علامہ اقبال نے 1918ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتاب رموز بیخودی میں اسلامی معاشرے کے اصول و ضوابط نہایت دقت نظر کے ساتھ پیش کئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انہی سالوں میں ہندوستان کے اندر اسلامی معاشرے کی تشکیل کےلئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا تصور اپنے ذہن میں ضرور رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی روح پرور اور ولولہ انگیز نظمیں، شکوہ، جواب شکوہ، خضر راہ اور طلوع اسلام وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک عظیم ہیجان پیدا کر دیا۔ مایوسی اور ناامیدی کی فضا چھٹنے لگی اور ایک روشن مستقبل کے ظہور کی امید پیدا ہونے لگی۔ کفر کے غلبے اور غلامی کی تاریک فضاﺅں میں اقبال کہہ رہے تھے:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ¿ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ¿ توحید سے
یہ وہی زمانہ ہے جب قائداعظم مسلمانوں کی جداگانہ قومیت کی برقراری کے لئے سخت کوشاں تھے چنانچہ ان کے غیر معمولی تدبر سے 1916ءمیں لکھن¶ پیکٹ میں جداگانہ انتخابات کو منظور کر لیا گیا جو مسلم قومیت کے تشخص کی راہ استوار کرنے میں سنگ میل ثابت ہوا۔1928ءمیں مسلمانوں نے نہرو رپورٹ کو مسترد کر دیا اور1929ءمیں ہندوﺅں نے قائداعظم کے چودہ نکات کو مسترد کر دیا۔
1930ءمیں علامہ اقبال نے اسلامی قومیت کے تصور کو خطبہ الہ آباد میں نہایت واضح الفاظ میں پیش کیا اور کہا: ”ایک سبق جو میں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا، مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر قوتیں از سر نو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہو جائے گا“۔علامہ اقبال نے واضح اور واشگاف الفاظ میں ہندوستان کے اندر آزاد اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی یعنی یہ آزاد اسلامی ریاست ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کےلئے ناگزیر ہے۔
1937ءکے انتخابات کے بعد کانگریسی حکومت کے جابرانہ رویے نے آزاد اسلامی ریاست کے تصور کو مسلمانوں کے لئے ایک قطعی نصب العین کی شکل دے دی چنانچہ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں قائداعظم کو13 خطوط تحریر کئے اور ان میں اپنی 1930ءکی تجویز یعنی اسلامی ریاست کے مطالبہ کے اعلان کےلئے ان سے اصرار کیا۔
23 مارچ 1940ءکو قرار داد پاکستان کے اعلان کے بعد قائداعظم نے فرمایا کہ آج ہم نے بعینہ وہ کر دیا ہے جس کا مطالبہ ہم سے علامہ اقبال نے کیا تھا۔ یہاں علامہ اقبال اور قائداعظم کے بعض بیانات کے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں جن سے دونوں عظیم الشان رہنماﺅں میں مکمل ہم آہنگی اور توافق فکری کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان بیانات کے بنیادی موضوعات اسلام، قومیت اور جمہوریت ہیں۔اسلامی حکومت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا: ”اسلام بحیثیت ایک نظام سیاست کے اصول توحید کو انسانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں ایک زندہ عنصر بنانے کا عملی طریقہ ہے اس کا مطالبہ وفاداری خدا کےلئے ہے نہ کہ تخت و تاج کےلئے“۔
ریاست کے اسی موضوع پر قائداعظم نے فرمایا:”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے“۔
علامہ اقبال نے اسلامی قومیت کے تصور کو مسلمانوں کے ذہن نشین کرنے کےلئے اسے اپنے کلام کا خاص موضوع بنایا۔ انہوں نے کہا ”مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے ہماری قومیت کا اصول نہ ا شتراک زبان ہے ، نہ اشتراک اغراض اقتصادی بلکہ ہم لوگ اس برادری میں جو جناب رسالت مآب نے قائم فرمائی تھی اس لئے شریک ہیں کہ مظاہر کائنات کے متعلق ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے۔ علامہ کا یہ شعر :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے، ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
قائداعظم نے مسلم قومیت کی اساس کی وضاحت کرتے ہوئے8 مارچ1944ءکو فرمایا : ”مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے، وطن نہ نسل، ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا۔ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔علامہ اقبال نے اسلام اور مسلمان کے عمیق تعلق کو بیان کرتے ہوئے کہا: ” اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے“۔
قائداعظم نے کہا: ”اسلام ہر مسلمان کےلئے ایک ضابطہ ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے“۔
اسلام کے نفاذ کےلئے ایک مملکت کو لازمی قرار دیتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا: ”اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کےلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے قائداعظم نے مارچ1941ءکو فرمایا:”ہم ایک قوم ہیں اور ایک قوم کو اپنے رہنے کےلئے ایک علاقہ چاہئے قوم ہوا میں نہیں رہ سکتی۔ وہ زمین پر رہتی ہے“۔
اسلام کے حقیقی مفہوم کو واضح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا: ”اسلامی ریاست کا انحصار ایک اخلاقی نصب ا لعین پر ہے پس اسلام ایک قدم ہے نوع انسانی کے اتحاد کی طرف یہ ایک سوشل نظام ہے جو حریت اور مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ اس وقت احترام انسانی کےلئے اسلام سب سے بڑی نعمت ہے۔ قائداعظم نے کہا: اسلام وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لئے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ خدا کی توحید اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں مساوات، آزادی اور یگانگت اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔
علامہ اقبال خود سپردگی کو ایک گونہ موت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے تصوف کے ان تمام نظریات و رجحانات کی سختی سے تردید کی جو نفی خودی کی تعلیم دے کر انسان کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت کو کالعدم قرار دیتے ہیں۔ اقبال زندگی میں گریز کو شکست کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں:
گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
ہندوستان میں مسلمانوں اور خصوصاً کانگریسی علمائے کرام کا ایک گروہ تھا جو اپنے آپ کو ہندوﺅں کے حوالے کرنے پر راضی تھا۔ قائداعظم نے ملی خودی کے تحفظ کے پیش نظر فرمایا: ”یہ شکست خوردہ ذہنیت کی انتہا ہے کہ اپنے آپ کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے“۔
علامہ اقبال کا کلام اول وآخر قوت کا پیغام ہے۔ وہ قوت و شوکت کے عظیم مبلغ و مفسر ہیں انہوں نے کہا:کشت حیات کا حاصل صرف طاقت ہے حق و باطل کی رمز کی تشریح بھی صرف طاقت سے ممکن ہے۔ اگر مدعی طاقتور ہے تو اس کے دعویٰ کو دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر باطل کو طاقت حاصل ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو حق کی صورت میں پیش کرتا ہے اور حق کی تکذیب کر کے اپنے آپ کو حق بتاتا ہے۔
زندگی کی اس بنیادی قدر اور کامیابی کی اس کلید کے بارے میں قائداعظم نے کہا:”کمزور فریق کی جانب سے امن و صلح کی پیشکش کا مطلب ہمیشہ کمزوری کا اعتراف اور جارح کیلئے حملہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ تمام تحفظات اور معاہدات اگر ان کی پشت پر طاقت نہ ہو تو وہ محض کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024