یورپ کے ایک چھوٹے ملک کے چھوٹے سے شہر ”کرستیانسن“ میں گزشتہ ماہ 29اگست کو شہری پولیس کو ”سوگنے“ کی نہرسے ”علمہ گبریلہ“ نامی ایک لڑکی کی لاش ملی، پولیس نے لاش قبضے میں لے کر ابتدائی تفتیش میں لڑکی کی موت کو حادثہ قرار دیدیا، لیکن پولیس نے فرانزک اسٹڈی اور لڑکی کے موبائل سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے بعد تفتیش کو آگے بڑھایا تو پتہ چلا کہ علمہ گبریلا کی موت حادثانی نہیں تھی بلکہ اُسے قتل کیا گیا تھا، صرف چند روز کی تفتیش کے بعد اِسی ہفتے13 ستمبر کو پولیس لڑکی کے قاتل تک جاپہنچی ۔ لڑکی کو اُس کے ہم عمر دوست نے قتل کرکے لاش نہر میں پھینک دی تھی،یقینا قتل کا یہ واقعہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھا کیونکہ یورپ سمیت دنیا بھر میں قتل کے ایسے واقعات روزانہ پیش آتے ہیں، لیکن کرستیانسن جیسے شہر میں یہ واقعہ اس لحاظ سے واقعی بہت بڑا واقعہ تھا کیونکہ کرستیانسن جس ملک میں واقع ہے،وہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہاں جرائم کی شرح کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 385178مربع کلومیٹر رقبے اور5165802 آبادی والے اِس ملک میں گزشتہ بیس برسوں میں قتل کا یہ محض تیسرا واقعہ تھا،لیکن اِس واقعہ نے بھی نا صرف کرستیانسن شہر بلکہ پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا۔ یہ ملک کوئی اور نہیں ،یورپ میں امن، سکون اور فلاح کا مثالی نمونہ کہلانے والا ناروے ہے۔
قتل کے اس واقعہ کے بعد ناروے کے پریشان ہونے کی وجہ دراصل اس کا فلاحی ریاست ہونے کا تصور مسخ ہونے کا خوف تھا کیونکہ ناروے گزشتہ کئی دہائیوں سے یورپ سمیت پوری دنیا میں فلاحی ریاستوں میں سرفہرست سمجھا جاتا ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آج ناورے اقوام متحدہ کے انسانی ترقی کے انڈیکس کے مطابق صحت، تعلیم،شہری آزادی، پریس فریڈم، معیار زندگی، بہترین غذا اور انسانی حقوق میں پہلے نمبر پر آتا ہے، ناروے میں شیر خوار بچوں کی شرح اموات دنیا میں سب سے کم ہے، زیادہ فی کس آمدنی والے ممالک میں ناروے چوتھے نمبر پر ہے جبکہ مجموعی ملکی دولت کے اعتبار سے ناروے دنیا کا دوسرا امیر ترین ملک ہے۔یوں ناروے دنیا کا سب سے مستحکم اور خوشحال ملک بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ناروے کے شہریوں کو تعلیم، صحت ، سوشل سیکورٹی اور سفر سمیت ہر طرح کی ایسی سہولیات میسر ہیں، جن کا دنیا کے دوسرے ممالک کے شہری صرف تصور ہی کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا میںآج کے ناروے کے نظام حکومت کو دنیا کا بہترین اور فلاحی نظام حکومت سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ نظام حکومت اپنے عوام کو (حقوق) دینے اور ان کی خدمت کے معاملے میں جتنا سخی ، فیاض اور کشادہ دل ہے، عوام سے (فرض کی ادائیگی) لینے کے معاملے میں اُس سے کہیں زیادہ سخت، جابر اور ظالم بھی ہے۔ نارویجن عوام کو اپنے ملک کے اندر اور ملک سے باہر ہر جگہ دنیا جہان کی ہر طرح کی سہولت ملتی ہے، لیکن ٹیکسز کی وصولی کے معاملے میں نارویجن عوام سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جاتی ، کسی کو کوئی استثنیٰ دیا جاتا ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی امتیاز روا رکھا جاتا ہے۔ نارویجن عوام کی اکثریت ملازمت پیشہ ہے۔2011ءکے اعدادوشمار کے مطابق ناروے میں مستقل سکونت رکھنے والے کل وقتی ملازمین کی اوسط سالانہ کل آمدنی بشمول ٹیکسز 00 0 440کرونے ہے، لوگوں کو اُن کی تنخواہیں ہر مہینے مخصوص تاریخ کو بینک اکاو¿نٹس میں بھیج دی جاتی ہیں۔ ملازم کو تنخواہ کی ایک رسید بھی ملتی ہے جس میں یہ درج ہوتا ہے کہ اس کی کل آمدنی کتنی ہے اور اس میں سے ٹیکس کی کتنی ادائیگی ہوئی ہے۔آجر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملازم کواصل آمدنی کی ادائیگی سے پہلے اس کی کل آمدنی سے ٹیکس کی کٹوتی کرے۔ آجر ہی ٹیکس کی یہ رقم حکومت کو منتقل کرتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کسی شخص یا ادارہ کی جتنی زیادہ آمدن ہو گی، اُسی حساب سے ٹیکس کی شرح بھی زیادہ ہو گی۔ ایسی چیز یں کہ کوئی قرضوں پر کتنا سود ادا کرتا ہے، بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کتنی ادائیگی کرتا ہے، کسی شخص کے کام کی جگہ تک سفری اخراجات کتنے ہیں، یہ بھی اُس شخص کے ٹیکس کی شرح کے تعین میں شمار ہوتا ہے، یوں اوسطاً ایک ملازم اپنی کل آمدن کا 25 فیصد سے زیادہ براہ راست ٹیکس میں حکومت کو ادا کرتا ہے ، یوں ناروے میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 43.5فیصد ہے، جو سب سے زیادہ ہے۔ جب لوگ حکومت کو پوری ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو اُن کی حکومت بھی اپنے شہریوں کا مکمل خیال رکھتی ہیں۔
ناروے کے برعکس پاکستان میں ٹیکسز اور محصولات کی ادائیگی اور وصولی کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہی نہیں بلکہ انتہائی شرمناک بھی ہے، عام لوگوں کوتو چھوڑیں، جنہیں اس حوالے سے مثال بننا چاہیے، اُن کی صورتحال زیادہ شرمناک ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں 2013ءمیں شائع ہونے والی ٹیکس ڈائریکٹری کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ اور اشرافیہ کے ارکان نے جو ٹیکس گوشوارے بھرے وہ اُن کے ظاہری اثاثوں اور دولت کی نسبت انتہائی کم تھے، جب سیاسی رہنما خود ٹیکس نہیں دیں گے تو کیا دوسرے لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ریاست اور حکومت چلانے کیلئے ٹیکسز ادا کرینگے؟پاکستان میں ٹیکس وصولیوں کی صورتحال پر تو برطانوی جریدہ ”اکانومسٹ“ بھی چیخ پکار کرچکا ہے۔ اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیکس کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ ارکانِ پارلیمینٹ کی اکثریت امیر ہے، لیکن ٹیکس ریٹرن فائل ہی نہیں کرتے، ٹیکس ٹو جی ڈی ریشو محض 9.1فیصد ہے جو ایتھوپیا جیسے ملک سے بھی کم ہے۔ دولت مند شہری، بابو کلاس، تاجر، اور زمیندار طبقہ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتا ہے۔ گزشتہ چار سال سے وفاقی بجٹ میں ٹیکس جمع کرنے کا جو ہدف رکھا جاتا ہے بدقسمتی سے وہ بھی حاصل نہیں ہو پایا۔پاکستان جو ٹیکس جمع کرتا ہے اس کا سب سے زیادہ حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ حکومت کو باقی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لئے قرض لینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں درمیانے درجے کے لاکھوں کاروباری ادارے اور افراد بھی نہ اپنی حقیقی آمدن ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہی پورا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کردار بھی قابل گردن زنی ہے کہ مزید لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے بجائے یہ ادارہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھی غیر قانونی طور پریشان کرتا ہے۔
قارئین کرام!!یہ ٹیکس کلچر کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے کہ ناروے جیسے ملک میں جرائم کی شرح سب سے کم اور نہ ہونے کے برابر ہے، یہی وجہ ہے کہ ناروے میں کوئی جیل بھی نہیں ہے اور اُسے اپنے قیدی برطانیہ، سویڈن اور دوسرے یورپی ممالک میں کرایے کی جیلوں میں رکھنے پڑتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم ہیں کہ ایک ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی خود سے بیس حصے چھوٹے ملک ناروے سے بھیک (امداد) لے کر بہت سے منصوبے چلارہے ہیں،وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی ایسا نظام وضع کیا جائے کہ جس سے بدعنوانی میں کمی ہو اور لوگ رضاکارانہ طور پر ٹیکس ادا کریں۔پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے صدر، وزیر اعظم،وزرائ، گورنرز، دیگر مقدس گائے اور اشرافیہ کو ٹیکس ادا کر کے خود مثال قائم کرنی چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیکس کلچر کی وجہ سے ہی آج ناروے اوپر والا (دینے والا) ہاتھ ہے اور پاکستان نیچے والا (لینے والا) ہاتھ ہے۔ کیا اب بھلا یہ لکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے؟ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ ہم نے پاکستان میں ٹیکس کلچر کو فروغ دے کر اوپر والا ہاتھ بننا ہے یا نیچے والا ہاتھ ہی بنے رہنا ہے؟کیا ہم نے نیچے والا ہاتھ ہی بنے رہنا ہے؟