لیاقت علی خان نے 28فروری1947ء کو انگریزی دور کی عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے مرکزی اسمبلی میں جو انقلابی بجٹ پیش کیا تھا وہ غریب آدمی کے بجٹ کے نام سے مشہور ہے۔ عبوری حکومت مسلم لیگ اور کانگریس کے اراکین پر مشتمل تھی۔ لیاقت علی خان نے بجٹ کی تجاویز پر سب سے پہلے اس دور کے وائسرائے لارڈ ویول‘ پنڈت نہرو اور سابق وزیر خزانہ جان متھا ئی سے تبادلہ خیالات کیا تھا اور اس کے بعد کیبنٹ کی ساری ایگزیکٹو کونسل سے منظوری لی تھی جس نے پرجوش طریقے سے اس امر کو سراہا تھا کہ بجٹ کی تجاویز کا رخ امیروں سے وسائل لے کر غریبوں کی طرف منعطف کرنا ہے اس انداز سے کہ غریب طبقوں اور غریب علاقوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مؤثر مدد ملے۔ حیرت انگیز اور عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جونہی بجٹ کی تجاویز عام ہوئیں اور تمام غریب طبقوں نے ان پر پُر زور مسرت کا اظہار کیا ، انقلابی باتیں کرنے والے پنڈٹ نہرو اور سردار پٹیل نے ان کی مخالفت شروع کر دی۔ وجہ یہ تھی کہ کانگریس اپنے وجود اور سرگرمیوں کے لئے بڑے بڑے ہندو سرمایہ داروں اور کھاتا داروں کی مدد کی محتاج تھی اور غریبوں کے حالات بہتر کرنے والے پروگراموں کیلئے ٹیکس انہی سرمایہ داروں پر لگتے تھے۔ کابینہ کی ایگزیکٹو کمیٹی جن تجاویز پرمتفق تھی انہیں متنازعہ بنا دیا گیا لیکن لیاقت علی خاں نے بڑی دلیری سے بجٹ کی بنیادی تجاویز میں ترمیم سے انکار کر دیا۔ اس اثنا میں لارڈ ویول کی جگہ لارڈ مائونٹ بیٹن وائسرائے بن گیا۔ اس نے پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے ٹیکسوں کے بوجھ میں کچھ کمی کرادی لیکن لیاقت علی خان کے بجٹ کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رہا۔ یہ ہے پس منظر لیاقت علی خان کے معاشی کارنامے کا۔ پاکستان اور بھارت کو آزاد ہوئے 68سال گزر چکے ہیں اور اس دوران ہر ملک کے وزیر خزانہ نے اپنے اپنے علاقوں کیلئے68 مرکزی بجٹ پیش کیے ہیں لیکن کسی بجٹ کو قبول عام کا وہ درجہ نصیب نہ ہوسکا جو متحدہ برطانوی ہندوستان کے پہلے اور آخری وزیر خزانہ لیاقت علی خان کے 1947-48ء کے بجٹ کو حاصل ہوا تھا اور جسے تاریخ نے ہمیشہ کیلئے غریبوں کے بجٹ(Poor Man's Budget) کے نام سے محفوظ کر لیا ہے۔
لیاقت علی خان نے یہ بجٹ غیر منقسم برطانوی ہندوستان کی لیجیسلیٹو اسمبلی میں 28فروری 1947ء کو پیش کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ قرآن مجید کے اس فرمان پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دولت کو دولت مندوں کے مابین گھو منے کی اجازت نہ دی جائے اور سرمایے کو چند افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے سے بچایا جائے(قرآن مجید: سورہ 59‘ آیت 7)۔ اس سلسلے میں جن اصولوں کو سامنے رکھ کر بجٹ کی تجاویز مرتب کی گئیں ان میں نمایاں اصول یہ تھا کہ ترقی و تعمیر کے منصوبے اور تجاویز اس طرح تیار کیے جائیں کہ خوش حال طبقوں سے وسائل لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں‘ یہ امر باعث دلچسپی ہوگا کہ لیاقت علی خان کے بجٹ پر جہاں غریبوں اور زیردستوں نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا وہاں پنڈت نہرو‘ سردار پٹیل اور دیگر کانگریسی لیڈر شدید پریشان ہوئے کیونکہ اس بجٹ کی زد ہندو سرمایہ داروں پر پڑتی تھی جو کانگرس کی مالی پشت پناہی کرتے تھے۔ حتیٰ کہ این۔ جی رنگا ایسے کمیونسٹ لیڈروں نے بھی مخالفت کی جس سے ان کی پرفریب غریب دوستی کی قلعی کھل گئی۔ لیاقت علی خان اپنی غریب پرور تجاویز پر ڈٹے رہے۔ آخر کار کافی بحث و تمحیص کے بعد بجٹ تھوڑے سے ردوبدل کے بعد لیجیسلیٹو اسمبلی میں پاس ہوگیا لیکن 15اگست کو جب بھارت آزاد ہوا تو پنڈت نہرو کی حکومت نے اس بجٹ میں اپنے سرمایہ داروں کی خواہشات کے مطابق کافی ردوبدل کیا۔
ان سطور کا مدعا لیاقت علی خان کے پیش کردہ بجٹ کا تجزیہ کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کے طویل دورِ حکومت کے آخری سال وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور تحریک پاکستان کے پروردہ مسلم لیگی رہنما کے ہاتھ آئی اور اس نے اس تحریک کے انقلابی جذبوں کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ماضی کے عوام دشمن نو آبادیاتی میزانیوں کا رخ یکسر بدل دیا اور آزادی کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومتوں کے لیے عوام دوست مالی پالیسیوں کی داغ بیل ڈال دی۔ تحریک پاکستان بنیادی طور پر ایک عوامی انقلابی تحریک تھی اور اس کے سارے سرکردہ رہنما قائداعظمؒ کی زیر قیادت ایک ایسے پاکستان کی تعمیر کے لیے کمر بستہ تھے جس میں سرمایہ داری‘ جاگیرداری اور استحصال پسندی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی اور ہر سطح پر جمہور کی شرکت سے نئے ملک کا نیاسیاسی‘ معاشی اور سماجی ڈھانچہ بنانا مقصود تھا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ چلا گیا جو شریک سفر نہ تھے اور یوں علامہ محمد اقبالؒ، قائداعظمؒ اور مادرِ ملتؒ کے معاشی مساوات کے خواب ابھی تک شرمندۂ تعبیر ہیں۔
لیاقت علی خان کی شہادت اور خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد اقتدار جن طبقاتی گروہوں کے ہاتھ میں گیا اُنہوں نے شہید ملتؒ کی پیروی کرنے کی بجائے سرمایہ دارانہ فلسفہ کی عکاسی کرنے والے بجٹ پیش کیے جس کی وجہ سے آج یہ حالت ہے کہ ملک کا ایک تہائی حصہ خط غربت سے نیچے ہے اور ملک میں دولت اور آمدنیوں کا تفاوت عروج پر ہے۔ آج بھی لیاقت علی خان کا بجٹ ان راستوں کی نشاندہی کررہا ہے جن پر چل کر پاکستان ایک فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔
لیاقت علی خان کا بجٹ درحقیقت سارے ہندوستان کیلئے تھا اور اگر حقیت کی نظر سے دیکھا جائے تو آج کے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کے لوگ ابھی تک غربت، ناداری، جہالت اور استحصال کے شکنجوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ معاشی حالات پر روشنی ڈالنے والے تمام مستند اعداد وشمار لوگوں کی اکثریت کی مفلوک الحالی کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان حالات کو بدلنے کیلئے جن ٹھوس اور غریب دوست اصولوں اور اقدامات کی اشد ضرورت ہے وہ تمام ترقیاتی معاشیات کے ماہرین کے نزدیک تقریباً وہی ہیں جن کا احاطہ لیاقت علی خان کے مشہور غریب دوسٹ بجٹ میں کیا گیا ہے۔
آخر میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں 1947ء کا سال اپنی دہائی میں غالباًسب سے زیادہ دیرپا اثرات چھوڑنے والا واقعات خیز سال ہے۔انگریزوں کے ایک سو سالہ دور استبداد کا خاتمہ، توحید پرستوں کا جمہوریت کے زور پر ایک آزاد وطن کا حصول، ہندوئوں کے سر چشمۂ طاقت بھارت کا مختلف آزاد یا پاکستان سے ملحق شدہ ریاستوں اور علاقوں پر بزور شمشیر غیر قانونی قبضہ اور علاقائی بالا دستی کاخواب ،جموںاور کشمیر کے آدھے حصہ پر غاصبانہ تسلط، مشرقی پنجاب میں تین چار ماہ میں لاکھوں انسانوں پر مشتمل مسلم آبادی کا holocaustاور اس قسم کے دوسرے خونی اور استبدادی واقعات۔جو 1947ء میں وقوع پذیر ہوئے۔ البتہ حیرت انگریز امر یہ ہے کہ اس سال ایک اہم واقعہ معاشی نوعیت کا بھی ظہور پذیر ہوااور وہ ہے لیاقت علی خان کا غریب دوست بجٹ ۔ جو اپنی انسان پرور خصوصیات وجہ سے 1947ء کی سیاسی افراتفری میں سارے علاقے کیلئے ایک واحد مثبت کارنامہ نظر آتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024