اس بات سے شاید ہی کسی ذی شعور کو اتفاق نہ ہو کہ کوئی بھی خطہ زمین اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے پڑوسی ممالک کو تبدیل کر سکے اور اسے اس بابت ذرا سا بھی اختیار حاصل نہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ ایسی زمینی حقیقت ہے جس کا ادراک وطن عزیز کے ہر خاص و عام کو ہے تبھی تو پاکستان کی اپنے قیام کے روزِ اول سے ہی یہ کوشش و خواہش رہی ہے کہ دنیا بھر کے سبھی ممالک کے ساتھ عموماً اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بالخصوص خوشگوار ہمسائیگی کے تعلقات کو نہ صرف قائم رکھا جائے بلکہ ان میں حتیٰ الامکان بہتری لائی جائے۔ اور اپنی اس کوشش میں پاکستان کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی کیونکہ قوموں کی برادری کی بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہیں مگر دوسری جانب اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بد قسمتی سے بھارت کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا ہمسایہ میسر آیا جس نے وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور اپنی اسی مذموم روش کے چلتے نہ صرف وہ ایک سے زائد مرتبہ پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کا مرتکب ہو چکا ہے بلکہ پاکستان کو دو لخت کرنے کے بد ترین جرم کا ارتکاب بھی کر چکا ہے اور اپنے اس فعل پر بجائے شرمندہ ہونے کے وہ کھلے عام بارہا اس کا اعتراف کرتا آیا ہے۔
اسی تناظر میں 14 نومبر کوچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات کاکہناتھاکہ’’ بھارت پاکستان میں دہشتگردی کو ہوا دے کر آگ کے ساتھ کھیل رہا ہے اور غیر ریاستی عناصر کے ذریعے بھارتی جنوبی ایشیاء کو عدم استحکام کا شکار کر رہا ہے۔ ماحولیاتی تغیرات اور آبی مسائل پیچیدہ چیلنجز کو مزید بڑھا رہے ہیں اور مسئلہ کشمیر بدستور جوہری جنگ کے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسکے علاوہ انھوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے جبکہ بھارت میں انتہا پسندی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کا یہ عالم ہے کہ اوسطاً ہر 20 کشمیریوں پر قابض بھارتی فوج کا ایک سپاہی متعین ہے‘‘۔
علاوہ ازیں اسی روز پاک سپہ سالار نے ’’منگلا‘‘ میں دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی‘‘(انشاء اللہ) ۔یہ بات سبھی کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے کہ را اور NDS کے اشتراک سے بلوچستان اور فاٹا میں سفاکانہ دہشتگردی کی تازہ لہر میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ اسے بھارتی حکمرانوں کی بدبختی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اپنی خود ساختہ طاقت کے نشے میں چور ہو کر وہ دنیا بھر کے امن کو دائو پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہاں پر یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی سابق وزیر اعظم ’’ اٹل بہاری واجپائی‘‘ نے خود اپنی تصنیف’’ میری اکاون(51 ) نظمیں‘‘ میں کہا کہ ’’ پربھو (بھگوان) مجھے اتنی اونچائی نہ دینا کہ میں دوسروں کو جھک کر گلے نہ لگا سکوں‘‘ ۔ اگرچہ ایک سے زائد مواقع پر موصوف نے اپنی ہی اس بات کی نفی کی ۔
بہر کیف امید کی جانی چاہیے کہ دہلی کے حکمران ہوش کے ناخن لیں گے تا کہ دنیا کا یہ خطہ کسی نئی آزمائش سے دوچار نہ ہو اور اس ضمن میں کلیدی بات یہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشتگردی کا سلسلہ فی الفور بند کر کے کشمیریوں کو ان کا بنیادی انسانی حق ’’حق خودارادیت‘‘ دیا جائے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بند کر کے برابری اور عدم مداخلت کے اصولوں پر تعلقات استوار کیے جائیں کیونکہ یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ ’’ دوست تو شاید بدلے جا سکتے ہوں مگر ہمسائے نہیں! ‘‘