چند روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے سعودی عرب کی قیادت میں 42 اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی کمان سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سونپے جانے کی خبر دی تھی۔ اس خبر کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں طوفان برپا ہو گیا حالانکہ شریف حکومت کی آشیر باد کے بغیر سعودی فرمانروا شاہ سلیمان جنرل راحیل شریف کو اتنا اعلیٰ منصب آفر نہیں کر سکتے تھے ۔ سینٹ میں نکتہ اعتراض پر خواجہ آصف نے اتنا کہا کہ اس منصب پر تقرری سے قبل جنرل راحیل شریف نے حکومت سے کسی این او سی کیلئے دررخواست نہیں کی تھی اس بارے میں جنرل راحیل شریف نے خود کچھ نہیں کہا‘ وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں کہ کسی پاکستانی سپاہی کو عالم اسلام میں اتنا غیر معمولی اعزاز ملنے پر بعض حلقوں اور لوگوں کے سینوں پر سانپ کیوں لوٹ رہا ہے؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیلئے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہوتا ہے ۔ شاہد آفریدی کھیل کے عالمی میدانوں میں چھکے لگائیں تو ہم پھولے نہیں سماتے، اسحاق ڈار کو فقط ایک رسالہ جنوبی ایشیا کا عدیم النظیر وزیر خزانہ قرار دے تو ان کا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے جان شیر خان اور جہانگیر خان سکوائش کے عالمی چیمپئن بن جائیں تو ہم پھولے نہیں سماتے ، جنرل راحیل شریف جنہوں نے ریٹائر منٹ کے بارے میں اپنا قول نبھایا، آپریشن ضرب عضب جیسے بے مثال آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی ، کراچی میں امن بحال کیا ، غدار وطن الطاف حسین کی پاکستان مخالف سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کیا، جمہوریت کو آنچ نہ آنے دی، اسی عظیم جرنیل کو اسلامی افواج کا سپہ سالار بننے پر چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ جنرل راحیل شریف غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے میں ان کا کردار لائق تحسن ہے، اہل پاکستان کیلئے یہ لمحہ قابل فخر ہے کہ ساری دنیا پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ جنرل راحیل شریف کی پاکستان کی سلامتی کیلئے کمٹمنٹ پر دو آراء نہیں رکھتی۔ ایک مخصوص لابی جنرل راحیل شریف کی شخصیت کو متنازع بنانے کیلئے کوشاں ہے اور ایک مفروضے کو بنیاد بنا کر ان کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے پاکستان کی نیک نامی اور وقار میں اضافہ کس کے پیٹ میں مروڑ پیدا کر رہا ہے۔انکی تقرری کے ممکنہ تاریک پہلو کیوں زیر بحث لائے جا رہے ہیں؟ وزیراعظم نواز شریف کی مشاورت سے 2015ء میں اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی کمان جنرل راحیل شریف کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ۔ چنانچہ 2016ء کے آغاز ہی میں جنرل راحیل شریف نے آئی ایس پی آر کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے وہ مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست کرینگے نہ ہی توسیع کی کوئی آفر قبول کرینگے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ عمران خان کا طویل دھرنا بھی انکے پائوں میں جنبش پیدا نہ کر سکا ۔
فوجی اتحاد کا ہیڈ کوارٹر ریاض ہو گا ۔ فی الحال عراق ، ایران اور شام اتحاد میں شامل نہیں ہیں ۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل جنرل راحیل شریف عسکری اور سیاسی قیادت کے حوالے سے مقبول ترین شخصیت تھے ۔ سوال یہ اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا متحدہ فوجی کمان کی قیادت خود ان کے اور پاکستان کیلئے کس حد تک سود مند ثابت ہو گی۔ 42 اسلامی ملکوں کا اتحاد سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ اسلامی فوجی اتحاد کا بنیادی مقصد اسلامی ممالک کو دہشت گرد تنظیموں کے اہداف سے دور اور محفوظ رکھتا ہے ۔ ایران ، عراق اور شام اس اتحاد میں شامل نہیںاس لئے کہ یہاں زیادہ تر شیعہ مسلک کے لوگ آباد ہیں ۔ اسلامی اتحادی فوج شام میں داعش سے برسر پیکار ہونا چاہتی ہے ۔ جنرل راحیل شریف میں جنرل پرویز مشرف کی طرح ہوس اقتدار نہ تھی نہ ہی اپنے پیش رو کی طرح انہوں نے اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کیا ۔ وہ جنرل جہانگیر کرامت سے بھی مختلف تھے جنہیں ریڈ لائن عبور کرنے پر استعفیٰ دینا پڑا تھا ۔ وہ جنرل وحید کاکڑ کی طرح اس وقت کے صدر اور وزیراعظم دونوں کو استعفے دینے پر مجبور کرنے والے آرمی چیف بھی ثابت نہیں ہوئے ۔ جنرل راحیل کی تقرری سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کونسا ارتعاش پیدا ہونے والا ہے ؟ پاکستان ماضی میں یمن میں حوثیوں سے جنگ کیلئے اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر چکا ہے ۔ یہ بات تو بڑی واضح ہے کہ اسلامی دنیا میں خاموش مسلکی جنگ جاری ہے مسلک پر کوئی ادھر سے ادھر ہونے یا سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتا ۔ایران ہمارا قریبی ہمسایہ ہے جبکہ حرمین شریفین ہونے کے حوالے سے ہمارے دل سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ ہم اپنے چاروں طرف تعلقات بگاڑ کر اپنی آزادی ، خودمختاری اور استحکام کو خطرے میں کیونکر ڈال لیں ۔ کچھ حلقوں کے خیال میں جنرل راحیل کی تقرری ہماری خارجہ پالیسی کا اپنی جگہ سے ہلنا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی ریٹائرڈ جنرل کو اتنے بڑے منصب کی کبھی پیش کش نہیں ہوئی ۔ شاہ سلیمان کے فرزند اور ڈپٹی کرائون پرنس نے ایک سال پہلے یمن میں مہم جوئی کیلئے اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا ۔ اس وقت بھی اسے سنّی اتحاد کا نام دیا گیا تھا ۔ لوگوں کو اس اتحاد کی اصل حقیقت پر یقین نہیں آ رہا کہ یہ واقعی دہشت گردوں اور دہشت گردی کو کچلنے کیلئے تشکیل دیا گیا ہے یا پھر مڈل ایسٹ میں ابدالآباد چودھراہٹ کیلئے۔ ہماری پارلیمنٹ نے یمن میں چڑھائی کیلئے سعودی عرب کے شانہ بشانہ لڑنے کیلئے افواج پاکستان کو بھیجنے کی مخالفت کی تھی ۔ سعودی عرب اور ایران کے مفادات کی جنگ میں پاکستان کا کسی ایک طاقت کیلئے فریق بننا دوسرے کو ناراض کرنا ہے ۔
گذشتہ ایک سال میں عراق اور شام میں داعش پر کاری ضربیں لگی ہیں ۔ ایران نے عراق سے دہشت گرد گروپوں کو باہر دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ادھر روس ، ترکی اور ایران کے ساتھ مل کرشام میں داعش سے بر سرپیکار ہے ۔ اسلامی اتحاد کو مغربی ممالک اور امریکہ کی آشیر باد حاصل ہے ۔ مصر سعودی عرب سے ریال لینے کے باوجود شام میں بشار الاسد کی حمایت کرتا رہا ہے ۔ سعودی عرب کو اپنی داخلی سکیورٹی کے بارے میں بھی فکر مندی ہے ۔ امریکہ اب پہلے کی طرح اس کیلئے قابل بھروسہ دوست نہیں رہا ۔ امریکہ کے ایران سے ایٹمی ہتھیاروں پر سمجھوتہ اور بشار الاسد کا تختہ الٹنے سے گریز نے بھی سعودی عرب کا موڈ خراب کیا ہے ۔ سعودی عرب دنیا بھر میں اپنی ہم مسلک دینی اور جہادی تنظیموں کو فراخدلانہ مالی اعانت دیتا رہا ہے ۔ سوال یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک کے فوجی مل کر یک زبان اور یکجان ہو کر کیسے اور کس کیخلاف بندوقیں اٹھائیں گے۔ ابھی تک حکومت نے جنرل راحیل کی تقرری کے بارے میں قوم یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ ہم سب ملکوں اور فرقوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں ہر فرقے کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے ۔ پاکستان انسانیت کا درس دینے والے صوفیا بلھے شاہؒ ، بابا فرید ، خواجہ غلام فرید ، اور بابا رحمان کے پیروکار ہیں ۔ ہمارے دلوں میں کسی کیلئے نفرت نہیں ۔ ابھی تو ہم اپنے گھر کو دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں سے پاک صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ سرحدوں پر بھارت کی چھیڑ چھاڑ سے بھی غافل نہیں رہ سکتے ۔ ہمارے فوجیوں کے پاس اتنی فرصت کہاں کہ شام اور عراق میں پراکسی وار لڑیں ۔ اسلامی فوجی اتحاد میں ایران ، عراق اور شام کی شمولیت اسے غیر جانبدار بنا دیگی سارے تحفظات ختم ہو جائینگے ۔ ابہام اور اشکال بھی مٹ جائینگے کہ ریاض میں بننے والا اتحاد کسی ملک کیخلاف نہیں بلکہ سو فیصد دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قائم کیا گیا ہے اور اسکی سربراہی کیلئے ایسے سپاہی کا انتخاب کیا گیا جسے دہشت گردی کیخلاف ایک خونریز جنگ آپریشن ضرب عضب جیتنے کا اعزاز حاصل ہے ۔
اس وقت یمن کی دلدل میں سعودی عرب کے پائوں پھنسے ہوئے ہیں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایران بھی کوئی فوجی اتحاد بنانے کی کوشش کرتا ہے اور ہمارے کسی جنرل کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست کرتا ہے تو کیا اسکے اتحاد کی کمان سنبھالنے کیلئے ہمارا کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جنرل تیار ہو جائے گا؟ میڈیا نے جنرل راحیل کو کمرئہ امتحان میں بٹھا دیا ہے اگر وہ نئی وردی پہن لیتے ہیں ۔ پر کشش مشاہرہ قبول کر لیتے ہیں ۔ 42 ملکوں کے فوجی دستوں سے سلامی لیتے ہیں تب بھی ان کا ریموٹ کنٹرول ریاض نہیں پینٹاگون ہو گا ۔ بظاہر سعودی میں بلکہ یوں کہیے منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے اصل سرپرستی امریکہ کی ہے فیصلہ جنرل راحیل کے نہیں نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔