جگر گوشوں پر کیا گزری؟ بہتے لہو کا نوحہ کیا تھا؟ بارود سے اڑنے والے جسمانی لوتھڑوں کا مرثیہ کس قدر دلخراش تھا؟ دہشت گردی اور سانحہ پشاور کے زخموں کے درد کو کون سمجھا؟ جن کے بچے سکول سے واپس نہ پہنچے مگر لاشیں پہنچیں، لاشیں بھی مسخ شدہ، والدین کی ان نگاہوں، سسکیوں، آہوں، آنسوئوں اور چھلنی جگروں پر کیا بیتی ہو گی؟؟؟
ترک دنیا کا سماں، ختم ملاقات کا وقت
اس گھڑی اے دل آوارہ کہاں جائو گے
آرمی، وفاقی حکومت، کے پی کے حکومت ہی امتحانات کا سامنا نہیں کر رہی بلکہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان حکومتیں بھی آزمائش کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ بتا سکیں گے کہ، دہشت گردوں کیخلاف کس طرح اور کون سی حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے۔ میڈیا، علمائے کرام، دانشور اور رفاہی تنظیمیں پوری ایک دہائی میں برین واش نہ کر سکے اور نہ تخریب کے سامنے کوئی دیوار ہی تعمیرکر سکے۔ نظریہ پاکستان کی فلاسفی، صف اول کی آرمی اور بہادر قوم بھی دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ پرویز مشرف حکومت، پھر زرداری حکومت اور اب نواز حکومت بھی دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہے۔ کیا کسی بے بسی اور تدبیر کی کمی کو قحط الرجال نہیں کہا جائے گا؟
اسلام تو عالمگیر مذہب ہے، مومن کیا کافر کو بھی امان دینے معذور، خواتین اور بچے کیا، یہ اسلام تو پھل دار پودوں کو بھی تحفظ کی فراہمی کی تلقین کرتا ہے اور حالت جنگ میں بھی تحفظ دینے کی بات کرتا ہے۔ رزم اور بزم میں جذبات پر قابو رکھنے کی فلاسفی اور حقیقت دنیا والا اسلام کسی طرح بھی کسی قسم کی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔ تدبر، امن، محبت، صلح جوئی، تعمیر اور انسانی حقوق کی پاسداری، انسانیت سے وفاداری کی بات جتنی اسلام کرتا ہے، اور کوئی مذہب نہیں کرتا۔ تعلیمی اداروں، طالب علموں اور اساتذہ کے علاوہ ہسپتالوں میں پڑے مریضوں یا عبادت گاہوں میں محو لوگوں پر آتش و آہن کی اجازت اسلام کبھی نہیں دیتا۔ اس جگ ہنسائی کا جواب کیسے دیا جا سکتا ہے۔ کون دے سکتا ہے۔ سانحہ پشاور کو قومی سانحہ ہم نے ضرور قرار دے دیا ہے لیکن قوم کیلئے کیا یہی کچھ رہ گیا ہے۔ پوری دنیا کی نگاہوں میں ہم مشکوک ہو گئے۔ ہماری ایٹمی توانائی پر نظر رکھنے والے دشمن تو اس قومی سانحہ کو اپنی قومی خوشی سمجھتے ہوں گے۔ ہم یہ بات کب سمجھیں گے کہ موساد، را اور سی آئی اے کو باغبانوں میں سے میر جعفر اور میر صادق مل چکے ہیں۔افغانستان سے ہم نے محبت اور اسلام کا رشتہ اس وقت بھی رکھا جب اسے روس نیست و نابود کرنے کے درپے تھا۔ افغانستان سے ہمارا بھائی چارہ اس وقت بھی عروج پر رہا جب امریکہ افغانستان کے خلاف نبرد آزما تھا۔ ایران اور عراق جب جنگ جاری تھی پاکستان کا ہر فرد خون کے آنسو روتا تھا۔ سعودی عرب سے شام تک، لبنان سے مصر تک پاکستان نے کس کا ساتھ نہیں دیا؟ آج یہ سوچنا ہو گا کہ افغانستان اور ایران اس دہشت گردی میں ہمارا کتنا ساتھ دیتے ہیں۔ اس دہشت گردی کے باب کو بند کرنے میں پڑوسیوں کو ساتھ دینا ہو گا۔ بھارت جیسا پڑوسی تو شاید ساتھ نہ دے لیکن مسلم ہمسائے تو آخر مسلم ہمسائے ہیں۔آرمی سکول کونشانہ بنانے والے نے آرمی لفظ، آرمی قوت، پاکستانی تحفظ اور پاکستانی قوت پر ضرب لگائی گئی۔ کبھی آرمی کیخلاف کبھی جمہوریت کے خلاف، کبھی نظریہ کیخلاف، کبھی تعلیم کیخلاف اور کبھی پاک نفسیات کیخلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ دشمن کی کوشش ہے کہ پاکستان کا سب کچھ مفلوج کر دیا جائے۔ ہزارہ کمیونٹی پر بلوچستان میں حملہ 2013ء ہرروز نہتے شہریوں پر کراچی میں حملے، مذہبی رہنمائوں پر لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں حملے۔ کس کس دھماکے اور حملے کو یاد کریں۔علامہ احسان الٰہی ظہیر سے مولانا حق نواز اور عارف الحسینی کی ورق گردانی کریں۔ اعظم طارق اور شمس الرحمن معاویہ کا تذکرہ کریں؟ حال ہی میں شہید ہونیوالے خالد سومرو پر آنسو بہائیں۔ بے نظیر بھٹو کی ذات پر بات کریں یا اس کراچی کے سانحہ کار ساز 2007ء کو یاد کر کے روئیں اور تڑپیں آخر کب تک …؎
اور کچھ دیر میں لٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
میاں نواز شریف نے بحیثیت سربراہ حکومت تین روزہ سوگ کااعلان کیا ہے۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کے احتجاج اور دھرنے کے کم از کم 18 دسمبر والے پروگرام کو ترک کیا ہے۔ صوبائی حکومتوں نے بھی سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اہم بات یہ کہ دہشت گردوں کیخلاف جاری آرمی آپریشن پر وزیر اعظم نے اعتماد اور اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ دہشتگردوں کی سزائے موت پرعائد پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ارادہ صاف نظر آیا ہے کہ اس حادثہ کے بعد مزید سانحوں سے بچنے کیلئے آپریشن جاری رہے گا۔ اے پی سی بلانے کا فیصلہ درست اور احسن ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اور قائدین عزم کا اظہار کریں کہ کوئی جو مرضی سوچے اور کرے جتنے بھی میر جعفر اور میر صادق ان سے اتحاد کر لیں سبھی عمران و نواز و زرداری و سراج اور سب ملکی تحفظ اور دہشت گردی کیخلاف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن سے مولانا سمیع الحق تک کو نظریہ پاکستان کو مد نظر رکھنا ہے۔ پاکستان بھر کی ایجنسیاں وہ چاہے 23 ہیں یا 24 انہیں تساہل پسندی چھوڑ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ وزارت داخلہ کو شناختی کارڈ سے پاسپورٹ تک پر نظر رکھنی ہو گی ٹیلی فون کی موبائل سموں کو ایک آدمی کیلئے ایک تک محدود کر دیا جائے کسی ملٹی نیشنل کمپنی کا نہیں ملک کا خیال کیا جائے۔ بارڈر سے بازاروں تک کے سی سی ٹی وی کیمروں کو خصوصی طور پر عمل میں لایا جائے۔ سانحہ واہگہ پر اگر نہیں جاگ سکے تو سانحہ پشاور پر حکومت اور ہر شہری کا بیدار ہونا فرض ہو گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تمام ایجنسیاں اپنے آپ کو جدید کرنے کے علاوہ آپس میں کو آرڈینیشن بھی بڑھائیں عدالتیں بھی اپنا احسن کردار ادا کریں۔
وزیر اعظم، وزارت داخلہ، وفاقی سول سکیورٹی اور آرمی سکیورٹی کے تمام ادارے چار ڈویژن میں تقسیم ہونے چاہئیں اسی طرح پانچواں ڈویژن ہر وزیر اعلیٰ کا ہو۔ پانچوں اپنے سربراہان کو جواب دیں اور آپس میں نیٹ ورکس کے ہفتہ وار روابط قائم رکھیں کیونکہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ اپنی اپنی سیاست ضرور بچائیں اور چمکائیں بھی ضرور لیکن سب سے پہلے پاکستان، ایٹمی پاکستان اور نظریاتی پاکستان کو بچانا ضروری ہے۔ آگے بڑھنا ہے اسلامی دنیا اور تیسری دنیا کی قیادت ضرور کرنی ہے۔ گھبرانا نہیں، ڈرنا نہیں اور بڑھنا ہے!!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024