ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی اس کی رہائی کے لئے کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا ،مصلحتوں کا شکار پاکستانی ریاست اپنی بے گناہ اور مظلوم بیٹی کے لیے کچھ نہیں کرسکے گی اور ٹرمپ وائٹ ہاوس میں پہنچ جائیں گے۔کہتے ہیں کہ ایک بزرگ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خواب میں تشریف لائے تو عافیہ نے ان سے استفسار کیا کہ حضور میری آزمائش کب ختم ہوگی؟ مجھے رہائی کب نصیب ہوگی جس پر انہوں نے فرمایا یہ تمہاری نہیں امت مسلمہ کی آزمائش ہے یہ واقعہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے حوالے سے شیخ الحدیث مولانا خادم حسین رضوی نے بیان کیا ہے جو YOU TUBE سے با آسانی سنا جاسکتا ہے تو جناب والا یہ صرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آزمائش نہیں ساری امت اور خاص طور پر پاکستانی قوم بھی آزمائش سے گزر رہی ہے۔’’ڈاکٹر عافیہ کو بھول جائیں‘‘ان کی رہائی کے لئے صدر ممنوں حسین یا وزیراعظم نواز شریف صدر اوباما کو خط نہیں لکھیں گے۔
گزشتہ ہفتے ایک سینئر افسر اس کالم نگار کو بتارہے تھے کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو ان کا امریکی وکیل اپنی فیس کھری کرنے کے لیے الٹی سیدھی پٹیاں پڑھا رہا ہے۔ صدر اوباما کے پاس ڈاکٹر عافیہ کو معاف کرکے رہا کرنے کا اختیار نہیں، گزشتہ مہینے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ محترمہ نے اس کالم نگار کو انکشافات سے بھرپور طویل خط لکھا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صاجزادی مریم کے سرپر ہاتھ رکھ کر کیا تھا کہ یہ مریم کی طرح میری بیٹی ہے اس کی والدہ کو امریکی قید سے رہا کرانا میری ذمہ داری ہے اور انشاء اﷲ ڈاکٹر عافیہ کو جلد از جلد رہا کراؤں گا اور پھر اقتدار کی بھول بھلیاں میں کھوکر جناب نواز شریف اپنے سارے وعدے بھول گئے۔اب تو 20جنوری میں صرف ایک آدھ دن باقی ہے کون کیسے خط لکھے گا کیوں لکھے گا۔
اس کالم نگار کی رسائی وزیراعظم کے مشیر جناب عرفان صدیقی تک ہے انہیں یہ خط بھجوادیا تھا۔ منظم زندگی گزارنے والے عرفان صدیقی ہر چیز کی رسید دیتے ہیں گزشتہ روز ملاقات کے دوران انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے معاملے کا ذکر نہیں کیا، یہ خاکسار بھی خاموش رہا۔ایوان صدر میں اپنے ایک دیرینہ کرم نوا سے گزارش کی کہ صدر ممنون حسین سے خط لکھوا کر براہ راست ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان کے حوالے کردیا جائے تو انہـوں نے بتایا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے، ریاستوں کے باہمی تعلقات میں خارجہ امور کی وزارت کے ذریعے ہی خط و کتابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان وزارت خارجہ کے جن ارباب اختیار سے اس کالم نگار کا واسطہ پڑا ہے انہیں پاکستان اور پاکستانی قوم سے لاتعلق پایا اور ان کا سرد مہر رویہ ہمیشہ سنگ دلی کی حدود کو چھوتا تھا۔اس لئے دفتر خارجہ سے کسی قسم کی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہوگا۔رہا واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کا عملہ تو انہیں اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو امریکی ویزے اورگرین کارڈ دلوانے سے فرصت ملے گی تو وہ پاکستانی قوم اور اس کی بے گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بارے میں فکر مند ہوں گے۔یہاں پر تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکلا سٹیفن ڈاؤنز اورکیتھی مینلے نے حکومت پاکستان کو براہ راست خط لکھ کر اپیل کی ہے کہ اوباما جانے سے پہلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنا چاہتے ہیں۔ خود اوباما انتظامیہ اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کررہی ہے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا جائے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی صرف اور صرف ایک خط لکھنے سے ہوسکتی ہے، اس لیے اس تاریخی اورنادر کو ضائع نہ کیا جائے۔ اپنے شہریوں کا تحفظ کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اجنبی سرزمین اور غیر ممالک کی دور دراز جیلوں میں قیدی پاکستانیوں کی نگاہ داشت اور قانونی سہولیتں فراہم کرنا پاکستانی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن افسوس صد افسوس ہماری ریاست مشکلات کا شکار اپنے بچوں سے ماں جیسا سلوک کرنے کی بجائے سوتیلی ماں جیسے مظالم ڈھا رہی ہے ۔چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے درست کہا کہ ریاست ماںکانہیں چڑیل کاکردار ادا کررہی ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ بتاتی ہیں کہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد 2013ء میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ہونے والی ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بیٹی مریم کے سر پر ہاتھ 100 دن میں رہا کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب تو کئی سو دن بیت چکے‘ یہ نہیں ہوسکتا کہ نوازشریف وہ وعدہ بھول گئے ہوں لیکن اقتدار کی مصلحتیں اور آقائے ولی نعمت امریکہ کی ناراضی کے خوف نے مصلحت کشی پر مجبور کر دیا ہو تو الگ معاملہ ہے۔ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ہمارے عزت مآب سفیر کو اس معاملے میں آخری لمحے مداخلت کرنا چاہیے لیکن وہ اپنی مدت ملازمت کی آخری اننگ میں کسی تنازعہ میں کیوں الجھیں گے جس سے ان کا مستقبل متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور امریکیوں کو حوالگی کی المناک داستان تو اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ کس طرح سگندل پرویز مشرف نے قوم کی بیٹی کو بیچ کر پیسے کمائے تھے لیکن نوازشریف کو عافیہ صدیقی کی دکھ بھری کہانی سن کر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے، انہیں کیا ہوگیا۔ مہلت عمل ختم ہونے کو ہے ۔ 20 جنوری کا سورج طلوع ہوا چاہتا ہے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے روشن امکانات تیزی سے معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ مسلمانوں سے اپنی نفرت کا برملا اظہار کرنے والا ٹرمپ ڈاکٹر عافیہ کے لیے کیا خاک نرم گوشہ رکھے گا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا امتحان ابھی ختم نہیں ہوا اس کی آزمائش کے دن اور رات جاری وساری رہیں گے۔ پاکستان قوم بھی بیحسی کی سولی پر لٹکتی رہے گی کوئی تو ہو جو مظلوم بیٹی کی آواز سنے۔حر ف آخر یہ کہ وزیراعظم نوازشریف نے پارلیمان کے مقدس ایوان میں پاناما مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے ’’ سیاسی بیان‘‘ دیا تھا۔ عدالت اس سیاسی بیان سے صرف نظر کرے۔ جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ پارلیمان میں دیدہ دانستہ جھوٹ بولا گیا جسے اب قانونی موشگافیوں کی آڑ میں چھپایا جارہا ہے۔ برسر عام اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے اور وزیراعظم نوازشریف ڈیووس میں انسداد کرپشن عالمی کانفرنس میں شریک ہیں۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024