سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور مرکز میں میاں نوازشریف سب طبل و علم کے مالک و مختار ہیں۔ گو ان میں شدید اختلافات رہے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب محترمہ بینظیر اور میاں نوازشریف ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے لیکن آہستہ آہستہ انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ جھگڑے میں ان کے ہاتھ تو کچھ آیا نہیں‘ آپس کی لڑائی میں‘ بقول زرداری صاحب‘ بلا سارا دودھ پی جاتا ہے۔ چنانچہ ”ادھر ہم ادھر تم“ کی مفاہمت کا آغاز ہوا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے ڈیرے ڈال دیئے۔ پنجاب (ن) لیگ کی جاگیر ٹھہرا اور مرکز میں باری باری کی پالیسی اپنائی گئی۔ کہتے ہیں دو عوامی فریقین کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ (1) باہمی دشمن (2) باہمی مفاد
دشمنوں کا ادراک دونوں کو ہو گیا۔
سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
عمران اور مولانا قادری کے دھرنے کو ناکام بنانے میں پیپلز پارٹی کا نمایاں کردار رہا ہے۔ اس گھبراہٹ کے عالم میں اس نے نہ صرف میاں نوازشریف کو ہمت اور حوصلہ بخشا بلکہ اختلاج قلب دور کرنے کے لئے خمیرہ گا¶زبان کا بھی بندوبست کیا۔چونکہ اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے اور یہ ہر قسم کی اخلاقیات‘ مروت اور محبت کے جذبوں سے ماورا ہوتا ہے۔ اس لئے صاحب اقتدار کو یہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ دوست‘ دست درازی پر نہ اتر آئے۔ اس قسم کی پریشان کن صورت حال سے بچنے کے لئے چند آزمودہ نسخے آزمائے جاتے ہیں۔ وقت اور حالات نے حکمرانوں کو جو چند مواقع فراہم کئے۔ انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایک تو سندھ کا وہ امیر ترین شخص تھا جس پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے اور وہ بڑے بھائی کا بھائیوں جیسا دوست تھا.... اور دوسری وہ عمر خیام کی رباعی‘ غالب کی غزل‘ جس کی دزیدہ نگاہی پر پیمان وفا کی تاک میں رہتی ہے وہ جو زبان و بیان کی نزاکتوں کو نہیں سمجھتے‘ انہیں بھی سمجھ آ گئی کہ ”ایک پنتھ دو کاج“ کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ حسن پر اگر ٹیکس نہیں لگ سکتا تو ”کیریئر“ پر کسٹم کے ضابطوں کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔
وہ حسن جہاں سوز سب قانونی رکاوٹیں عبور کر کے جب عرب کے صحرا میں طلوع ہوا ہو گا تو یا حبیبی یا قلبی کے نعروں کے درمیاں برج خلیفہ بھی ضرور لرزا ہو گا۔باایں ہمہ کچھ لوگ یہ سمجھتے رہے کہ
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
یہ سب فرینڈلی فائر ہیں۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ میاں شہباز شریف زرداری کو گوالمنڈی میں گھسیٹنے کی بات کریں یا بلاول میاں نوازشریف کو دمام دم مست قلندر کی دھمکی دیں۔ یہ سب باتیں کمپنی کی مشہوری کے لئے ہیں۔ سب سیاست دان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جو کہتے ہیں وہ مطلب نہیں ہوتا اور جو مطلب ہو وہ کہہ نہیں پاتے۔ ان تمام الزامات اور وسوسوں کے باوجود، پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
اے ڈی خواجہ آئی جی سندھ کا معاملہ عدالت میں ہے۔ ظاہر ہے جو فیصلہ ہو گا‘ ماننا پڑے گا۔ سندھ حکومت ہار کی صورت میں عدالت عظمیٰ میں جانے کا عندیہ دے چکی ہے۔ عدالت جو بھی فیصلہ کرے‘ چند بنیادی حقائق کا جاننا ضروری ہے۔ دراصل یہ جھگڑا صوبائی خودمختاری کا ہے۔ وفاق اور صوبے میں ٹھن گئی ہے۔ وفاق کے پس پردہ نوکرشاہی ہے جو کسی طور بھی اپنی برتری ختم نہیں ہونے دے گی۔ انگریزی دور کا یہ وہ طاقتور تحفہ ہے جسے نہ قانون کی پروا ہے نہ آئین کا احترام۔ ایک عجیب مدقوق سی منطق اپنا رکھی ہے۔ فلاں صوبوں اور مرکز کے درمیان معاہدہ ہو گیا تھا کہ چیف سیکرٹری اور آئی جی مرکز تعینات کرے گا۔ صوبائی اور مرکزی پوسٹوں کا تناسب یہ ہو گا۔ اس سے ہمیں ایک پرانا واقعہ یاد آیا ہے۔ میرا تعلق تلہ گنگ سے ہے۔ تلہ گنگ کے مضافات میں ایک رکھ ہے جس میں پیر کا مزار ہے۔ تقسیم سے قبل ایک عقیدہ تھا کہ پیر ناڑہ کی رکھ سے کوئی غیر سید لکڑیاں نہیں کاٹ سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ نقصان اٹھائے گا۔ یہ عقیدہ اس قدر راسخ ہو چکا تھا کہ ہندو بھی اس کا احترام کرتے تھے۔ سکھوں کا معاملہ البتہ دوسرا تھا۔ یہ جتھا لے کر مزار پر پہنچے۔ ایک خالصہ اندر چلا جاتا۔ باقی باہر کھڑے ہو کر کورس کے انداز میں کہتے ”پیر ناڑہ جی لکڑیاں وڈھ لئی اے“ اندر سے آواز آتی ”وڈھ لہو“ (کاٹ لیں) اس پر سب سکھ ڈھول کی تال پر ناچنے لگتے۔ ساہنوں اذن مل گیا اے۔ اجاجت مل گئی اے۔ پھر بھوترے ہوئے سکھ ہوتے۔ کلہاڑے چلتے اور چیختی‘ سیٹیاں مارتی ہوئی ہوا ہوتیں۔ مرکز اور صوبوں کا معاہدہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہوتا ہے۔ صوبے سے چیف سیکرٹری جاتا ہے جو سی ایس پی ہے۔ مرکز میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ بیٹھا ہوتا ہے جو وہ بھی CSP ہوتا ہے۔ وہاں بیٹھے بیٹھے بندربانٹ ہو جاتی ہے اور پھر اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں۔ صوبوں اور مرکز میں معاہدہ ہو گیا ہے۔ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔ شریف برادران کو صوبائی سروس پر ایک مرتبہ پیار آیا۔ جب مرکز میں بے نظیر تھیں۔ انہوں نے اپنا چیف سیکرٹری بھیجا تو وزیراعلیٰ میاں نوازشریف نے فرمایا۔ میں اس چیف سیکرٹری کو باغ جناح کا سپرنٹنڈنٹ گارڈن لگا دوں گا۔میاں صاحب نے جب پرویز مسعود کو چیف سیکرٹری بنا کر بھیجا تو وزیراعلیٰ نے اس حکم کا ماننے سے یکسر انکار کر دیا۔ الٹا پرویز مسعود کی گرفتاری کا حکم صادر فرمایا۔ بے چارے کو نصف شب جسٹس محبوب احمد سے ضمانت قبل از گرفتاری کرانا پڑی۔ انہوں نے چیمے کو آئی جی مقرر کیا تو وٹو کے تعینات کردہ آئی جی‘ جی اصغر ملک نے ایک ”آرڈر آف دی ڈے“ نکالا۔ ”ایک چیمہ نامی شخص اپنے آپ کو آئی جی پنجاب کہلواتا ہے۔ کوئی پولیس افسر و اہلکار اس کا حکم نہ مانے“ آئین کی رو سے صوبائی خودمختاری کا تقاضہ ہے کہ لاءاینڈ آرڈر صوبائی سبجیکٹ ہے۔ مرکز کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ ایک پرانا قصہ ہے۔ بابر بادشاہ جب پہلی بار ہاتھی پر سوار ہوا تو پوچھا۔ اس کی راہیں کہاں ہیں؟ اسے بتایا گیا۔ ہاتھی کی راہیں نہیں ہوتیں۔ اس کو مہابت چلاتا ہے۔ اس پر وہ یہ کہہ کر نیچے اتر آیا۔ جس چیز کا کنٹرول میرے ہاتھ میں نہ ہو۔ اس پر سواری نہیں کر سکتا۔ یہ کیسا صوبائی وزیراعلیٰ ہے جو نہ تو کسی مرکزی ملازم کو معطل کر سکتا ہے اور نہ اللہ ڈنو (اللہ دتا) خواجہ کو تبدیل۔ سمجھ نہیں آتی کہ خواجہ صاحب کو اس قدر عظیم نام پر انگریزی لاحقے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ اگر زیادہ ہی ”احساس کمتری“ ختم کرنا تھا تو پھر GOD GIVEN KHAWJA لکھ لیتے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024