ایران اور سعودی عرب جنگ کے دہانے کھڑے ہیں۔ طبل جنگ بجا رہا ہے اور ہمارے پیارے جنرل راحیل شریف سعودی قیادت میں بننے والے ’’مسلم نیٹو‘‘ کہلانے والے اسلامی عسکری اتحاد کے کمانڈر ان چیف بن چکے ہیں واضح رہے کہ جنرل راحیل شریف نے ’’مسلم نیٹو‘‘ قرار پانے والے اس فوجی اتحاد میں ایران کی شمولیت کی پیشگی شرط رکھتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کی عدم موجودگی میں وہ اس عسکری اتحاد کی سربراہی نہیں کریں گے ایران تو اس عسکری اتحاد میں شامل نہیں ہوا لیکن پاکستانی جرنیل اس ’سپاہ شاہ‘ کا پہلا کماندار سپہ سالار بن چکا ہے اندریں حالات اگر سعودی عرب اور ایران میں جنگ آزمائی شروع ہو جاتی ہے تو پاکستان ناقابل بیان خطرات سے دو چار ہو جائے گا جس کا مکمل ادراک بھی نہیں کیا جا سکتا یہ فسادِ افغانستان سے بھی بڑا اور ہولناک سانحہ ہو گا جس کا خمیازہ شاید ہمیں برسوں نہیں، صدیوں تک بھگتانا پڑے گا۔ کوئی خود فریبی سی خود فریبی ہے۔ جھوٹ اور مکر کا کھیل ایسی دیدہ دلیری سے کھیلا جا رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک ایسا معاملہ جس پر مقتدر پارلیمان کھل کر اپنا فیصلہ سنا چکی ہے کہ پاکستان مسلم ممالک کے درمیان مسلکی تنازعات میں فریق نہیں بنے گا۔ لیکن پاکستان کو ایسے ہی معاملات میں بار بار الجھایا جارہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل دیا جانے والا اسلامی فوجی اتحاد ایران کی عدم موجودگی نمائندہ مسلم عسکری اتحاد کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ شام میں گزشتہ چار سال سے جاری بغاوت کی بھڑکتی آگ اب ٹھنڈی ہو رہی ہے جس کے پس پردہ محرکات میں امریکی شاطروں اور اس کے ٹوڈیوں کی سازشیں روز اول سے بروئے کار رہی ہیں۔ پیوٹن کی فیصلہ کن مداخلت نے سعودی عرب، قطر اور ترکی اتحاد ٹلاثہ کی چھتر چھائوں میں ساری دنیا سے اکٹھے کئے گئے ’’مجاہدین صرف شکن‘‘ کے پرخچے اڑائے تو پھر حلب میں مظالم کی کہانیاں گھڑی گئیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑ چکی ہیں۔
جبکہ ایران نے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اس اتحاد میں شمولیت سے صاف انکار کر دیا ہے جس کے بعد اس عسکری اتحاد پر فرقہ ورانہ رنگ غالب آگیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف تشکیل دیئے جانے والے اس اتحاد کے بانی نائب ولی عہد اور سعودی وزیر دفاع شہزاد محمد بن سلمان ہیں جن کے متنازعہ بیانات کی وجہ سے سعودی ایران کشیدگی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ العربیہ نیوز چینل کے پروگرام ’’الثّامنہ‘‘ میں سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ’’ہم کسی ایسے نظام کے ساتھ مفاہمت کیسے کر سکتے ہیں جو اپنے آئین اور خمینی کی وصیت میں موجود شدت پسند نظریے عالمِ اسلام پر کنٹرول حاصل کرنے اور پوری اسلامی دنیا میں اپنے مسلک کو پھیلانا چاہے یہاں تک کہ مہدی منتظر کا ظہور سامنے آ جائے۔ میں اس (نظام) کو کیسے قائل کروں‘‘؟ شہزادہ سلمان نے مزید کہا کہ ’’یہ (نظام) مختصر مدت میں اپنا موقف ہر گز تبدیل نہیں کرے گا اِلّا یہ کہ ایران کے اندر اس (نظام) کی شریعت کا خاتمہ ہو جائے۔ جن نکات پر اس نظام کے ساتھ مفاہمت ہو سکتی ہے وہ قریبا ناپید ہیں‘‘۔ سعودی نائب ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’’اس نظام کو ایک سے زیادہ مرحلے پر آزمایا جا چکا ہے اب ایسا ہر گز نہیں ہو سکے گا، یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ مؤمن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا ہے۔ ہم ایک مرتبہ ڈسے جا چکے ہیں اور دوسری مرتبہ نہیں ڈسے جائیں گے۔ ہم جان چکے ہیں کہ ہم ایرانی نظام کا مرکزی نشانہ ہیں۔ مسلمانوں کے قبلے تک پہنچنا ایرانی نظام کا بنیادی ہدف ہے۔ ہم اس وقت تک انتظار نہیں کریں گے کہ معرکہ جنگ سعودی عرب میں ہو بلکہ ہم کوشش کریں گے کہ یہ معرکہ آرائی سعودی عرب کے بجائے ایران میں انجام پائے‘‘۔ شہزادہ محمد بن سلمان جو اپنے والد گرامی شاہ سلمان کی عدم دستیابی کی صورت میں سعودی عرب کے حقیقی اور اصل حکمران ہیں، اپنی طرز فکر کی وجہ سے امریکی صدر ٹرمپ کی طرح خاصے خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ دونوں آئندہ ہفتے ہی جدہ میں مل رہے ہیں‘ اس ملاقات میں ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف بھی شامل ہوں گے جن کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کا خصوصی اہتمام کرایا جارہا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ ہفتے براہ راست تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ایرانی ملا ظہور امام مہدی کی آڑ میں مکہ اور مدینہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک ارب اور 60کروڑ مسلمانوں کی قیادت پر قابض ہوسکیں اور ہم ایرانیوں کے ان عزائم کو ناکام بنا دیں گے۔ دوسری طرف ایرانی حکومت خاص طور پر فوجی قیادت نے بھی پہلی بار کھل کر سعودی حکمرانوں کو خبردار کیا کہ ایران کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کی صورت میں مکہ اور مدینہ کے حرمین شریفین اور مقامات مقدسہ کو چھوڑ کر سارے سعودی عرب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اسی طرح ایرانی جرنیلوں نے پاک ایران سرحد پر جاری کشیدگی کے حوالے سے دھمکیاں دیتے ہوئے پہلی بارخبردار کیا کہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور کیمپوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو سعودی عرب کی مالی مدد سے ایران کے خلاف دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ایرانی حکام نے اس سلسلے میں ’’جیش العدل‘‘ نامی گروہ کا کھل کر نام لیا ہے۔ جیس العدل کا نام کل بھوشن یادیو کے حوالے سے پہلی بار اس وقت منظرعام پر آیا تھا۔ جب جرمن ریٹائرڈ سفارتکارگنٹر ملائیک نے کراچی میں عرب بہار پر گفتگو کرتے ہوئے اچانک انکشاف کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو ’’جیش العدل‘‘ نے ایران سے اغوا کر پاکستانی خفیہ اداروں کو فروخت کیا تھا جس کی خبر نمایاں طور پر شائع نہ ہونے پر شہر کا نام بدل کر جنگجو میڈیا گروپ نے اپنے اردو اور انگریزی اخبارات بڑے اہتمام سے شائع کرائی تھی۔ (جاری)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024