پچھلے پچاس سالوں میں مختلف حکومتوں نے ملک میں جہاں بھی سیاسی و معاشی مسائل کے سبب جو شورشیں برپا ہوئیں، انہیں دبانے کیلئے فوجی طاقت کا استعمال کیا۔ اسکی ابتدا جنرل ایوب خان کے دور میں 1959ء میں ہوئی اور اب تک قائم ہے۔ صرف بلوچستان میں پانچ مرتبہ ایسی لشکر کشی ہو چکی ہے جس کے منفی اثرات آج ہم بھگت رہے ہیں۔ تقریباً دس مرتبہ مختلف جگہوں پر فوج نے کاروائی کر کے کنٹرول قائم کیا اور حکومت کے فیصلے کا انتظار کرتی رہی کہ وہاں سول انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے اور تعمیر نو کا عمل مکمل ہو لیکن ایسا کبھی ممکن نہیں ہوا۔ آج بھی جب شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائیاں جاری ہیں تو یہ فوج ہی کی ذمہ داری ہے کہ بے گھر ہونیوالوں کی نگہداشت بھی وہی کرے اور انکی بحالی کے اقدامات بھی اٹھائے۔ سوات‘ دیر‘ باجوڑ اور جنوبی وزیرستان میں 2005ء سے لیکر آج تک یہ علاقے فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ حکومتوں کی اس نااہلی کے سبب آج ہمیں بڑی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔
اپنی فوجی ملازمت کے دوران میں خود ایسی چار فوجی کارروائیوں میں شامل رہا ہوں۔ 1959ء میںجب بلوچستان میں فوجی آپریشن ہو رہا تھا تو میں وہاں ایک سپیشل سروسز گرو پ کی کمٖپنی کی کمان کر رہا تھا، 1962 میں جب دیر میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو میں وہاں بھی سپیشل فورسز کمپنی کی کمان کر رہاتھا، 1971ء میں 9 ڈویژن کے ساتھ میں کھاریاں سے مشرقی پاکستان پہنچا اور ہماری فوج نے پانچ ماہ کے عرصے میں پورے مشرقی پاکستان پر کنٹرول حاصل کرلیا تھا لیکن بدقسمتی سے حکومت وقت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا۔ 1974-75ء میں بلوچستان میں ایک انفنٹری بریگیڈ میںکمان کر رہا تھا۔ صرف چار ماہ کی مدت میں جب ہم پورے علاقے پر کنٹرول حاصل کر چکے تھے تو وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو ہمارے بریگیڈ کے دورے پر تشریف لائے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم نے اپنا کام پورا کر دیا ہے اور اب حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے لیکن افسوس کہ وقت نے انہیں مہلت نہ دی۔ حکومتوں کی انہیں کوتاہیوں اور ناکامیوں کے سبب ہم آج اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں یہ کہنا درست ہو گا کہ ایک لاوہ ہے جو پک رہا ہے جسے روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ قومی تحفظ و سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم معاملات کی نزاکت کو سمجھیں اور درپیش مسائل کو سلجھانے کی تدبیریں کریں ۔
اسلام آباد میں گذشتہ ایک ماہ سے دھرنا جاری ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی حل نہیں نکلا۔ احتجاج کرنے والوں نے بغاوت کا اعلان کیا، پارلیمنٹ کی بے حرمتی کی، خلاف آئین مطالبات دہراتے رہے کیونکہ وہ طاقت کے بَل بوتے پر حکومت کو گرا کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ احتجاج کرنیوالوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن کوئی حل نکلتا نظر نہیں آ رہا۔ دھرنا دینے والے بار بار یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وزیراعظم مستعفی ہو جائیں، حکومت گرجائے اور ان کیلئے اقتدار سنبھالنے کی راہیں ہموار ہو جائیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ لوگوں سے مل کر اور مستند خبروں کے تجزیے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہم کتنے خطرناک موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں چند دن پہلے ایک ضیافت میں اپنے ایک پرانے ساتھی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا ’’جنرل صاحب کیا حال ہے‘ سب خیریت ہے۔‘‘ ان کا جواب تھا ’’جی ہاں سب خیریت ہے‘ گھر جل رہا ہے‘ دل جل رہا ہے‘ سب خیریت ہے۔‘‘ میں کچھ بول نہ سکا اور آگے بڑھ گیا‘ وہاں بھی کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ وہاں بھی ’’دھرنا‘‘ ہی موضوع بحث تھا۔ ایک ساتھی نے کہا ’’دو پنجابی شر پسندوں نے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔ انکا احتجاج جاری ہے لیکن ان کی سرکوبی کیلئے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان کیخلاف فوج کو کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ آج ہمارا ملک ایک بہت ہی خطرناک بین الاقوامی سازش کی زد میں ہے۔ ان سازشی طاقتوں کا مقصد ایک بار پھر فوج کو یہاں استعمال کر کے ‘ اپنے مذموم مقاصد کا حصول ہے۔ میں گھر آیا اور سوچتا رہا کہ ان مشکل حالات کا حل کیا ہے؟ اسی دوران میں نے اخبار میں پشاور یونین آ ف جرنلسٹس کا یہ اعلامیہ پڑھا:
’’ہم قبائلیوں نے ہمیشہ پاکستان کے حکمرانوں کا ساتھ دیا اور پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ ہر محاذ پر کھڑے رہے ہیں لیکن بدقسمتی اور افسوس کا مقام ہے کہ ملک کی موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ہمارے 22 لاکھ سے زائد قبائل دربدر کی ٹھوکریں کھا نے پر مجبور ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں مسلسل سات سالوں سے جاری آپریشن کی وجہ سے10 لاکھ محسود قبائل ملک کے کونے کونے میں پریشانی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اب شمالی وزیرستان کے بے گناہ 12 لاکھ سے زائد قبائل کوسخت گرمی میں اپنے گھروں سے نکالا گیا اور آج وہ مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت ہمارے صبر اور خاموشی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور عملی طور پر ہمارے مسائل حل کریںکیونکہ ہم اپنے گھروں کو واپس جانا چاہتے ہیں ورنہ وزیر‘ محسود اور داوڑ قبائل مشترکہ تحریک چلائیں گے اور اپنے جائز حقوق کیلئے ہزاروں متاثرین اور فاٹا کے قبائلیوں کو ساتھ لے کرمارچ کرینگے اور اسلام آباد میں تاریخی دھرنا دینگے اور اس وقت تک پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے رہیں گے جب تک کہ ہمارے جائز مطالبات حل نہیں ہو جاتے۔‘‘
ابھی میں اس خبر پر غورہی کر رہا تھا کہ ایک معتبر تجزیہ نگار اور صحافی کا کالم نظروں سے گذرا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’۔۔۔
جب ایک طرح کی سول نافرمانی کرنیوالے پختون طالبان اوربلوچ عسکریت پسندوں پر تو بمباریاں کی جاتی ہوں اور دوسری طرف سول نافرمانیاں کرنے والوں کا تماشا دکھایا جا رہا ہو۔ جب سول نافرمانی کرنیوالے محبوب قرار پائیں اور ہم جیسے قانون اور آئین پر یقین رکھنے والے قانون شکنوں کے رحم و کرم پر ہوں تو یہ ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے۔ اللہ کا واسطہ ہم جیسوں کو ہمارے ماضی کی طرف لوٹنے پر مجبور نہ کرو۔ اگر ہم پہاڑوں کی طرف جا کر انقلابی بن گئے تو پھر یہ ناچ گانوں کے ذریعے انقلاب لانے والے دیکھ لیں گے کہ انقلاب کیا ہوتا ہے۔ہم انکے لیڈروں اور سربراہوں سے حساب لیں گے اور قبائلی بن کر انتقام لیں گے۔ اگر ان سے انتقام نہ لے سکے تو انکی آئندہ نسلوں سے انتقام لیں گے۔‘‘
انتقام‘ انقلاب‘ انتشار اور سازشیں‘کیا یہی ہمارا مقدر ہے؟ جبکہ ہمارے قبائلیوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ’’ہمیں اپنے گھروں کو واپس جانے دو‘‘ ورنہ قبائلی جو ایک بڑی تعداد میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاقوں میں پناہ گزین ہیں‘ انہیں دھرنوں کیلئے اکٹھا کر نے سے جو صورتحال پیدا ہو گی تو حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کیلئے کونسا راستہ ہو گا؟ حالات کا تقاضا ہے کہ جمہوری سوچ اور سیاسی شعور کو بیدار کیا جائے کیونکہ ایک خود مختار پارلیمنٹ موجود ہے۔ اس مقدس ادارے کو لندن، واشنگٹن، اوٹاوا اور تہران کی مشترکہ کوششوں سے مرتب کی جانے والی بین الاقوامی سازش کا ادراک ہے، جس کے ایجنٹوں نے گذشتہ پانچ ہفتوں سے ہماری پارلیمنٹ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ دوسری وہ سازش ہے جس کا اعلان واشنگٹن نے 2010ء میںکھلے عام کیا تھا اور جس مقصد کیلئے 1.4 بلین امریکی ڈالر کی خطیر رقم مختص کی گئی تھی۔ اس کا مقصد تھا پاکستانی قوم کی نظریاتی سوچ کو تبدیل کرنا،(Perception Management of Pakistani Nation) یعنی مسلمانوں کے روشن خیال‘ سیکولر اور مہذب طبقات کے درمیان تفریق پیدا کرنا تھا۔ صوبہ خیبر پی کے کی حکومت کا حالیہ فیصلہ‘ جس میں سکولوں کے نصاب سے دینی تعلیم کو نکال کر سیکولر بنانے کی کوشش کی گئی ہے‘ ایک مثال ہے۔ اس پر حزب اختلاف کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے ؛ وہ کردار جو جمہوری قدروں کو استحکام دے سکے اور ایسا دوام حاصل ہو کہ دوبارہ ملک کے کسی حصے میں بھی اگر شورش بپا ہوتی ہے تو اسے فوج سے مدد لینے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ سیاسی و جمہوری عمل کے ذریعے معاملات کوسلجھایا جا سکے ورنہ اگر یہاں بھی غلط فیصلے ہوتے رہے اور فوج کو استعمال کیا گیا تو خدانخواستہ ’’اِدھر ہم‘ اُدھر تم‘‘ کی آواز پھر سے بلند ہوگی اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38