جس کسی نے بھی انکو دبنگ خان کہا ہے درست ہی کہا ہے۔ عمران نے سیاست کو ایک نئی ہمت اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ حکمرانوں کا ڈر اور خوف اذہان میں جونک کی طرح چمٹا ہوا تھا انہوں نے نکال باہر کیا ہے۔ بھٹو نے غریب کو زبان دی تھی خان نے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے عمران جلسے جلوسوں میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ غیر شائستہ ہے، لب و لہجہ غیر مہذب ہے، ہر کسی کو اوئے کہہ کر پکارتے ہیں۔ الزام تراشی اور اتہام برہنہ گفتاری کی حدوں کو چھونے لگے ہیں …؎
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تُمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
امر واقعہ یہ ہے کہ سیاست کی ٹیکسالی زبان ہے۔ جب آپ لاکھوں کے مجمع کو خطاب کرتے ہیں تو جذبات ابھارنے کیلئے تگڑے، جاندار اور ’’جُوسی‘‘ فقرے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ جو دل کے نہاں خانوں میں اُتر جائیں جو خون کی گردش تیز کر دیں۔ نظام مصطفی تحریک کے دوران علمائے کرام نے بھٹو کے خلاف جو زبان استعمال کی اسکے تناظر میں تو یہ جملے بارِ لطیف لگتے ہیں۔ مقصد ان کا جواز تلاش کرنا نہیں حقیقت کی نشاندہی کرنا ہے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ جس شخص کو اپنا شجرہ نصب تلاش کرنا ہو اسے چاہئے کہ خارزار سیاست میں کود جائے۔ ذرا تصور کریں! عمران میاں صاحبان پر کرپشن، اقربا پروری اور فسطائیت کا الزام لگاتے ہوئے کہیں’’حضرت میاں نواز شریف صاحب، قبلہ عالم جناب شہباز شریف صاحب مَیں اس جسارت پر پیشگی معذرت خواہ ہوں لیکن کچھ مفسد کہتے ہیں کہ آپ پر منجملہ الزامات درست نہیں یا خواجہ صاحب کہیں عزیز از جان، عمران! کیا آپ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ شوکت خانم ہسپتال میں خاکم بدہن کچھ گھپلے ہوئے ہیں چونکہ آپ اس طبل و علم کے مالک و مختار ہیں لہٰذا بدعنوانی کے کچھ چھینٹے آپکی قبائے زریں پر بھی لگے نظر آتے ہیں۔
اس طرح نہیں ہوتا، ہو بھی نہیں سکتا۔ کسی زمانے میں شیخ رشید گالم گلوچ میں اس قدر آگے بڑھ گئے تھے کہ مجسم دشنام نظر آتے تھے۔ محترمہ بے نظیر کیخلاف نہایت ہتک آمیز اور کھولتے ہوئے جملے استعمال کرتے، اس وقت شیخ صاحب کا شمار میاں صاحب کے پنج پیاروں میں ہوتا تھا۔ میاں ستار لالیکا بڑے فخریہ انداز میں کہتے ’’ہر پارٹی کو ایک شیخ رشید پالنا پڑتا ہے‘‘ گو فرزندِ راولپنڈی ن لیگ سے نکل گئے یا نکال دیئے گئے لیکن طلال چوہدری اور دانیال غزیز ٹائپ لوگوں نے شیخو بابے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔
بالفرض مان بھی لیا جائے کہ عمران اندیشہ ہائے دور دراز سے کافی آگے نکل گئے ہیں اور انہوں نے ہر وسوسے کو ذہن کے زندان سے نکال دیا ہے۔ دریا میں رہ کر صرف مگر مچھ سے بیر نہیں پالا بلکہ کسی حد تک اس کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا ہے تب بھی کامیابی کے واضح آثار ہنوز نظر نہیں آتے۔ اسکی وجہ؟ خان کا بھولپن ہے، ناتجربہ کاری ہے یا نااہل مشیروں کے نرغے میں ہیں۔ یہ مشیربصیرت سے محروم ہے جو لیڈر کو درست اور بروقت مشورہ دینے پر منتج ہوتی ہے۔ ہمیں اس بات کی ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ چوہدری سرور کو انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان آنے کی کیا سوجھی؟ پھر کسی احسان کے بدلے میاں صاحبان نے پنجاب کی گورنری انکی جھولی میں ڈال ہی دی تھی تو کیا ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مارنا ضروری تھا۔ چوہدری بیشک زیرک انسان ہے لیکن وطن عزیز کی سیاسی تاریخ سے نابلد یہاں اقتدار کے پہلے مرحلے میں ہی محسنوں اور انکلوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا جاتا ہے۔ گو صفِ شہدا کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن جاوید ہاشمی کا انجام دیکھ انہیں عبرت پکڑنی چاہئے تھی۔ ہاشمی صاحب کی قربانیاں سونے میں تولنے کے قابل ہیں، ایک آمر کے سامنے جلاوطنوں کی خاطر ڈٹ جانا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا، کسی قسم کی ترغیب یا تحریص میں نہ آنا، وفا اور دوستی کی ایک عظیم داستان رقم کرنا، برسوں کی رقابت، جانثاری اور محبت پر حواریوں، درباریوں اور کاسہ لیسوں کا ایک جملہ بھاری پڑ گیا عالی جاہ! یہ آپ سے بڑا لیڈر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ سرور صاحب کو تو پیغام ملا ’’اپنی حد میں رہو!‘‘ ہاشمی صاحب کو حدود وقت سے آگے نکال دیا گیا۔ کچھ کہنے سُننے کی نوبت ہی نہ آئی۔ جاوید ہاشمی زیرک اور خوددار شخص ہے خط کا مضمون لفافہ دیکھ کر ہی بھانپ گیا۔ یہ کہہ کر ’’آپ نے مجھے کیا رخصت کرنا ہے میں خود ہی چلا جاتا ہوں‘‘ رختِ سفر باندھ لیا۔ سُنا ہے کہ معروضی حالات کے تحت ایک مرتبہ پھر انہیں ’’جھپا‘‘ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسکے علاوہ سول سروس کے چند مرغان کلنگ ہیں۔ نورانی چہرے والا تو حالات کو دیکھتے ہوئے خود ہی بھاگ گیا ہے دوسرا دیوار پر بیٹھا ہوا ہے۔
اگر حیرانی ہوتی ہے تو خان صاحب کی قانونی ٹیم پر! حامد خان کا شمار ملک کے ممتاز قانون دانوں میں ہوتا ہے۔ ساری وکلا برادری دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ حامد خان گروپ اور عاصمہ جہانگیر کا دھڑا۔ کسی وقت جسٹس وجیہہ الدین بھی اس ٹیم کا حصہ تھے، اب خیر سے بابر اعوان بھی شامل ہو گئے ہیں۔ قانونی دائو پیچ اور بقول شخصے ہیرا پھیریوں کے ماہر ہیں۔ جب خان پینتیس پنکچروں اور اردو بازار میں بیلٹ پیپرز کے چھپنے کا اعلان کر رہے تھے تو ہم نے ان کالموں کے ذریعے نشاندہی کی تھی کہ الزامات کو ثابت کرنے کیلئے جس قسم کی شہادت کی ضرورت ہوتی ہے وہ دستیاب نہیں۔ حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ حامد خان نے عمران کو اس وقت کیوں نہیں بتایا کہ عدم ثبوت کی بنا پر مقدمہ ہار جائو گے! کیا وجہ یہ تھی کہ حامد خان قانون شہادت سے نابلد تھے؟ یا اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سُنتا تھا۔ ہمارے خیال میں دوسری بات کا امکان زیادہ ہے۔ اس صورت میں ایک نامور وکیل کو مصلحت پسندی سے کام نہیں لینا چاہئے تھا۔
اب معاملہ اس مرحلہ پر آ گیا ہے جسے CRUNCH کہا جاتا ہے۔ Do or Die والی صورتحال ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ کس قسم کا دستاویزی ثبوت خان کی ٹیم کے پاس موجود ہے البتہ پیشہ ورانہ دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ خان کو بتا دیا جائے کہ آگ کے اس کھیل میں آپکی اور وہ جو دائیں بائیں کھڑے ہیں انکی انگلیاں بھی جل سکتی ہیں۔ کراس کیس میں مدعی الزام علیہ بھی ہوتا ہے۔ ایسا ہی اس مقدمہ میں ہے۔ کسی زمانے میں محبت کرنیوالے ایک ساتھ جینے اور مرنے کی قسم کھایا کرتے تھے۔ لگتا ہے اب سیاسی حریفوں نے بھی کچھ ایسا ہی ارادہ کر لیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38