اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو طویل 'تاریخی' دورے پر نئی دہلی پہنچ چکے ہیں۔ سینکڑوں یہودی تاجر بھی نیتن یاہو کے ہمراہ بھارت پہنچے ہیں۔ مودی اپنے دوست کا استقبال کرنے سارے پروٹوکول توڑ ہوائی اڈے پہنچے یہ6 روزہ دورے کا پرجوش آغاز ہے۔اسرائیلی وزیراعظم 102 کمپنیوں کے 130 کاروباری افراد کے بھاری وفد کے ہمراہ بھارت اترے ہیں۔ مفاہمت کی دس یادداشتوں (ایم او یوز)پردستخطوں کے علاوہ دفاع، تجارت، معیشت، توانائی، زراعت، سائیبر سکیورٹی، مشترکہ فلم سازی، ٹیکنالوجی، خلائی تعاون سمیت کئی شعبوں میں تعاون کا شور ہے۔ بھارتی نجی اداروں کی ٹیکنالوجی میں عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری بھی اس شامل ہے۔ لیکن جن اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اس میں پاکستان اور چین کا گھیراؤ کرنے کی مشترکہ حکمت عملی بھی شامل ہے مودی پاکستان کے آبی وسائل میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے 50 کروڑ روپے کے فنڈ اور اسکے استعمال کے بارے اپنی کامیابیوں کی تفصیلات بیان کرینگے۔ گزشتہ سال مودی کے اولین دورہ اسرائیل کے دوران طے پانے والے آبی و زراعت کے شعبہ میں تعاون بارے معاہدات پر عملدرآمد کا جائزہ بھی اس دوران لیاجائیگا۔ بھارت روانگی سے قبل نیتن یاہو نے کہاکہ’’میرے دورہ سے سکیورٹی، معیشت، تجارت اور سیاحت سمیت دیگر مفادات کو فائدہ ملے گا۔ دورہ سے اسرائیل کے اہم عالمی طاقت کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوں گے۔‘‘ یہ دورہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کے پچیس سال بعد ہورہا ہے۔ حالیہ دورہ کی اہمیت یہ بھی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے جو فساد برپا کیا ہے ، اقوام متحدہ میں پوری دنیا یعنی 128ممالک نے اسے مستردکردیا۔ اسرائیل کا دوست بھارت بھی امریکی اقدام مستردکرنیوالے ممالک میں شامل تھا۔
سرد جنگ کے دوران بھارت کے اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا تعلقات نہیں تھے بلکہ اس کا جھکائو فلسطین کی طرف رہا۔ چوتھائی صدی میں دونوں ممالک میں تعلقات میں قربت آئی۔ اب دونوں ممالک میں تعلقات سدا بہار ہیں۔ جن کی بنیاد پاکستان دشمنی پر ہے۔ جی ہاں عرب تو صہیونیوں کے پیارے ہیں دشمنی تو پاکستان'ایران اور حسن نصراللہ کی حزب اللہ سے ہے۔ دونوں ممالک میں تعلقات اتنے مضبوط اور اتنے اہم ہیں کہ ہماری دانست میں اب کوئی چیز انہیں واپس نہیں دھکیل سکتی۔ وزیراعظم نیتین یاہو کے ساتھ 130رکنی کاروباری وفد کی آمد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اسرائیل میں بھارت سے کاروبار کا بہت جوش پایاجاتا ہے۔ نیتن یاہو کی آمد پر مودی کے خود ہوائی اڈے پہنچ کر استقبال پر اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے بیان جاری ہوا کہ ’’مودی کی ہوائی اڈے پر آمد خوشگوار سرپرائز تھا کیونکہ پروگرام کیمطابق کابینہ کے وزیر نے مسٹراینڈمسز نیتن یاہو کا استقبال کرنا تھا۔‘‘ نیتن یاہو نے بیان میں کہاکہ ’’میں اس خیرسگالی کو بہت سراہتاہوں۔‘‘
ہوائی اڈے پر استقبال کے بعد مودی نے تصویر کے ساتھ پیغام ٹویٹر پر جاری کیا۔ ’’بھارت آمد پر خوش آمدید میرے دوست وزیراعظم نیتن یاہو، آپکا دورہ بھارت تاریخی اور خاص ہے۔ دونوں ممالک کی دوستی اس سے مزید مضبوط ہوگی۔‘‘ ہوائی اڈے سے دونوں راہنما تین مورتی یادگار گئے اور حیفہ میں جنگ عظیم اول میں مارے گئے سپاہیوں کی یادگار پر حاضری دی۔ تین مورتی چوک کا نام بدل کر تین مورتی حیفہ چوک رکھ دیا گیا ہے۔ بھارتی سپاہیوں نے حیفہ میں جنگ لڑی تھی جو اب اسرائیل کا ساحلی شہر ہے۔
ممبئی میں نیتن یاہو یہودی برادری سے ملاقات کریں گے۔اس جگہ کو ممبئی حملوں کے تناظر میں ایک علامت بناکر پیش کیاجارہا ہے کہ دہشتگردی کے حملے سے یہودی اقلیت بھی متاثر ہوئی۔ اس موقع پر مودی' نیتن یاہو کو بتائیں کے ممبئی حملوں کے مبینہ 'شہ دماغ' حافظ سعید کو ہم نے لے پالک پالتو دانشوروں کے ذریعے پاکستان میں مجرم بنادیا ہے اور یہ کہ عدالتوں کی مداخلت کے باوجود حافظ سعید عملا پاکستان میں بھارت کے جنگی قیدی ہیں اس سلسلے میں عالم اور سیاہ روئوں کا کردار بھی زیر بحث آئیگا بھارتی سرمایہ داروں اور بالی ووڈ صنعت کے نمائندوں سے ملاقات بھی ہوگی۔ نتین یاہو مودی کی آبائی ریاست گجرات بھی جائیگا۔جہاں دونوں رہنما جوائنٹ روڈ شو کرینگے۔نتین یاہو تاج محل کی سیر بھی کرینگے۔
تین روزہ جیوپولیٹیکل کانفرنس ’ریسینا ڈائیلاگ‘ میں بھی شریک ہوں گے۔ اس مذاکرے میں 90ممالک کے ڈیڑھ سو مقررین اور 550 مندوبین کی شرکت کا اعلان کیاگیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اور بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لانبا، امریکی کمانڈر پیسفک کمانڈ ایڈمرل ہیری ہیریس، جوائنٹ فورسز کمانڈر برطانیہ جنرل کرس ڈیویرل اور دیگر تمام دن جاری رہنے والی کانفرنس کے سیشن سے خطاب کرینگے۔سابق افغان صدر حامد کرزئی، کینیڈا کے سابق وزیراعظم سٹیفن ہارڈر اور سویڈن کے سابق وزیراعظم کارل بلڈٹ بھی مقررین میں شامل ہیں۔کانفرنس کا عنوان ’مینجنگ ڈسرپٹیو ٹرانزیشنز:آئیڈیاز، انسٹی ٹیوشنز اینڈ ایڈیمز‘ رکھاگیا ہے تعطل پیدا کرنیوالے بحرانوں سے کیسے نمٹا جائے۔ ان حالات میں نظریات، ادارے اور تصورات شامل کئے گئے ہیں۔ نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ اسرائیل میں بھارتی فلموں کی عکس بندی ہو۔ اس مقصد کیلئے دورہ بھارت کے دوران ممبئی بھی اسکے نظام الاوقات میں شامل ہے۔ بالی وڈستاروں سے جہاں اسکی ملاقات ہوگی۔ دونوں ممالک میں مشترکہ فلم سازی پر بھی بات چیت ہوگی۔
دونوں ممالک کے درمیان 1992ء میں دوطرفہ تجارت 20کروڑ ڈالر تھی جو 2016ء میں بڑھ کر 4.16ارب ڈالرہوگئی ہے۔ یہ اسرائیل کی سالانہ تقریبا چالیس ارب ڈالر تجارت کے مقابلہ میں اب بھی خاصی کم ہے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار امریکہ اور یورپی یونین ہیں۔ دورہ کے دوران ایک اہم شعبہ جس پر بات ہوگی وہ ہیروں کی تیاری اور انکی پالش بھی ہے۔ بھارت بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت میں اضافہ کیلئے پھڑپھڑارہا ہے۔ دوطرفہ تجارت میں برآمدات 3.08ارب ڈالر اور درآمدات 1.96 ارب ڈالر ہیں۔ خام صنعتی ہیرے درآمدات اور برآمدات میں ایک ارب ڈالر کی غیرمعمولی حیثیت کے حامل ہیں۔
دنیا میں ہیروں کی برآمد کرنیوالا بھارت پہلا اور اسرائیل دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ بھارت پچھتر فیصد ہیروں کی برآمد کرتا ہے۔ اسرائیل طویل عرصہ سے پالش شدہ ہیرے امریکہ برآمد کرنیوالا سب سے بڑا ملک ہے۔ گزشتہ سال بھارت نے دنیا کے سب سے بڑے ہیروں کے خریدار پر قبضہ جمالیا۔ جیمز اینڈجیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل کے سابق چیئرمین شنکر پندیا کے مطابق اسرائیل میں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے کمپنیاں ہیروں کی تیاری اور پالش کیلئے بھارت کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔روزگار پالیسی کی غیرموجودگی میں بھارت ایسے سودوں سے محروم جارہا تھا۔ اور یہ کام چین اور ویتنام جارہا تھا۔ جاب ورک پالیسی کی شرط پوری کرنیوالے ممالک کو یہ کام ملتا ہے۔
اسرائیل ہیروں کی برآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے جو اس کی برآمدات کا چوبیس فیصد ہے۔ بھارت اسرائیل کو جو دیگر مصنوعات برآمد کرتا ہے، ان میں پٹرولیم اور نامیاتی کیمیا شامل ہیں۔ اسرائیل اپنی برآمدی مصنوعات میں اضافہ کیلئے کوشاں ہے۔ اسرائیل کی بھارت میں سرمایہ کاری 13کروڑ ڈالر سے زائد ہے۔ یہ حجم نسبتا کم ہے جس کی وجہ سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کا درمیانی حجم ہے۔ ٹیکنالوجی کی بنیادپر مخصوص منصوبہ جات کی بنا پر اب سرمایہ کاری کا موجودہ حجم بھی بڑھے گا۔ اسرائیل کی بھارت میں موجودہ سرمایہ کاری جن شعبہ جات میں ہے، ان میں راجستھان میں ڈرپ اری گیشن اور شمسی توانائی، مدھیا پردیش اور تلنگانہ میں فارمنگ، آگرہ میں ویسٹ مینجمنٹ کے منصوبے شامل ہیں۔ ’مڈلیول‘ کی کمپنیاں ان شعبہ جات میں بھارت سے شراکت داری چاہتی ہیں۔ اسرائیل اور بھارت میں آزادانہ تجارتی معاہدہ بھی اس دورہ میں اہمیت رکھتا ہے۔اسرائیلی صدر ریوین ریولین نے 2016ء میں دورہ بھارت کے دوران اس معاہدہ پر زوردیاتھا۔ بھارتی حکام کے مطابق اگرچہ اس ضمن میں مذاکرات کا پہلا دور2010ء میں ہوا تھا۔ تاہم حکومت اسی نوعیت کے دیگر معاہدات کی تیاری کی بنا پر مذاکرات میں کچھ وقت لے رہی ہے۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا اجرا سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے 2007ء میں کیاتھا اور اس ضمن میں مذاکرات کے لئے حتمی تاریخ 2014ء مقرر کی گئی تھی۔ اب تک اس بارے میں مذاکرات کے نو ادوار ہوچکے ہیں۔ نیتن یاہو کے دورہ کے دوران فوجی تعاون میں بھی خاطرخواہ پیش رفت متوقع ہے۔ نئی دہلی نے اسرائیل سے 131 زمین سے فضا میں مارکرنے والے میزائل خریدنے کا اراداہ ظاہر کیا ہے۔ یہ میزائل وکرانت جہازوں میں استعمال ہونگے۔ فلسطینیوں کے حقوق کی عالمگیر تنظیم (بی ڈی ایس) کی بھارت میں سربراہ آپوروا گوتم نے تنقید کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بھارتی سفارتی تعلقات کو فعال بنانا عالمی سطح پر بھارتی رویہ کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت امریکہ اسرائیل کیمپ میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اس کی پوزیشن تضادات کا شکار ہے۔ امریکہ اور چین میں سابق بھارتی سفیر نروپما راٹے کے الفاظ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پختگی بھارت کیلئے تزویراتی ضرورت ہے۔ پاکستان اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ 1990ء کے آواخر میں بھارت میں سفارتکاری کی ذمہ داریاں انجام دینے والے آرتھر لینک کا تجزیہ ہے کہ بھارت نے یہ سوچا ہے کہ فلسطین میں اس کیلئے کیا ہے؟ بہت سے ممالک کی طرح بھارت یہ واضح کررہا ہے کہ فلسطین کو ایک طرف رکھ کر وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرسکتاہے۔