بھارتی ریاست کیرالہ کے ایک ہندو خاندان سے تعلق رکھنی والی لڑکی جس کا نام اکھیلا تھا، اسکے والد اشوکن مانی نے، جو سابقہ فوجی ہیں، 25 جنوری2016 کو کیرالہ ہائی کورٹ میں ایک ’حبس بیجا‘ کی دراخواست داخل کرائی کہ ان کی اغوا شدہ بیٹی کو بازیاب کرایا جائے۔
انکے بیان کردہ حقائق کے مطابق اکھیلا، جو ویکوم، ڈسٹرکٹ کوٹایام کی رہائشی ہے، وہ ایک دوسری ریاست تامل ناڈو میں واقع سیلم میں، جو اس کے گھر سے 400کلو میٹر دور ہے، میں ہومیوپیتھک میڈیسن اور سرجری کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ 6 جنوری2016ءکو وہ سیلم کے ا±س گھر سے غائب ہوگئی جہاں وہ اپنی دوستوں جسینا اور فسینا کیساتھ مقیم تھی۔ اکھیلا کے والدین نے پولیس میں ایک شکایت داخل کرائی کہ انکی بیٹی کو اسکی دوستوں کے والد ابو بکر نے اغوا کر لیا ہے، جن کیخلاف پولیس نے مقدمہ درج کرکے ابو بکر کو گرفتار کرلیا۔ یہ شکایت اس واقعہ کے بعد درج کرائی جب اکھیلا کے والدین کو یہ خبر ملی کہ وہ 6 جنوری کو کالج جاتے ہوئے برقع پہن کر گئی ہے۔ بہرحال پولیس رپورٹ کے باوجود اکھیلا کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ لہذا ان حالات میں انہیں ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔
16 جنوری کو اکھیلا عدالت عالیہ میں پیش ہوگئی اور ان حالات کا برملا اظہار کیا جن کی وجہ سے اسے اپنے گھر اور والدین کو چھوڑنا پڑا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ تین سال قبل مسلمان ہوگئی تھی اور اس کا نیا نام ’ہادیہ‘ ہے۔ وہ اپنی مسلمان دوستوں کی باقاعدگی سے مخصوص اوقات پر نماز کی ادائیگی اور انکے اخلاق سے بے حد متاثر تھی۔ اسلامی کتابوں کا مطالعہ اور انٹرنیٹ پر وڈیوز دیکھ کر اس نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے اپنا گھر اور والدین سے اس لیئے علیحدہ ہونا پڑا کیونکہ اسکے والد نے اس کو نماز اور دیگر عبادات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور سختی سے تنبیہ کی تھی کہ وہ اسے چھوڑ دے جس کے بعد وہ سیدھی اپنے دوستوں کے گھر پیرینتھلمنّا، ڈسٹرکٹ مالاپورم چلی گئی۔ دوستوں کے والد اس کو ایک اسلامی سینٹر لیکر گئے جہاں اسے داخلہ نہیں ملا، بعد ازاں ایک دوسرے سینٹر میں داخلہ مل گیا اس شرط پر کے وہ ایک حلف نامہ داخل کرے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے مسلمان ہوئی ہے۔ اسکے بعد وہ ابوبکر کے گھر رہنے لگی۔ بعد ازاں ابوبکر نے ؒہادیہ کو اپنے گھر رکھنے سے انکار کردیا جسکے بعد وہ ایک تیسرے سینٹر ساتھیا سارانی، جو ایک دینی تعلیم کا ادارہ ہے، پہنچ گئی۔ اس ادارے نے ایک سماجی کارکن اور انڈین پاپولر فرنٹ کی رکن سینابا کو اکھیلا سے ملاقات کیلئے بھیجا، جسکے بعد ہادیہ سینابا کے ساتھ رہنے لگی۔ جولائی 2016ءکو وہ باقاعدہ مسلمان ہوگئی۔ اکھیلا کے والد نے اپنی درخواست میں ساتھیا سارانی پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ غیرقانونی اور زبردستی مذہب بدلنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ لیکن عدالت نے 25 جنوری کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اشوکن کی درخواست کو خارج کردیا اور قرار دیا کہ اکیلا کسی حبسِ بیجا میں محبوس نہیں ہے۔عدالت سے درخواست خارج ہونے کے 6 ماہ بعد اشوکن نے عدالت عالیہ میں ایک اور درخواست داخل کردی، اس دفعہ اس نے بہت بڑی چال چلتے ہوئے یہ وجہ بتائی کہ اکھیلا کو کچھ اسلامی تنظیمیں عجلت میں ملک سے نکال کر لے جا رہی ہیں تاکہ وہ داعش (IS)کیلئے کام کرسکے اور اس مقصد کیلئے اس کی شادی ایک مسلمان مرد کیساتھ کیجارہی ہے جو گلف میں کام کرتا ہے۔ عدالت کو اشوکن کی یہ حرکت پسند نہیں آئی اور اس کو کہا گیا کہ وہ IS کا حوالہ حذف کردے۔ لیکن اشوکن کا وکیل موہانن اصرار کرتا رہا۔ عدالتی کاروائی میں اس وقت زبردست تلخی پیدا ہوگئی جب اشوکن نے وکیل بدلنے کی درخواست کی لیکن وکیل صاحب اس بات پر اڑ گئے کہ عدالت کا وکیل اور سائل کے معاملات میں دخل دینے کا کسی کو کوئی استحقاق نہیں ہے۔ وکیل نے عدالت کے سامنے بے ادبی کا مظاہرہ کیا اور اپنی روش کو نہیں بدلا اور بات توہین عدالت تک پہنچ گئی اور وکیل کو تین ماہ کی جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ دوسری جانب ہادیہ نے عدالت میں حاضرہو کر بیان دیا کہ اسکے پاس پاسپورٹ بھی ہے لہذا اس کا ملک سے باہر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ حیرت انگیز طور پر عدالت نے ہادیہ کو سینابا کے ساتھ جانے سے روک دیا اور حکم دیا کہ وہ اس کو اپنی نگرانی میں ہادیہ کو اس والدین کے گھر رکھیں گے، لیکن ہادیہ کے احتجاج پر اسے ارناکلام میں ایک خواتین کے ہاسٹل بھیج دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد ہادیہ نے عدالت کو درخواست دی کہ وہ بغیر کسی وجہ کے اور اپنی مرضی کیخلاف اس ہاسٹل میں رہ رہی ہے۔ عدالت نے پہلے اسے کچھ دن کیلئے سینابا کے پاس اور بعد ازاں اپنے کالج جانے کی اجازت دے دی تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرلے۔ جس دن 26 اکتوبر2016ءکو عدالت نے یہ حکم دیا اسی دن اس نے شفین جہان سے شادی کرلی جو اس کو شادی کی ایک ویب سائٹ سے ملا تھا۔ 12 دسمبر کو ہادیہ جب دوبارہ عدالت میں پیش ہوئی تو اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ تھا۔ عدالت کو جب اس شادی کا علم ہوا تو وہ اس نئی صورتحال پر سخت برہم ہوئی اور اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اس نے کیرالہ پولیس کو حکم دیا کہ اس شادی کے متعلق تحقیقات کرے۔ پولیس نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ شادی اسلامی طریقے پر منعقد ہوئی ہے۔ عدالت کو یہ رپورٹ پسند نہیں آئی اور اس نے کیرالہ پولیس کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ شفین جہان کے ماضی کی خود چھان بین کریں اور عدالت میں رپورٹ داخل کریں۔ اس اضافی رپورٹ میں کہا گیا کہ شفین کے اوپر ایک فوجداری مقدمہ ہے اور اس کہ مانسی براقی سے بھی تعلقات تھے جسے قومی تحقیقاتی ادارے (NIA) نے داعش(IS) سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ شفین کا کہنا تھا کہ ان پر مقدمہ تعلیمی دور میں طلبا کے باہمی جھگڑے پر بنا تھا، لیکن براقی سے اس کا کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس کا مزید بیان تھا کہ ہادیہ کے والد کا یہ الزام کہ وہ اس کو شام لیجانے کا ارادہ رکھتا ہے، سوائے بہتان اور جھوٹ کے کچھ نہیں۔ اس نے عدالت کو یقین دلانے کیلئے یہ بھی کہا کہ وہ انتہا پسندی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ یہ سمجھتی ہے کہ انتہا پسندوں کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے لیکن یہ باتیں عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام رہیں۔ 24 مئی2017ءکو عدالت نے انکے نکاح کو فراڈ قرار دیکر منسوخ کردیا اور دو دن بعد پولیس نے ہادیہ کو اسکے والدین کے گھر ویکوم منتقل کردیا۔ شفین جہان نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی۔ سپریم کورٹ نے NIA کو اس کیس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ 27 نومبر کو سپریم کورٹ نے ہادیہ کو طلب کیا اور تقریباً 90 منٹ تک اس سے سوال جواب کرتے رہے۔ ہادیہ نے پراعتماد انداز میں سب سوالات کا جواب دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے میری آزادی دی جائے، میں اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا چاھتی ہوں۔ کورٹ نے جب اس کو یہ پیشکش کی کہ کیا اسے سرکاری خرچ پر تعلیم مکمل کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ اس کو قبول کریگی، تو اس کا کہنا تھا کہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں ، چونکہ میرے شوہر میرے اخراجات پورا کرسکتے ہیں لہذا مجھے سرکاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے زیادہ تر سوالات ا±ن حالات و اثرات کو سمجھنے سے متعلق تھے جس میں اکھیلا نے ہادیہ بننے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے ہادیہ کو کالج جانے کی اجازت دیتے ہوئے کالج کے پرنسپل کو اس کا گارجین مقرر کردیا ہے اور سماعت اگلے سال جنوری تک ملتوی کردی۔
بھارت کے لبرل حلقے ہادیہ کی زبردست حمایت کر رہے ہیں، باوجودیکہ دہلی حکومت اس کیس کو ’جہادی محبت‘ کا شاخسانہ قرار دے رہی ہے۔ NIH کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کیرالہ میں ’جہادی محبت‘ کے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق اور عورتوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں ہادیہ کی مدد کررہی ہیں لیکن سر کردہ میڈیا کے کچھ حلقے بضد ہیں کہ اس کو ’جہادی محبت‘ ثابت کیا جائے۔
ہادیہ کی یہ داستان اس ہیجان کا نتیجہ ہے جس میں آج سارا بھارت مبتلا ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے، اور خصوصاً اسکی ریاستی حکومتوں نے، ہندو قوم پرستی کے پرچار سے اپنی سیاسی دکان چمکائی ہے۔ انکے نعروں میں سے ایک نعرہ ’جہادی محبت‘ کا بھی ہے جس سے مراد ہندو لڑکیوں کا مسلمان مردوں سے شادی کرنے کا عمل روکنا ہے۔ افسانہ یہ بنایا گیا ہے کہ معصوم ہندو لڑکیاں، جو غربت اور افلاس سے تنگ آچکی ہوں، وہ مسلمانوں کے ساتھ شادی پر راضی ہوجاتی ہیں جو ان کو مسلمان کرکے انتہا پسندی اور جہادی کاموں پر لگا دیتے ہیں لیکن ایسے خدشات اس وقت لاحق نہیں ہوتے جب کوئی مسلمان لڑکی کسی ہندو مرد سے شادی کرتی ہے، کیونکہ وہ ’گھر واپسی‘ کے زمرے میں آتی ہے، یعنی اپنے حقیقی دھرم کی طرف لوٹ کر آرہی ہے۔ تجزیہ نگار ایک طرف کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیران ہیں کہ کیونکر ایک ’حبس بیجا‘ کی آئینی درخواست ’تنسیخ نکاح‘ پر منتج ہوسکتی ہے، اور دوسری جانب سپریم کورٹ کی کارروائی کو حیرت اور استعجاب سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورٹ کو یقیناً اس بات کا اطمینان کرنا چاہیے کہ ہادیہ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور مرضی سے شادی کی ہے، لیکن اسکے پر اعتماد جواب کے بعد یہ معاملہ ختم ھوجانا چاہیے تھا، اسکے برخلاف عدالت کا زیادہ وقت اس بات میں صرف ہوا کہ وہ کن حالات اور اثرات کے تحت مسلمان ہوئی۔ حالانکہ اب تو ا±سے اسلام قبول اور شادی کیے ہوئے کئی سال ہوگئے ہیں اور اب25 سال کی عمر میں اسکی نوعمری کی معصومیت کا احتمال بھی ختم ھوگیا ہے، لہذا ایک بالغ شہری کو کیونکر اس کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ عدالت کی بے انتہا احتیاط اسی ہیجان کا نتیجہ ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت بھارت کے آئین کا امتحان ہے، جو شہریوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور سپریم کورٹ کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ اگر ان حقوق کی پامالی ہورہی ہے تو ریاست کا ہاتھ روک لے۔ ہادیہ کی فریاد صرف جینے کا حق مانگ رہی ہے، اپنی پسند کے دھرم کا انتخاب کرنے کی آزادی مانگ رہی ہے اور اپنی پسند سے شادی کا حق مانگ رہی ہے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ ہادیہ کی مشکلوں کو آسان فرمائیں۔ آمین !
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024