جب تعلق بوجھ بن جائے تو اسے اتار دینا چاہیے اس سے چھٹکارہ پا لینا چاہیے اور جب معاملہ دھرتی ماں کا ہو، مادر وطن کا ہو تو ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ خدا گواہ ہے کہ بھائی حسین حقانی سے کئی دہائیوں پر محیط محبت و احترام کا تعلق' پاکستان پر قربان کرتے ہوئے کئی بار سوچا، اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی، فرار کے راستے تلاش کرنے کے لئے دلائل تراشے، ایمان کم تر درجے میں خاموش رہنے کے بارے میں سوچا لیکن گذشتہ کئی راتوں سے سوچ و بچار میں گم سم رہا جب کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تو تھک ہا رکر بے سدھ پڑا رہتا۔ان تاریک راتوں میں میری اماں جان نجانے کون کون سی ردبلا آیات پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتی رہی ہیں کہ اچانک میرے بابا جی، حاجی محمد رمضان خان پردہ سکرین پر نمودار ہوتے ہیں۔ اپنے مخصوص پٹیالوی لہجے میں فرماتے ہیں "دیس دھرم ایمان ہوندا اے، نہ گھبرا، مرد بن میدان آ، کھل کے گَل کر، پاکستان نوں کنڈ نا وکھا، اْٹھ پتر دل دی من قلم اٹھا تے ڈٹ جا"۔
جناب حسین حقانی گذشتہ ماہ ابا جی کے انتقال پر اولین تعزیت کرنے والوں میں شامل تھے۔ کئی بار سوچا، بار بار سوچا کہ مروت اور اخلاق بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ شاید یہ کالم نگار رخصت کی راہ اپنا لیتا، خاموش رہتا، کچھ نہ کہتا لیکن حسین حقانی کی تازہ واردات پر اور کون جواب دیتا اور کون میدان آتا، کون رسم جوہر دکھاتا۔ حسین حقانی کا سارا رائیگاں سفر ہالی وڈ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے۔نیک نام میجر (ر) سلیم حقانی ایڈووکیٹ کے لائق فائق فرزند ارجمند حسین حقانی اس کالم نگار پر بڑے مہربان رہے ہیں۔ واشنگٹن یاترائوں کے دوران ہمیشہ ان کو نوازشات سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ مدتوں پہلے بی بی شہید بینظیر بھٹو کے جنوب ایشیائی طلبہ کو ایک لیکچر میں اصرار کر کے بلایا اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے بڑی محبت سے تعارف کرایا آج تک یاد ہے۔ بی بی شہید بڑی بہنوں کی طرح چن چن کر میوہ جات والے بسکٹ میری پلیٹ میں ڈالتی رہیں۔ گذشتہ برسوں میں آخری بار واشنگٹن گیا تو ہزاروں کے مجمع میں حقانی بھائی سب کو نظرانداز کر کے کامل تین گھنٹے اس کالم نگار کی میز پر بیٹھے رہے۔ اس طویل مکالمے میں اس خاکسار کی مدد مہاگرو ایم انور عزیز چودھری نے کی ورنہ حقانی صاحب سے مکالمہ جاری رکھنا میرے لئے ممکن نہ ہوتا۔ ریٹائرڈ سیاست کار اور بزرگ دانشور انور عزیز چودھری متعدد بار قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر رہے ہیں۔ حقیقی معنوں میں علم اور کتاب کے آدھی ہیں۔ کتب بینی کے ایسے عاشق زار کہ ساری ساری رات کتابوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ اس کالم نگار کی زندگی پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ایسی تربیت اور راہنمائی کی ہے کہ صوفی اسلام کے تصور مرشد کے معدوم ہوتے نقوش دوبارہ روشن و آبدار ہو گئے۔ وہ وفاشعاری کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں اور ہم نے پاکستان سے وفا کا رشتہ نبھانے کے لئے علم اٹھا لیا۔
حسین حقانی سے مراسم کا یہ عالم تھا کہ گذشتہ عام انتخابات 2013ء کے دوران روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں رہتے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی میاں محمودالرشید پہلے شخص تھے جنہوں نے حقانی صاحب سے محتاط رہنے کا عندیہ تھا۔
عام انتخابات کے بعد بھابھی فرح ناز اصفہانی کے اسلام آباد آنے اور ایوان صدر پہنچنے کی اطلاع جناب حسین حقانی نے دیتے ہوئے ہدایت کی تھی، تمہاری بہن آرہی ہیں ان کا خیال رکھنا اور ان کی ہر ممکن مدد کرنا۔ آپا فرح اصفہانی سے شاید صرف ایک بار گفتگو ہو پائی تھی کہ ان کی اخباری ضروریات کے پیشِ نظر ایک نیوز ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک زود رنج دوست سے ان کا رابطہ کروا کے فارغ ہو گیا پھر حسین حقانی اسلام آباد کے چکر لگاتے رہے۔ سفیر مقرر ہوئے پھر میمو گیٹ پر فارغ ہوئے اور ہماری قربتیں دوریوں میں بدلتی گئیں۔ میموگیٹ سماعت کے دوران لاہور کے معروف ریڈیالوجسٹ محترم و مکرم ڈاکٹر تنویر زبیری نے فون کر کے اس کالم نگار کو ہدایت کی حسین بھائی دبائو میں ہیں ان کے لئے شان شایان عشائیے کا انتظام کرو۔ کالم نگار ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کی شخصی ضمانت اور نادیدہ اشاروں پر حسین حقانی ہمیشہ کیلئے پاکستان سے چلے گئے کبھی واپس نہ آنے کے لئے جھوٹے وعدے کر کے فرار ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ ان کی واپسی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے جنرل کیانی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
واشنگٹن سے ایک دوست نے بتایا کہ حسین حقانی، جنرل شجاع پاشا کے سرکاری خطوط کی ایک فائل وہاں دکھاتے پھر رہے ہیں جس میں سفیر پاکستان سے 65 مشکوک امریکیوں کو فوری ویزے جاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اس فائل میں اس طرح کے پانچ مزید خطوط موجود ہیں جو آبپارہ سے انہیں لکھے گئے تھے اور گو ناں گوں صفات کے مالک حسین حقانی اسی طرح کا سارا حساس ریکارڈ پاکستانی سفارت خانے سے اپنے ساتھ لے گئے تھے جسے اب وہ فوج کو ادارہ جاتی سطح پر بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔
واشنگٹن میں مقیم میرے ایک دیرینہ کرم ساتھی اخبار نویس فیصل قاضی بتا رہے تھے کہ حقانی صاحب صدر ٹرمپ کی نظروں میں آنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ تازہ ترین انکشافات کو سرکاری نوکری کے لئے درخواست سمجھنا چاہئے۔ فیصل قاضی بتا رہے تھے کہ امریکی ایوان اقتدار میں بے چارے حقانی کی اہمت اس وقت کیا ہو سکتی ہے جب ٹرمپ پاکستان پر توجہ دینا ضروری سمجھیں گے۔ اس لئے حقانی یا اس کے انکشافات کو بہت زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ خدمت کے حاضر، ملازمت کے طلب گار کی درخواست ہے۔
اب یہاں کچھ ذکر ریٹائرڈ جرنیلوں کا جو وردی اترتے ہی عیاں ہو جاتے ہیں مال و دولت کی ہوس، وہی عامیوں جیسا ندیدہ پن گزشتہ تین دہائیوں سے کیا کچھ نہیں دیکھا صرف ایک جرنیل با وقار دیکھا وہ جنرل وحید کا کڑ تھے۔ کمانڈو جرنیل کے کیا کہنے کہ سر عام ٹھمکے، دادرے اور ٹھمریاں لگاتے اور مظاہرہ فن دکھاتے رہے کوئی روکنے ٹوکنے یا سمجھانے والا نہیں تھا۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں پوری کر دی تھی ۔
مرشدم جناب مجید نظامی صاحب کے ساتھ کمانڈو جرنیل نے جو واردات کی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ جنرل مشرف نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ بھارتی وزیراعظم واجپائی کو سیلوٹ نہیں کریں گے۔ جناب نظامی ،قاضی صاحب سے ملے اور صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جس پر واجپائی کی آمد پر لاہور کو جماعت اسلامی کے شوریدہ سر کارکنوں نے میدان جنگ بنادیا تھا جس کی کمان بوڑھا جرنیل قاضی حسین احمد خود کررہا تھا۔اب قبلہ نظامیصاحب اظہارتاسف کررہے تھے کہ جنرل مشرف نے واجپائی کو گورنر ہائوس میں سیلوٹ کرکے مجھے دھوکہ دیا صرف خواجہ سعد رفیق واحد مسلم لیگی رہنما تھے جنہوں نے واجپائی کے اعزاز میں ہونے والے عشائیہ کا بائیکاٹ کیا تھا جس کا اکرام جناب مجیدنظامی آخری سانس تک کرتے رہے۔
اسی دور کے ایک دو نہیں 5 جرنیلوں کی پتلونیں بھری عدالت میں گیلی ہوتے دیکھیں جب چیف جسٹس افتخار چودھری نے ایک معروف پراپرٹی ڈیلر کی نمائندگی کے لئے سپریم کورٹ میں حاضر ان جرنیلوں سے استفسار کیا کہ ان میں مالی اختیارات کس کس کو دیئے گئے ہیں۔ ہمارے یہ مایہ ناز جرنیلوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے ۔
جنرل شجاع پاشا سنا ہے قطر میں نوکری کرتے ہیں۔ ہمارے سب سے بڑے جمہوریت پسند سپہ سالار جنرل جہانگیر کرامت واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک میں کلرک والے ڈیسک پر بیٹھ کر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔ حرف آخر یہ کہ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب ردالفساد پاکستان کو دہشت گردوں سے بچانے کے لئے ناگزیر ہے جس میں ہمیں شاندار کامیابیاں حاصل ہو ہری ہیں۔ لیکن ماضی کے جو قرض فرض منصبی کی وجہ سے آپ کے کندھوں پر آ گئے ہیں ان کی ادائیگی کون کرے گا۔ ڈان لیکس، ایبٹ آباد کمشن حضرت مولانا پروفیسر ساجد میر کی یاوہ گوئی کی تحقیقات کب مکمل ہوں گی۔ (ISPR) اور حسین حقانی کی (CRS) میں جاری کاروبار کے رازوں سے پردہ کون اٹھائے گا۔ جنرل صاحب قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024