2018ء کے انتخابات سے پہلے سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہو گا۔ سیاست میں شکست و ریخت کا عمل جاری ہے۔ ایم کیو ایم الطاف مائنس فارمولے کے بعد دو سلائسوں میں بٹ چکی ہے۔ بٹر اور جام سے دونوں سلائسوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں یکجا دیکھنے کی خواہاں پارٹی کا مکھن اور جام جوڑنے میں ناکام رہا۔ قاتل اور مقتول کے خاندانوں میں ظاہری پنچائتی صلح ہو جائے تب بھی دلوں کی کدورتیں صاف نہیں ہوتیں۔ 24 گھنٹے پہلے فاروق ستار کے کاندھے پر ہاتھ رکھنے والے مصطفی کمال نے انہیں جھوٹا منافق اور مہاجروں کا بڑا دشمن ہونے کی چادر اوڑھا دی گویا یکجا ہونے کا اعلان کرنے والی پریس کانفرنس ڈرامہ اور منافقت تھی۔ 35 سال جس شخص کی اطاعت اور فرمانبرداری کی اس کی یاد دلوں سے اتنی جلدی نہیں نکلتی۔ اگر فاروق ستار اور مصطفی کمال نے واقعی اسلام قبول کر لیا ہے تو پھر دونوں کے دل اور دماغ کا غسل واجب ہے۔ یہ کیسی صلح تھی کہ کلائی کی چوڑی کی طرح تڑک کر کے ٹوٹ گئی۔ دباؤ کے تحت کیا گیا نکاح طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ الطاف حسین میڈیا میں مائنس ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے دلوں میں انہی کی تصویر لٹکی دکھائی دے رہی ہے۔ الطاف حسین کی سیاہ کاریوں سے تائب ہونے والا گروہ پاک سرزمین پارٹی کی شکل میں سامنے آیا لیکن دوسرے گروہ نے شاید توبہ النصوح نہیں کی۔ ایم کیو ایم کے پرچم کا رنگ وہی ہے جو بھارتی جھنڈے کا ہے۔ ایم کیو ایم لندن پاکستان اور اس کے اداروں سے برسرپیکار ہے۔ اسے بھارتی فنڈز کا نمک بھی تو حلال کرنا ہے۔ 22 اگست کو فاروق ستار اینڈ کمپنی نے اسٹیبلشمنٹ کو ہاتھ جوڑ کر یقین دلایا تھا کہ وہ الطاف حسین کو طلاق دے چکے ہیں لیکن حالیہ ڈرامے کے بعد یوں لگتا ہے 22 اگست کی طلاق‘ طلاقِ ثلاثہ نہیں تھی اگر تھی تو حلالہ کے بعد پھر رجوع کر لیا ہے۔ بھارت کا ایجنڈا پاکستان کو بدامنی کا گہوارہ بنانا ہے۔ اس کے لئے ایم کیو ایم ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ کراچی میں چار بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ 35 سال پرانی ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی‘ پاک سرزمین پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ وہ دن سب کو یاد ہیں جب کراچی میں بوری بند لاشیں ملتی تھیں۔ تیرہ تیرہ لاشیں روزانہ گرتی تھیں۔ رینجرز نے کراچی کو آپریشن کے بعد رہنے کے قابل بنایا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود کو کراچی سے کیسے علیحدہ کر سکتے ہیں۔ اب بھی الطاف حسین کے مجرم پیروکار بہشتی دروازے سے گزرنا چاہتے ہیں۔ کسی این آر او کی تلاش میں ہیں لیکن احتساب کا سیلاب اب جرم اور کرپشن کی سیاست کو بہا کر بحیرۂ عرب میں ڈال دے گا۔ پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں فوری اتحاد ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ایک نام‘ ایک منشور اور ایک انتخابی نشان کے لئے متحدہ کے بانی سے طلاق ثلاثہ ضروری ہے۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بنک 35 سال میں اربن سندھ سے آگے نہیں جا سکا۔ ابتدا میں اس کا نام مہاجر قومی موومنٹ تھا لیکن 1997ء میں بدل کر متحدہ قومی موومنٹ کر دیا گیا۔ غیر مہاجر ووٹ اس کے قریب بھی نہیں آئے لہٰذا یہ جماعت بنیادی طور پر لسانی بنیاد یعنی اردو بولنے والوں کے لئے بنائی گئی تھی جو زیادہ تر کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہیں۔
پی ایس پی کے قائد مصطفی کمال کی ذاتی دلچسپی بھی مذکورہ شہروں تک محدود ہے۔ فاروق ستار نے اپنے قائد کی طرح سیاست سے علیحدہ ہونے اور پھر ایک گھنٹے بعد ہی دوبارہ سیاست میں موجود رہنے کا اعلان کیا۔ یہی ڈرامے کے بڑے اداکار الطاف حسین رہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کے ٹکڑے کبھی نہیں جوڑے گئے۔ مسلم لیگ کے کئی دھڑے بن گئے۔ ان کے ادغام کی کوششیں کبھی بارآور نہیں ہوئیں اسی طرح دینی جماعتوں کے کئی دھڑے ہیں۔ ایک ہی عقیدے اور مسلک والے کئی گروہ بن چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بھی حصے بخرے سامنے آ چکے ہیں۔ فاروق ستار پی ایس پی سے کٹی کرنے کا رسک لے چکے ہیں۔ اب ان کی خیر نہیں یا پھر احتساب کا سامنا کریں گے۔ 35 سال کا سارا کچا چٹھا کھلنے جا رہا ہے۔ سیاست میں مشرف کا نیا باب کھلنے جا رہا ہے۔ مشرف کی زیرقیادت 23 جماعتی اتحاد کا اعلان ہوا ہے۔ پرویز مشرف کے نزدیک الیکشن سے مسائل حل نہ ہوں تو کچھ اور کیا جائے۔ ایم کیو ایم بدترین نام ہے مہاجروں کو خود کو پاکستانی کہلوانا چاہئے۔ کیا ہم آمریت کو دوبارہ زندہ کرنے جا رہے ہیں۔ 1984ء میں ضیا دور میں ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے مقابلے پر نمودار ہوئی تھی۔ پولیٹیکل انجینئرنگ کی اصطلاح عام ہو رہی ہے۔ فاروق ستار ایک ہی جملہ بار بار کیوں دہراتے ہیں۔ ہمیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مہاجروں کا ایک ہی ووٹ بنک چاہتی ہے جو الطاف کی مجرمانہ غلیظ سیاست سے پاک ہو۔ فاروق ستار اور مصطفی کمال کے اتحاد کے غبارے کی طرح 23 جماعتی مشرف کے اتحاد کا غبارہ دوسرے ہی دن پھٹ گیا۔ کیا عجب سیاست ہے۔
کیا پاکستان انجینئرڈ سیاست کے لئے بنایا گیا تھا۔ سیاسی انجینئروں نے ری پبلکن پارٹی‘ آئی جے آئی‘ ایم کیو ایم اور پی ایس پی بنائی۔ مصنوعی اعضاء جسمانی سب کو دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح مصنوعی سیاست اور جوڑ توڑ دیرپا نہیں ہوتے۔ کون صحیح کون غلط اور کون جھوٹا کا فیصلہ لوگ کریں گے۔ اس وقت الیکشن کے بارے میں تین قیاس آرائیاں چل رہی ہیں۔ بروقت الیکشن اگست 2018ء میں‘ عمران خان کے مطالبے پر فوری الیکشن یا پھر الیکشن نہیں۔ اس وقت نواز شریف‘ زرداری اور عمران میں مقابلہ جاری ہے۔ عمران کے نزدیک نوازشریف اور زرداری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جبکہ ن لیگ کی نظر میں عمران اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہیں۔ الیکشن تو دور کی بات اس سے پہلے ’’تبدیلی‘‘ صاف دکھائی دے رہی ہے۔ حیران کن باتیں سامنے آئیں گی۔ حدیبیہ بھی سامنے آ گیا ہے۔ باقر نجفی رپورٹ بھی بے نقاب ہو گئی تو سموگ صاف ہو جائے گا۔ ادھر حکومت غیر اعلانیہ قرض خوری میں مبتلا ہے۔ نوازشریف کی معزولی کے بعد 60 دنوں میں عباسی حکومت نے ایک کھرب روپے قرض لے کر کام چلایا ہے۔ حکومت 21.8 کھرب کی مقروض ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے لمبی مدت کی پالیسیاں نہیں بن سکتیں۔ اس وقت گزارا ہونے کی بات ہے۔ پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ ن لیگ کی قیادت مقدمات میں پھنسی ہے۔ بیوروکریسی پر حکومتی گرفت پہلے کی طرح دکھائی نہیں دیتی۔