اور یہ کہ چین کو ترقی کرتا ہوا بھارت گوارا نہیں ہے جوکہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ چین بھارت کی ترقی پر ازحد شادمان و کامران ہے۔
جہاں تک پاک چین اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں کا تعلق ہے بھارت کے تحفظات ہیں کہ یہ سڑک آزاد کشمیر سے گزرے گی جسکی وجہ سے خودمختاری کا سوال کھڑا ہوگا۔ چین پاک بھارت علاقائی تنازعات میں ملوث نہیں ہونا چاہتا لیکن دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے تمام تنازعات کو حل کرنے پر زور دیتا رہے گا۔ (CPEC) معاشی ترقی، باہمی تعاون اور رابطہ کاری کےلئے ہے جبکہ بھارت اور چین اپنے جغرافیائی تنازعات کو باہمی تعاون کے امور سے الگ کرنے کی حکمت عملی کو کامیابی سے اپنا چکے ہیں۔ اس (CPEC) کا جغرافیائی تنازعات اور خودمختاری کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ہم قدیم شاہراہ ریشم کا احیاءچاہتے ہیں جو آج کے جدید دور میں بھی ممکن ہے۔ بعض بھارتی ذرائع ابلاغ مسلسل یہ تاثر دیتے رہے ہیں کہ برصغیر میں چین ہمیشہ پاکستان کو بھارت پر ترجیح دیتا ہے۔ایسی کوئی بات نہیں چین کی پہلی ترجیح چین اور صرف چین ہے دیگر مسائل وہ میرٹ پر دیکھتے ہیں چین کی غیر جانبداری کا ایک حوالہ دیتے ہوئے یاد دلاتے ہیں نیوکلئیر سپلائیرز گروپ کی رکنیت کے معاملے پر چین نے کسی بھی ملک کی مخالفت نہ کرکے دراصل بھارت کی راہ ہموار کی تھی کہ ہم نے رکنیت کےلئے طریق کار واضح کرنے پر زور دیا تھا“۔