بات تو سچ ہے مگر یہ بات رسوائی کی ہے کہ ، نہیں ؟اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں۔ میں بچپن سے یہ دیکھ اور سن رہا ہوں کہ ”رانجھے مجھاں چرایاں سن مگر ہن دے راجے تے رانجھے بندے چراندے نیں!“
میرے پاس ان راجوں اور رانجھوں کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے صرف عوام ہی کو نہیں چرایا بلکہ پی پی پی، مسلم لیگ عرف ن لیگ و ق لیگ، ایم کیو ایم ، کنونشن لیگ اور تحریک استقلال کو بھی چرایا ہے۔ یہ بڑے بڑے نام ہیں جو انگریز کو بھی پسند تھے، بھٹو ، ایوب خان، ضیاالحق، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور پرویز مشرف کو بھی پسند رہے اور ہیں۔ ان نامی گرامی لوگوں کا الیکشن کمشن فلور کراسنگ کی ترامیم اور ہارس ٹریڈنگ کی بدبودار اصطلاحیں کچھ نہیں بگاڑ سکیں، تو بھلا میرے دو لفظوں سے ان کی صحت اور سیاست پر کیا فرق پڑے گا؟
زیادہ پرانی سیاسی تاریخ نہیں دیکھتے تاہم 1985تا 2013کے انتخابات کے نقشے اور نقوش بہرحال دلخراش ہیں۔ لوگ کہتے ہیں، وہ لوگ جو میرے حلقہ یاراں کا اثاثہ ہیں ان میں کچھ پی پی پی کی ترجمانی چھوڑ کر پی ٹی آئی کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں اور کچھ ن لیگ کی کلاکاری کا حق ادا کر رہے ہیں اور کہلاتے اپنے آپ کو جرنلسٹ ہیں۔ کسی دیوانے نے درست کہا ہے کہ جب تک پوری ”جیم (ج) تھری“ درست نہیں ہوتی ریاست کا درست ہونا ممکن نہیں، اس ”ج تھری“ کو غور سے دیکھیں تو یہ جرنیلوں، ججوں اور جرنلسٹوں کے آغاز میں آتی ہے۔ دیوانے کو کسی منچلے نے جواب دیا کہ ، اگر ”ج۔3“ ٹھیک ہوبھی جائے اور سیاستدان درست نہ ہوں تو پھر بھی ریاست ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ پھر اس دیوانے کا جواب یہ آیا کہ یہ جیم تھری ترجمانیاں چھوڑ کر نگرانیاں پکڑے تو سیاستدان ازخود ٹھیک ہوجائیں گے! آج کل کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ، ن لیگ اور پی پی پی والے روایتی سیاستدان ہیں لیکن پی ٹی آئی والے ذرا ہٹ کر ہیں۔۔۔۔”ذرا ہٹ کر“! میں سوچ کو درست قرار دیتا ہوں یہ واقعی ذراہٹ کر ہیں کیونکہ یہ نفوذ یذیری کے عمل (osmasis)سے شاخ پی پی پی اور ن لیگ وغیرہ سے بچھڑ کر حصہ تحریک بنے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ عمران خان کو کرپشن سے سخت نفرت ہے اور کرپٹ لوگوں سے شدید محبت ہے بشرطیکہ وہ 1988تا 2013 تک لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو چھوڑ کر ان کی جانب قدم بڑھائیں۔ ماشاءاللہ ان کا سیاسی بہشتی دروازہ ایسی مائیکرو ویوز ، الفرا ریڈ ویوز اور الٹرا سانک ویوز رکھتا ہے جو گزر گیا اس کے جسم میں پلنے والے سارے وائرس اور بیکٹریا مرگئے اور ضمیر زندہ ہوگیا۔ ہم تحریک انصاف میں آنے والے نئے لوگوں (پرانے نہیں) کی خاطر سیانوں کی اس بات سے صاف انکاری ہیں کہ دو چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے“۔ جہاں نیا پاکستان بنانے والوں نے پرانے لوگوں کو ”نیا پن“ دے دیا ہو وہاں ہم مایوس کیوں ہوں؟ ہم اس وقت بھی خوشی سے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں جب امیر مقام اور دانیال عزیز کو ن لیگ کے مقام پر عزیزی ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے دیکھتے ہیں یا فردوس عاش اعوان و بابر اعوان اور نذر گوندل کے عشق کو در تحریک پر نذر و نیاز بانٹتے دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ و مبالغہ یہ لوگ جس جس کا جب جب چاہیں اثاثہ بنیں ہم انہیں ”قومی اثاثہ“ بھی سمجھتے ہیں۔ جو لوگ خود قومی اثاثہ ہوں وہ قوم کے اثاثوں سے جو بھی کریں اور جہاں بھی کریں یہ ان کا استحقاق ہے نا؟ عالم یہ ہے کہ اب قائدین بھی تبھی خوش ہوتے ہیں جب عدالتیں ان کے حق میں فیصلہ دیں۔ ہم نہیں کہتے کہ جرنیل یا ججز ملک و قوم سے باہر ہیں لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ بے چارے عوام اگر کسی کو مینڈیٹ دیتے ہیں تو محض اس لئے کہ ملک و ملت کو سنوارا جائے، اس لئے نہیں کہ قائدین کہلانے والے کہیں کچھ اور کریں جھوٹ بولیں یاصرف اپنا آپ سنواریں۔ اور برا کہیں جیم تھری کو یا اپنی غلطیاں اور گستاخانہ صریحاً فراموش کرکے افسانہ اسٹیبلشمنٹ کی پناہ گاہ ڈھونڈلیں بقول مصطفےٰ زیدی
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
بحیثیت ڈیموکریٹ میں جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین احمد سے اتفاق تو نہیں کرتا تاہم ان کی ایک بات میں دم ہے کہ وہ ”60فیصد کے قریب تو لوگ ووٹ ہی نہیں ڈالتے پس پارلیمنٹ عوامی ترجمانی کی آماجگاہ نہیں بلکہ زر اور زمین کا نمائندہ ادارہ ہے“۔ امریکی تاریخ میں بھی گاہے گائے ہے فیصلے لیڈران کو تنگ کرتے رہے، کسی آئین اور قانون کے تابع فیصلے آئے اور بعض اوقات روایات کے مطابق ، کہیں قومی ضرورت کے مطابق بھی جدید ملائیشیا کے بانی مہاتیر محمد کو بھی عدلیہ سے واسطے پڑتے رہے امریکی صدور ولیم ہنری، جان ٹائیلر اور روز ویلٹ وغیرہ کو بھی عدلیہ کا سامنا کرنا پڑا لیکن بات وہی ہے کہ زیرک سیاستدان صرف اقتدار کا خواہاں ہی نہیں ہوتا وہ اثرات مرتب کرنے اور گفت و شنید میں اچھی کمیونیکیشن کے فن سے آشنا ہوتا ہے گویا صرف اعزاز یا ٹائٹل ہی کسی قیادت کے لئے کافی نہیں ہوتا!
واضح رہے کہ ، پچھلا جمعہ سیاسی اور عدالتی اعتبار سے بہت اہم بلکہ تاریخ ثابت ہوا۔ دوپہر میں ن لیگ سپریم کورٹ سے بہت خوش تھی اور سہ پہر میں تحریک انصاف شاداں و فرحاں تھی دوپہر میں شریف خاندان حدیبیہ کیس سے بال بال بچ گئے اور سہ پہر میں عمران خان نااہلی سے بچ گئے عمران کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین ضرور نااہل ہوگئے ان کی نااہلی سے پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن عمران نااہل ہوجاتے تو پارٹی ریزہ ریزہ ہوجاتی یوں ایک ہی دن میں 2مختلف فیصلوں کے حوالے سے ایک انگریزی رونامے ہے نے {{"the balancing"شہ سرخی جمائی یہی کچھ تبصرہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے کیمپوں سے بھی آیا۔ اہم بات یہ کہ عمران خان کے نااہل نہ ہونے پر ن لیگ کا غم و غصہ دیدنی تھا۔ میاں نوازشریف نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ پہلے عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیا کرتی تھیں (حالانکہ ماضی کا نظریہ ضرورت انہی کے مکتبہ فکر کو تقویت بخشتا رہا۔ اب نظریہ ضرورت کی جدید شکل یہ ہے کہ عدالتوں میں کچھ بینچ نظریہ ضرورت کیلئے تشکیل دیئے جاچکے ہیں یعنی میاں نواز شریف کا لب و لہجہ پیچ و تاب کھاتا رہا اور مریم نوازشریف نے بھی سخت تنقید کی۔ دوسری جانب سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اس لب و لہجے سے اجتناب کے مشورے دیتے رہے وہ الگ بات ہے کہ پی پی پی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین بار بار یہی کہتے ہیں کہ، چوہدری نثار ہی میاں نوازشریف کو اس گرداب تک پہنچانے والے ہیں۔ پاناما کیس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ خواص و عوام جمہوری اور سیاستدان بنیں نہ بنیں قانونی ماہرین بن گئے ہیں۔ پہلے معمول ہوا کرتا تھا کہ فیصلے کے بعد مدعی یا ملزم پارٹی میں سے کوئی ایک عدلیہ سے نالاں ہوتا اب ضرورت سے زیادہ قانون سمجھنے والے وکلاءبھی نالاں یا شاداں دھڑوں میں منقسم ہوتے ہیں۔غیر جانبدارانہ رائے کے مطابق عمران خان اس لئے نااہلی سے بچ گئے کہ انہوں نے ترتیب اور تدبیر کے ساتھ عدالت میں منی ٹریل پیش کی جبکہ میاں نواز شریف اس لئے نہ بچ سکے کہ کبھی ایک وکیل کوکو کہنا پڑتا کہ فلاں کا غذ غلطی سے لگ گیا، اور کبھی کوئی کاغذ بروقت پیش نہ کیا جاتا یعنی وکلاءمیں نظم کا فقدان رہا۔ اب نہ جانے ملک میں آئینی بحران ہے یا قانونی لیکن آئین امریکی ہو یا پاکستانی اس کی نزاکت کو اچھی لیڈر شپ ہی سود مند کرسکتی ہے سچ تو یہ ہے کہ حق سچ والے خود کو آئین کے آئینے میں دیکھ کر ڈر جاتے ہیں یا شرما جاتے ہیں۔ ہر کہیں چار معاملات ضرور ہوتے: (1)کئی مواقع پر آئین خاموش دکھائی دیتا ہے (2)کئی معاملات میں آئین بولتا تو ہے مگر سوالیہ طرز میں (3)ایک حالت ایسی بھی ہوتی ہے جہاں آئین بولتا ہے مگر وہ سیاست کیلئے قابل قبول نہیں ہوتا(4) کبھی آئین تو بول رہاہوتا ہے لیکن ادارے اپنی کم فہمی کی بدولت اسے سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ میں یہاں تند نہیں تانی بگڑی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ، ججوں اور جرنیلوں کے شب خون نہ مارنے کے جذبوں اور اداروں سے سیاستدان استفادہ کریں، سرجوڑ کربیٹھیں، بلاوجہ و بلا ضرورت شعلہ بیان، جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نہ بنیں۔ انہونی اور ان کہی جیسی باریکیوں کو سمجھا جائے۔ شہباز شریف کی پالیسی قابل ستائش ہے وہ خود کو اور پارٹی کو بچانے کے درپے ہیں۔ اورنج لائین اور حدیبیہ کیس کے فیصلوں نے انہیں تقویت بخشی ہے اسی لئے تو فرط جذبات میں ان کے منہ سے نکلا ہے ،” عدلیہ کا شکر گزار ہوں کہ حق سچ کی بات سامنے آگئی“۔ باقی بھی سمجھیں۔٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024