بیجنگ میں قدرت کے نظارے اور انسانی عزم و ہمت کے شاہکار دیکھ رہا ہوں، جو عوامی جمہوریہ چین کا دارالحکومت، نہیں جناب اب تو ساری دنیا کا ’’پاور ہائوس‘‘ بن چکا ہے، وہ گئے زمانوں کے قصے کہانیاں ہیں جب واشنگٹن اور لندن سے عالمی سیاست کی ڈوریاں ہلائی جاتی تھیں اب تو لندن اور واشنگٹن بھی بیجنگ کے شہر بے مثال کی طرف ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں وہ بیجنگ جسے فتح کرنے اور مغلوب کرنے کے خواب دیکھتے دیکھتے کئی امریکی صدور گمنامی کے اندھیروں میں کھو گئے۔ مدتوں پہلے تنامن سکوائر سے انقلاب برآمد کرنے کی کوشش کی گئی، انسانی حقوق اور بے لگام جمہوریت کے شعبدے دکھائے گئے، مسحور کن گیت گائے گئے لیکن عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے ہزار سالہ دانش کو بروئے کار لا کر سات پردوں کے پیچھے چھپی سازش کو بھانپ لیا اور پھر ٹینک اور سازشی جمہوریت کے سارے خواب بکھر گئے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی سازشیں ناکام و نامراد ٹھہریں امریکی پروردہ سازشی ہار گئے اور چینی عوام ایک بار پھر جیت گئے۔ مائو، چیئر مین مائو سرخرو اور سر بلند رہا۔ جن کا پورٹریٹ آج بھی تنامن سکوائر میں پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔
6 نومبر کی صبح مدتوں بعد بیجنگ ایئر پورٹ لینڈ کیا تو گزرے وقتوں کے واقعات نے یلغار کر دی آخری دورہ ایک دہائی قبل کیا تھا مہاگرو انور عزیز چودھری ساتھ تھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایئر پورٹ سے باہر نکلتے ہی چودھری صاحب بے اختیار پکار اٹھے یہ وہ شہر تو نہیں جہاں میں آیا تھا عرض کی حضور آپ پیکنگ آئے تھے یہ بیجنگ ہے۔ شہر کا نام ہی نہیں بدلا تھا سب کچھ بدل چکا تھا اور اب تو کامل ایک دہائی بعد سارا منظر نامہ بدل چکا ہے۔ جگ مگ کرتی پرشکوہ عمارتیں فلک بوس کاروباری مراکز اور ساتھ ساتھ نگران کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی نادیدہ آہنی گرفت یہ سب متضاد اور متصادم فلسفۂ زندگی بڑی خوش اسلوبی سے یا ہم آہنگ ہو کر شانہ بشانہ چل رہے ہیں بیجنگ میں کوئی شور شرابہ نہیں، سکون کا ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے کوئی بندوق بردار قانون کے محافظ نہیں، کوئی ٹریفک پولیس نہیں کوئی گندگی اور غلاظت نہیں، اجلا اور دھلا دھلایا منظر نامہ ہے۔ یہ امن و سکون، یہ ٹھہرائو ہمیں کچھ عجیب سا لگتا ہے کسی سادہ لوح دانشور نے چین کی ترقی کے دو دہائیوں کے سفر کو ایک عام فہم جملے میں سمیٹ دیا تھا۔ 20 سال پہلے چھ رویہ سڑکوں پر 5 لائنوں پر سائیکل چلتے تھے ایک دو کاروں اور گاڑیوں کے لئے ہوتی تھیں آج 20 سال بعد 5 لائنیں کاروں کے لئے ہیں ایک رو میں سائیکل چلتے ہیں۔
چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2030ء تک غربت سے نجات پا لیں گے اور 2030ء کے بعد چین میں کوئی غریب نہیں ملے گا۔ اہداف کا متعینہ وقت میں حصول کوئی چینیوں سے سیکھے نام نہاد مہذب دنیا کے سارے فلسفے اور دعوے یکسر باطل قرار پائے ساری دنیا ششدر نگاہوں سے چین کو، اس کی ترقی کو دیکھ رہی ہے انسانی عزم و ہمت نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا عوام پہلی ترجیح ہوتے ہیں وہی نظریات پھلتے پھولتے ہیں جن کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہو باقی تمام خالی خولی نعرے اور لمحوں میں دم توڑ جاتے ہیں۔ 13 نومبر سوموار کی صبح بیجنگ پہنچنے تک اسلام آباد کے مسافروں کا جوڑ جوڑ ہل چکا تھا کہ ان کا سفر 15 گھنٹوں پر محیط ہو چکا تھا۔ 5 نومبر شام 6 بجے اسلام آباد ایئر پورٹ پہنچنے کے بعد ساری رات سفر میں گزر گئی ایئر چائنہ کا آرام دہ نشستوں والا جہاز براہ کراچی واپس آیا تھا اس لئے ہمیں تین گھنٹے کراچی ایئر پورٹ جہاز کے اندر قید رہنا پڑا تھا اس لئے ہمارے خوشگوار میزبانوں نے کاشغری مسلمانوں کے پر شکوہ ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد آرام کا مشورہ دیا کہ پہلی مصروفیت بیجنگ میں پاکستانی سفیر عزت مآب مسعود خالد کا وفد کے اعزاز میں عشائیہ تھا یہ کالم نگار جسے ہمیشہ سفر مرغوب رہا تھا اب مضحمل اعصاب کے ساتھ تھک جاتا ہے۔ اس لئے مدتوں بعد دوپہر کو آرام کرنے کی شاہانہ عیاشی سے لطف اندوز ہوا، خوب گھوڑے بیچ کر سویا کہ عزیزم راؤ فرقان کی کال پر اٹھا، رائو فرقان سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی میں کام کر رہا تھا کہ علم حاصل کرنے کیلئے چین آ گیا Tsinghua University سے پی ایچ ڈی کر رہا ہے۔ یہ کالم نگار تیسری بار چین آیا ہے گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں سب کچھ بدل گیا اب کی بار چہار سو صدر شی پنگ کی گہری چھاپ محسوس ہو رہی تھی ان کی مقبولیت اور محبت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
19 ویں پیپلز کانگریس کے گزشتہ ماہ ختم ہونے والے سیشن کی گونج فضا میں باقی تھی جس کا محور عوام کی خدمت اور عوام کی خدمت کا منشور تھا۔ نئی چینی نسل صدر شی پنگ کو ’ددادا ابو‘‘ یا ’’شی پاپا‘‘ کہہ کر پکارتی ہے صدر شی صحیح معنوں میں چینی بچوں کیلئے سانتا کلازا بن چکے ہیں۔ انہوں نے درجہ بدرجہ عام کارکن کی حیثیت سے کمیونسٹ پارٹی میں کام شروع کیا تھا۔ انکے آنجہانی والد بھی چین کے ’’ہیروز‘‘ میں شامل تھے لیکن انکے خاندان اور عزیز و اقارب کو کوئی نہیں جانتا ان کی ایک بیٹی ہے لیکن وہ اپنی ماں کے ساتھ پر سکون گھریلو زندگی گزار رہی ہے ان کی اہلیہ کو غیر ملکی دوروں میں صدر شی کے شانہ بشانہ فوٹو سیشن کرانے پڑتے ہیں لیکن ماضی کی گلوکارہ یہ خاتون شہرت کی دنیا سے کوسوں دور رہتی ہے تین دن کی ’’میراتھن‘‘ کے بعد کل ارمچی روانگی ہے ان تین دنوں میں اوپر تلے درجنوں میٹنگوں کے ساتھ ساتھ ظہرانے اور عشائیے بھی چلتے رہے ہم بیجنگ کی بتیاں دیکھ دیکھ کر مرعوب ہوتے رہے ہر جگہ ہر چینی پاکستان کا گرویدہ ملا جس پر ہمارے کچھ ترقی پسند دوستوں کو شدید تکلیف ہوتی رہی اس کا ذکر آئندہ ملاقات میں ہو گا۔