دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے خصوصی قوانین کی ضرورت آصف علی زرداری کے دور میں بھی محسوس کی گئی تھی مگر اس وقت مسلم لیگ(ن) کی قیادت تعاون پر آمادہ نہ تھی اور آج پی پی پی تحفظ پاکستان بل کی مخالفت کررہی ہے اسے پاکستانی سیاست کا کرشمہ کہیے۔ سینٹ میں پی پی پی کی اکثریت ہے اسکے تعاون کے بغیر آرڈی نینس کی منظوری مشکل ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اگر سنجیدگی کے ساتھ اتفاق رائے کی کوشش کرتی تو محاذ آرائی کی کیفیت پیدا نہ ہوتی۔ پی پی پی کے علاوہ پارلیمنٹ کی تمام قابل ذکر جماعتیں تحریک انصاف، ایم کیو ایم، مسلم لیگ(ق) ، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی اور جماعت اسلامی تحفظ پاکستان بل کی مخالفت کررہی ہیں۔ خصوصی قوانین کی محرک سکیورٹی فورسز ہیں جو لاپتہ افراد کیس کی بناء پر سخت دبائو کا شکار ہیں۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے حالات غیر معمولی ہیں لہذا پاکستان کے دفاع اور تحفظ کیلئے خصوصی قوانین کی ضرورت ہے کیونکہ مروجہ قوانین دہشت گردوں پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے خصوصی قوانین بنا کر دہشت گردی پر قابو پایا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اگر اس آرڈی نینس کی منظوری سے پہلے پارلیمانی لیڈروں کو اعتماد میں لے لیتے تو اس قدر شدید ردعمل سامنے نہ آتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت پوائنٹ سکورنگ کررہی ہے اور اسٹیبلشمینٹ کو باور کرارہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں سکیورٹی فورسز کو خصوصی اختیارات دینے کیخلاف ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں اصولی اتفاق رائے موجود ہے کہ خصوصی حالات میں خصوصی قوانین بنائے جانے چاہئیں البتہ اختلاف یہ ہے کہ خصوصی قوانین بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہ ہوں۔ سیاسی جماعتیں چونکہ ہوم ورک کی عادی نہیں ہیں لیڈر قانون سازی میں پوری دلچسپی نہیں لیتے اس لیے نہ ہی وہ اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھ پاتے ہیں اور نہ ہی ٹھوس متبادل تجاویز پیش کرتے ہیں لہذا اصل مسئلہ تندوتیز سیاسی بیانات میں گم ہوجاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین قانون کے مطابق تحفظ پاکستان بل کے کچھ آرٹیکل پاکستان کے آئین سے متصادم اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ خصوصی قوانین کے مطابق سکیورٹی فورسز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو شک کی بنیاد پر نوے روز کیلئے حراست میں رکھ سکتی ہیں ان پر یہ پابندی بھی نہیں ہوگی کہ وہ دہشت گرد کی شناخت اور اس کا ٹھکانہ ظاہر کریں گویا اس طرح سکیورٹی فورسز کو مشکوک افراد کو لاپتہ کرنے کا قانونی اختیار مل جائیگا۔ مروجہ قوانین کے مطابق جب تک استغاثہ کسی ملزم کے جرم کو ثابت نہ کردے وہ بے گناہ رہتا ہے مگر بل میں اس عالمی اصول کو تبدیل کردیا گیا ہے اور مشکوک فرد پر ذمے داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ خود اپنی صفائی اور بے گناہی ثابت کرے۔ تحفظ پاکستان آرڈی نینس میں سکیورٹی اہلکاروں کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ مشکوک فرد کو وارننگ دے کر اپنے دفاع کیلئے موقع پر گولی مارسکتے ہیں۔
سکیورٹی اداروں کی ناقص کارکردگی اور ان پر بداعتمادی کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کررہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری نے مجوزہ قانون کو آمرانہ، غیر انسانی، خونی اور بے رحم قرار دیا ہے۔ پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر خصوصی قوانین کو آئین کے آرٹیکل نمبر 10 کے منافی قراردیتے ہوئے اس خدشے کا اظہارکیا ہے کہ ان قوانین کو انتقامی کاروائیوں کیلئے استعمال کیا جائیگا۔
تحریک انصاف نے تحفظ پاکستان آرڈی نینس کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر مولوی سراج الحق نے بھی پی پی او کو انسانی حقوق کے منافی قراردیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تحفظات اور خدشات بے جانہیں ہیں۔ جن سکیورٹی ایجنسیوں نے اختیارات کے بغیر ہزاروں شہریوں کو لاپتہ کردیا ان کو اگر اغوا کرنے کا لائسنس مل گیا تو وہ قیامت برپا کردیں گی۔ محض شک اور کمزور شہادت کی بناء پر نہ صرف لوگوں کی آزادی سلب کرلی جائے گی بلکہ معصوم شہری اپنی زندگیاں بھی گنوا بیٹھیں گے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق عراق جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے ستر فیصد قیدی بے گناہ تھے جن کو ذاتی اختلاف، انتقامی جذبے اور جھوٹی گواہی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کے دانشور چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی نے دانشمندانہ حل پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے ریاست کی سکیورٹی اور انسانی حقوق کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ چیف جسٹس پاکستان کے اس تصور کی روشنی میں تحفظ پاکستان آرڈی نینس کو متوازن بنانے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں محاذ آرائی کی بجائے ایسی ترامیم تجویز کریں جن سے انکے خدشات بھی دور ہوجائیں اور دہشت گرد قوانین کی کمزوری اور عدالتی نظام کی خامیوں کی وجہ سے بچ بھی نہ سکیں۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران ہزاروں دہشت گرد قانون کی کمزور گرفت سے بچتے رہے اور ضمانت پر رہا ہوکر دوبارہ دہشت گردی کرتے رہے۔ معصوم اور بے گناہ انسانوں کے قاتل کسی رحم اور نرمی کے مستحق نہیں ہونے چاہئیں۔
پی پی او قومی اسمبلی میں بلڈوز ہوچکا اب اسے سینٹ میں منظوری کیلئے پیش کیا جائیگا۔ سینٹ کاماحول سخت کشیدہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان حلف اُٹھانے کے بعد ایک بار بھی سینٹ کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ رویہ آئین کی روح اور جمہوری اصولوں کیخلاف ہے۔ سینٹ نے ایم کیو ایم کی تحریک منظور کرلی ہے جس کیمطابق وزیراعظم کو ہفتہ میں ایک بار اجلاس میں شریک ہونے کا پابند بنایا گیا ہے۔یہ فیصلہ حکومتی جماعت کیلئے خفت کا باعث ہوگا۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس قسم کے تماشے نہیں ہوتے۔ پی پی او سینٹ سے منظور نہیں ہوسکے گا۔ آئین کے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر خصوصی قوانین کے بل کی منظوری حاصل کی جائیگی۔ پاکستان میں خصوصی قوانین مختلف اوقات میں بنتے رہے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ سکیورٹی امور کے ماہرین کے مطابق اگر پولیس کو غیر سیاسی، غیر جانبدار اور خودمختار بنادیا جائے تو امن و امان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے مگر استحصالی طبقات اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پولیس کو کبھی آزاد نہیں ہونے دینگے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024