چند روز پیشتر سینیٹ کی مہمانوں کی گیلری میں بیٹھا تقاریر سن رہا تھا۔ موضوع دلچسپ بھی تھا اور مفید عام بھی۔ CPEC کے حوالے سے معزز ارکان کے شکوک و شبہات تھے‘ جن کا وہ ازالہ چاہتے تھے۔ کسی کو شکوہ تھا کہ متعلقہ معاہدات اس قدر خفیہ کیوں ؟ کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ تو سراسر چین کے فائدے کی چیز ہے‘ جس سے پاکستان کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ حتیٰ کہ حکمران جماعت کی ایک سینیٹر صاحبہ نے فرمایا کہ بین الریاستی معاہدات برابری کی سطح پر طے پاتے ہیں‘ مگر اس معاہدہ میں برابری نام کی کوئی چیز نہیں اور جھکاؤ چین کی طرف ہے۔ معزز سینیٹرز کی آہ و بکا ختم ہوئی‘ تو متعلقہ وزیر نے انکشاف کیا کہ CPEC کے تحت گوادر کی بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدن کا 91فیصد حصہ چین کو ملے گا۔ جبکہ باقی 9 فیصد پورٹ اتھارٹی کو جائیگا۔ پاکستان کو کیا ملے گا؟ اس بارے میں راوی خاموش ہے۔ یہی نہیں چین گوادر میں اپنی کرنسی یوان کو قانونی حیثیت دلوانے کیلئے کوشاں ہے جو کہ ا سے بین الاقوامی کرنسی کی حیثیت دلانے کی جانب ایک قدم ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چینی کرنسی گوادر میں ہی کیوں ؟ یہ کام پورے پاکستان میں بھی تو کیا جا سکتا ہے اور یہ مسئلہ کوئی آج کا بھی نہیں‘ بلکہ خاصا پرانا ہے۔ جسے پاکستانی حکام کے ساتھ ماضی میں متعدد بار اٹھایا جا چکا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے متعلقہ ذمہ دار حکام ایک پیچ پر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ سبھی گول مول سی بات کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ معاملہ ختم ہو گیا‘ تو کوئی اسے محض ایک تجویز قرار دیتا ہے۔
CPEC ہر پاکستانی کے نوک زبان پر ہے۔ ہر کوئی آس لگائے بیٹھا ہے کہ جونہی یہ طلسماتی پراجیکٹ چالو ہو گا‘ وطن عزیز کے سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ گیم چینجر کی اصطلاح کچھ اس تواتر سے استعمال ہوئی ہے کہ اب کانوں کو گراں گزرنے لگی ہے۔ پچھلے دنوں CPEC کی جائنٹ کوآپریشن کمیٹی کا ساتواں اجلاس ہوا تھا۔ جس میں ’’طویل المیعاد منصوبہ‘‘ طے پانا تھا کہ CPEC کے تحت 2030ء تک ہم نے کچھ کرنا ہے۔ مگر اس میٹنگ کے فیصلوں کو بھی پردہ اخفاء میں رکھا گیا اور جو کچھ سامنے آیا‘ اس سے کنفیوژن میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو پایا۔ گیم چینجر کی بھونڈی تکرار ہے اور بس مگر تقدیر بدلے گی کیونکر ؟ یہ کسی کو معلوم ہے‘ اور نہ کسی نے بتانے کی زحمت کی ہے۔ بلکہ اب تو شبہات اٹھ رہے ہیںکہ CPEC گیم چینجر کس کے لئے ہے‘ تقدیر کس کی بدلنے جا رہی ہے‘ پاکستان کی یا چین کی ؟ جواب ہے یقیناً چین کی کیونکہ تکمیل کے بعد محض ایک عشرہ میں گوادر کے راستے چینی تجارت ایک ہزار بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے اور پاکستان کو 46 بلین ڈالر کے قرضہ کی فکر مندی کے علاوہ شاید ہی کچھ مل سکے۔ اس فکر مندی کا اظہار چند روز پیشتر سینیٹ کمیٹی برائے ریلوے سعد رفیق بھی کر چکے کہ چین پہلے تو سافٹ قرضوں کی بات کر رہا تھا اور اب مکسڈ قرضوں کا سنا جا رہا ہے ریلوے کی ترقی کے لئے ہمیں طویل المیعاد اور دو فی صد سے کم شرح سود کا قرضہ چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہو پایا توپاکستان کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ قوم کو اندھیرے میں رکھنے کی یہ حکمت عملی کسی طور بھی درست نہیں جس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ طرح طرح کی باتیں نکل رہی ہیں کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی خود مختاری چین کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے جس سے سیاسی خود مختاری بھی یقیناً متاثر ہو گی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گوادر کی سیکورٹی اور خطے میں رسوخ حاصل کرنے کی غرض سے چین علاقے میں چھوٹی موٹی نیول بیس کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے اور پھر انڈیا کسی نہ کسی سٹیج پر سی پیک میں شامل ضرور ہوگا۔ انڈیا کے ساتھ معاملہ کرتے وقت چین پاکستان کے مفادات کا کس حد تک تحفظ کر پائے گا؟ کیا اس حوالے سے دوطرفہ معاہدات میں اسلام آباد کو کوئی لیوریج میسر ہوگا؟ چین اور پاکستان کی باہمی تجارت کا حجم فی الحال 16 بلین ڈالر ہے جو اگلے دو برس میں 20 بلین تک پہنچ جائے گا یہ تجارت تقریباً یک طرفہ ہے جس کا نتیجہ یہ کہ پاکستان بھر کی بستیاں چینی مصنوعات سے اٹی پڑی ہیں دوطرفہ تجارت میں توازن پیدا کرنے کا کوئی پروگرام کیا سرکار کے زیر غور ہے؟۔
کسی زمانے میں ہم انڈین کلچر کی یلغار کی بات کیا کرتے تھے اب یہ یلغار شمال کی جانب سے ہونے جا رہی ہے بلکہ آغاز ہو چکا۔ پچھلے دنوں اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں بعض ناپسندیدہ آئٹمز کی وجہ سے ایک سٹور سیل کیا گیا تو مالک گھنٹہ بھر میں اجازت نامہ لے آیا کہ یہ سامان چینیوں کے استعمال میں آتا ہے اسلام آباد کے بازاروں میں سندھیوں اور بلوچوں سے زیادہ چینی دکھائی دیتے ہیں اور پھر باہمی شادیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اور جگہ جگہ چینی زبان سکھانے والے ادارے بھی کھل گئے ہیں۔ لوگ خوفزدہ ہیں کہ گوروں کے بعد اپ پیلوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی باتیں شاید اسی وجہ سے ہیں ارباب اقتدار! قوم کو اعتماد میں لیجئے‘ کھل کر بات کیجئے‘ کیونکہ یہ ملک 22 کروڑ پاکستانیوں کا ہے اور وہی اس کے حقیقی سٹیک ہولڈر ہیں۔