ستر سال کے بعد بھی بلوچستان پاکستان کا پسماندہ صوبہ ہے جس پر کھربوں روپے خرچ ہوئے مگر زمین پر نظر نہیں آتے۔ قومی سیاسی جماعتوں نے اس صوبے پر توجہ نہ دی اور سیاسی تنظیمی کام نہ کیا۔ قبائلی سردار آج بھی بلوچستان میں بااثر ہیں۔ قومی سیاسی جماعتوں کو انہی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے بلوچستان میں اکثریت حاصل کرلی۔ میاں نواز شریف نے اپنی تیسری ٹرم کا آغاز دانشمندی سے کیا۔ بلوچستان میں قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دیا جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کیلئے بھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔ بلوچستان حکومت نے جب نصف ٹرم مکمل کرلی تو معاہدہ کے مطابق ڈاکٹر عبدالمالک وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہوگئے اور مسلم لیگ(ن) کے نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ بن گئے۔ یہ آئینی اور جمہوری تبدیلی تھی۔ جب کسی جماعت کا مرکزی لیڈر سیاسی اور جمہوری اُصولوں اور روایات کو نظرانداز کرکے ’’بادشاہ‘‘ بن بیٹھتا ہے اور اپنی جماعت کے کارکنوں اور ارکان اسمبلی سے رابطہ توڑ دیتا ہے تو صوبائی لیڈر بھی ’’شہزادے‘‘ بن جاتے ہیں اور جماعت کے اندر مایوسی اور بداعتمادی پیدا ہونے لگتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی وزیراعلیٰ کی کارکردگی کسی حوالے سے بھی اطمینان بخش نہیں تھی۔
میاں نواز شریف پاناما کیس کے دبائو کی وجہ سے عمومی طور پر اپنی جماعت اور خصوصی طور پر بلوچستان حکومت پر توجہ نہ دے پائے اور پارٹی کے ارکان اسمبلی انکی گرفت میں نہ رہے۔
پاناما کیس کے فیصلے کے بعد میاں نواز شریف نے مقتدر ریاستی اداروں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ تصادم پر مبنی مہم جویانہ حکمت عملی نے مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی کو اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں فکر مند کردیا اور ان کا قیادت پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ مودی کی رائے ونڈ آمد سے اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی میاں صاحب سے نالاں تھی، جب انہوں نے تحریک عدل کا نعرہ لگایا تو وہ گہری تشویش میں مبتلا ہو گئی۔ بلوچستان کے اراکین اسمبلی کو یقین ہونے لگا کہ میاں صاحب کی ریاست کے مقتدر اداروں سے کھلی محاذ آرائی انکے سیاسی مستقبل کیلئے نیک فال ثابت نہیں ہوگی۔
بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں نے مسلم لیگ(ن) کے اندرونی اضطراب اور بے چینی سے بروقت سیاسی فائدہ اُٹھاتے ہوئے ثناء اللہ زہری کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی۔ میاں نواز شریف چوں کہ اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں مایوس ہو چکے ہیں اور اپنی جماعت پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑچکی ہے لہٰذا انہوں نے خود بلوچستان کا دورہ کرنے کی بجائے اپنے نامزد وزیراعظم شاہد خاقان کو کوئٹہ بھجوایا جن کو خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا۔ ثناء اللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے مستعفی ہونے میں عافیت جانی۔ مسلم لیگ(ق) کے رکن عبدالقدوس بزنجو 41 ووٹ لے کر بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے جبکہ انکے حریف پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے اُمیدوار آغا سید لیاقت صرف 13ووٹ لے پائے۔
اپوزیشن جماعتوں نے صوبے میں آئینی اور جمہوری انقلاب برپا کردیا۔ وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اسکے لیڈر اپنی صوبائی حکومت کو نہ بچا سکے۔ بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنی سیاسی ناکامی کا اعتراف کرلینا چاہئے تھا مگر وہ حسب روایت ذمے داری ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ پر ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
بلوچستان میں تبدیلی مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ بلوچستان میں انکی جماعت بکھر گئی ہے جسکے لازمی اثرات سینیٹ کے انتخابات پر پڑیں گے اور مسلم لیگ کی اکثریت کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔ مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی مزاج، ساخت اور فطرت کے اعتبار سے طاقتور اداروں کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے اپنی وفاداریوں کو تبدیل کرنے کو ترجیح دینگے۔ بلوچستان میں جمہوری آئینی تبدیلی کا یہی سبق ہے۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا تاریخی شعور بہت کمزور ہے گزشتہ دنوں انہوں نے پنجاب ہائوس راولپنڈی میں وکلاء سے خطاب کیا اور اپنے تحریری نوٹس کے یہ جملے پڑھ کر اہل دانش کو حیران کردیا۔ ’’پاکستان کے قیام میں بنگالیوں کا کردار سب سے زیادہ تھا، انہیں دھتکارا گیا، شیخ مجیب الرحمن محب وطن تھا اسے باغی بنادیا گیا، مجھے مزید زخم نہ دو کہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں‘‘۔
قبل از یں میاں صاحب نے سیفما کی تقریب میں پاک بھارت سرحد کو ’’ایک لکیر‘‘ قرار دیا تھا جبکہ انکے نزدیک ہندو اور مسلمان ایک تاریخ اور ایک تہذیب کے حامل ہیں۔ میاں صاحب نے بلوچی گاندھی عبدالصمد اچکزئی کے فرزند محمود خان اچکزئی کو اپنا نظریاتی ساتھی قرار دیا۔
میاں صاحب کے موقع پرست مشیر ان کے مائنڈ اور موڈ کے مطابق ایسے سیاسی ڈائیلاگ لکھ کر دیتے ہیں جو تاریخ کو مسخ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ متوالے اور جیالے چوں کہ اپنے لیڈروں کے سیاسی بیانات سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے لازم ہے کہ نئی نسل کو پاکستان کی تاریخ کے درست تناظر اور پس منظر سے آگاہ کیا جائے۔ گاندھی نے جب مؤقف اختیار کیا کہ تاریخ اور کلچر کے اعتبار سے ہندو اور مسلمان ایک قوم ہیں قائداعظم نے دو ٹوک جواب دیا ’’مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب الگ ہے۔ ہماری زبان، ادب، فن تعمیر، نام رکھنے کے اُصول، اقدارکا معیار، قوانین، اخلاقی ضابطے، رسوم، روایات، کیلنڈر، جبلت، خواہشات، کھانے پینے کے آداب اور ہن سہن کے طریقے ہندوئوں سے مختلف ہیں لہٰذا ہر حوالے سے مسلمان الگ قوم ہیں‘‘۔ ’قائداعظم کا نظریہ ریاست‘ (صفحہ نمبر 46) میاں صاحب غور کریں کہ ریاست پاکستان نے شریف خاندان کو پاکستان کا خوش قسمت ترین خاندان بنادیا وہ خود دوبار بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے اور انکے برادر خورد میاں شہباز شریف تیسری بار وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز ہیں۔ شریف خاندان پاکستان کا امیر ترین خاندان بن چکا ہے لہٰذا میاں صاحب شیخ مجیب الرحمن سے اپنا موازنہ نہیں کر سکتے۔ شیخ مجیب الرحمن کی یادداشتوں پر مبنی کتاب "Unfinished Memoirs" کے نام سے آکسفورڈ پریس نے شائع کی ہے جس کا پیش لفظ حسینہ شیخ نے تحریر کیا ہے جس میں مجیب الرحمن نے تسلیم کیا ’’اس نے 1961ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے خفیہ تنظیم قائم کی جس میں ممتاز طالب علم رہنما شامل ہوئے‘‘۔ (صفحہ XX)
شیخ مجیب الرحمن نے 1966ء میں چھ نکات دئیے جو آزادی کا ایجنڈا تھے۔ 1968ء میں مجیب الرحمن اور 34 سول عسکری آفیسروں کے خلاف اگرتلہ سازش کیس قائم کیا گیا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ سنکران نائیر نے اپنی کتاب "Inside IB and Raw" میں تحریر کیا ’’را شیخ مجیب الرحمن اور مکتی باہنی کو مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں تسلسل کے ساتھ آگاہ کرتی رہی‘‘۔ (صفحہ 164) افسوس شیخ مجیب الرحمن 1975ء میں اپنے خاندان اور رفقاء کے ہمراہ اسی جنرل ضیاء الرحمن کے ہاتھوں قتل ہوئے جس نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اگر میاں نواز شریف نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو وہ کبھی مجیب الرحمن کو محب وطن قرار نہ دیتے جس نے خود بغاوت کا اعتراف کیا۔ اگر قطب الدین عزیز کی کتاب ’’خون اور آنسو‘‘ اور سرمیلا بوس کی کتاب ’’ڈیڈ ریکننگ‘‘ (آکسفورڈ) کا مطالعہ کرلیا جائے تو شیخ مجیب الرحمن، عوامی لیگ اور مکتی باہنی کا ملک دشمن کردار کھل کر سامنے آجاتا ہے البتہ سقوط ڈھاکہ کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اپنی غلطیوں کا بھی اعتراف کرتے ہوئے ان سے سبق سیکھنا چاہئے۔ میاں صاحب ریاست کیخلاف کھڑے نہ ہوں اور مجیب الرحمن بننے کی دھمکیاں نہ دیں۔ انہوں نے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد اپنے چند ناعاقبت اندیش مشیروں کے مشورے پر جو جارحانہ حکمت عملی اپنائی ہے وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ ان کی جماعت کے لیڈروں کی واضح اکثریت میاں صاحب کی پالیسی سے اتفاق نہیں رکھتی۔ میاں صاحب سے اختلاف رکھنے والوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پنجاب کے بااثر سیاسی خاندان اس جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے سے گریز کرتے ہیں جسکے بارے میں یہ تاثر عام ہوکہ مقتدر ادارے اس سے ناراض ہیں۔ جب عام انتخابات کا اعلان ہوگا تو میاں صاحب کو پشیمان ہونا پڑیگا مگر اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیخلاف صف آراء ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر گیدڑ بھبکیوں کی بجائے نوشتۂ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں اور اپنی جماعت کی جنرل کونسل کا بلا تاخیر اجلاس بلا کر کھلی مشاورت کر کے اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کریں۔