16دسمبر 1971ء سے زیادہ پاکستان کے عوام کیلئے کوئی اور بدترین دن نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاکستان کو قیامت تک سلامت رکھے۔ یہ الگ بات ہے کہ 16دسمبر کو پاکستان اور پاکستانی قوم پر قیامت گزر گئی۔ یہ ہماری روایت ہے یا عادت ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہیں نہ عبرت‘ شاید ہی مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی رسوائی کا کوئی سماں آیا ہو جب ہمارے ٹائیگر نیازی نے بھارتی کمانڈر کے قدموں میں ہتھیار رکھ کر سیلوٹ کیا۔ ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کیے اور پاکستان دولخت ہوگیا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے مغربی پاکستان میں ایک طرف خون کے آنسو رو رہے تھے، دوسری جانب پاکستان کے مشرقی صوبے میں پاکستان سے محبت کرنیوالوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی، لیکن وہ کسی شاعر نے کیاخوب کہا ہے کہ:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پس منظر ملاحظہ کیجئے! صورت حالات دیکھ کر ایوب خان نے منصب صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ جنرل یحییٰ خان برسراقتدار تو آگئے مگر وہ سیاست کے اسرار ورموز سے واقف نہیں تھے۔ ان کا ذوق وشوق اور قسم کا تھا۔ بڑے بڑے فیصلے انہوں نے کیے، مگر وہ نتائج سے بے خبر تھے۔ قانونی طور پر ون یونٹ ختم کرنے کا ان کو اختیار ہی نہیں تھا۔ وہ انہوں نے بیک جنبش قلم توڑ دیا۔ کسی حکمت اور دانش کو قبول نہ کرتے ہوئے انہوں نے ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔ پاکستان کی تاریخ کے یہ پہلے الیکشن تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت ہے اور زیادہ نمائندے وہاں سے منتخب ہونگے۔ ایک ضابطہ اخلاق بھی انہوں نے جاری کر دیا۔ حکمران کا دور اندیش ہونا ضروری ہے‘ اسے پتہ ہو کہ آگے کیا حالات پیش آسکتے ہیں، جوکہ یحییٰ خان بالکل نہیں تھے۔ یہ دلچسپ بات ہے مگر غوروفکر کا تقاضا کرتی ہے کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) سے امیدوار کھڑے نہیں کیے اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ دونوں مقبول لیڈروں نے یہ کیاتو نتائج واضح تھے۔ تقسیم کا عمل تو کھل کر سامنے آنے لگا تھا۔ مگر مدہوش یحییٰ خان ہر بات سے بے خبر تھا۔
ادھر مشرقی حصے میں غنڈہ گردی ہو رہی تھی‘ ضابطۂـ اخلاق کی دھجیاں اڑائی جارہی تھیں مگر یحییٰ حکومت خاموشی سے تماشا دیکھتی رہی۔ مولانا مودودی‘ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسہ منعقد کرنے کیلئے گئے جو کرنے نہیں دیا گیا۔ توقع کے عین مطابق عوامی لیگ اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی۔ اب بالغ رائے دہی کے ذریعے الیکشن منعقد کرانیوالے کا فرض تھا کہ اقتدار کامیابی جماعت کے حوالے کر دے، مگر ’’یحییٰ بھٹو‘‘ اتحاد نے یہ ہونے نہیں دیا، الٹا مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوگیا۔ بھارت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا۔ دنیا بھر میں اندرا گاندھی نے شوروغل برپا کیا اور اپنی فوج مشرقی پاکستان میں داخل کردی۔ اب صورتحال کو بگڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اقلیتی لیڈر بھٹو صاحب نے اپنے اراکین کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا۔ بھٹو پاکستان کو دولخت کرانے کے بغیر حکمران نہیں بن سکتے تھے۔ یحییٰ خان محض ایک مہرہ ثابت ہوا۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد نئے الیکشن کرائے بغیر یحییٰ خان کے ٹولے نے حکومت بھٹو صاحب کے حوالے کر دی، مگر؎
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں دیکھ کر حادثہ
ان پاکستانیوں کیلئے پاکستان نے کچھ نہیں کیا جو بنگلہ دیش میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے 45برس گزر جانے کے باوجود ان لوگوں کو پھانسی کی سزا دی جارہی ہے کہ انہوں نے پاکستان کے حمایت کیونکہ تھی حالانکہ یہ بنگالی اصحاب اسمبلی کے اراکین اور وزیر رہ چکے ہیں اور اس بنا پر کئی بار بنگلہ دیش سے وفاداری کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ یہ حسینہ واجد کے مظالم کی انتہا ہے۔ پاکستان ان بے گناہ لوگوں کی پھانسی پر احتجاج بھی نہیں کرسکا۔ کاش ہم ووٹ کی حُرمت کا خیال رکھتے جو جیتا تھا اسے اقتدار بخش دیتے۔ جیتنے والوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکاتے، مگر یحییٰ خان پر نہ مقدمہ چلا‘ نہ سزا ہوئی۔اب جمہوریت دنیا کا مزاج‘ روایت اور رواج بن چکی ہے مگر پاکستان میں اب تک ووٹ کی حرمت پامال ہوتی رہی ہے۔ ہمیں شعور اور فہم وفراست سے کام لینا اور سقوط ڈھاکہ سے سبق سیکھنا ہوگا۔