حال سے زیادہ مستقبل اور وہ بھی قریب نہیں بعید کی باتیں سنا کر حکمران عوام کا دل بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عوامی اجتماعات میں دو باتوں کا اعادہ کر رہے ہیں; 2018ءتک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور 2025ءتک شرح ترقی 8 فیصد اور مہنگائی ختم ہو جائیگی۔ دنیا کی 20 بہترین معیشت والے ممالک میں شمار ہونیوالا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ جب سے پانامہ لیکس کا شور اٹھا ہے تشہیر کیلئے سرکاری خزانے کے منہ کھول دیئے گئے ہیں۔ حکومت بزعم خود 2018ءاور پھر 2023ءکے انتخابات بھی جیت چکی ہے اسی لئے 2025ءتک کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ مطلب واضح ہے کہ ہم رہیں گے، اب نہیں تو 2025ء تک مہنگائی ختم ہو جائیگی۔ مہنگائی ختم ہو گی تو غریبوں کے چہروں پر رونق آ جائےگی۔
سی پیک کا رات دن چرچا ہے کہ سی پیک سے خطے میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی ۔ ترقی کو سمجھنے کےلئے اعداد و شمار کو سامنے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کسی بچے کو یوں ہی لائق کہنے سے وہ لائق نہیں ہو جاتا اس کی پراگرس رپورٹ کو سامنے رکھ کر کہا جائے کہ اس نے کلاس میں پہلی پوزیشن لی ہے تو لوگ یقین کرتے ہیں۔ سی پیک کی لاگت 50 ارب ڈالر، 35 ارب ڈالر سے انرجی پراجیکٹس جبکہ 15 ارب ڈالر سے انفراسٹرکچر تیار ہوگا جس میں گوادر کی ترقی کیلئے انڈسٹریل زونز کا قیام اور ماس ٹرانزٹ سکیمیں شامل ہیں۔ سی پیک کی حتمی شکل 2030ءمیں سامنے آئیگی۔ انرجی منصوبوں کی تکمیل کیلئے 2020ءتک کا ہدف مقرر کیا گیا ہے لیکن سرخ فیتے کی رکاوٹیں اسے 2023ءتک لے جائیں گی۔ 2018ءتک نیشنل گرڈ میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی شامل ہو جائےگی۔ 2015ءسے 2023ءکی مدت میں 35 ارب ڈالر کی رقم خرچ ہوگی۔ 2025ءتک سڑکیں بندر گاہ اور ایئر پورٹ جیسے انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل ہو چکے ہونگے۔ ان منصوبوں پر 10 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔
2025ءسے 2030ءتک بقایا پانچ ارب ڈالر سے سارے منصوبے کو حتمی شکل دی جائیگی۔ ان منصوبوں سے پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں پر اضافی بوجھ پڑنا شروع ہوگا۔ سارے انرجی منصوبے آئی پی پیز کی طرز پر ہونگے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو 17 فیصد ریٹ آف ریٹرن آفر کیا گیا ہے۔ سی پیک کیلئے رقم چائینہ ڈویلپمنٹ بنک اور چائینہ ایگزم بنک سے لی جائیگی۔ منصوبے کا ایک چوتھائی پاکستانی مشینری اور مزدوروں پر مشتمل ہوگا، بقایا تین چوتھائی مشینری اور افرادی قوت چینیوں پر مشتمل ہوگی۔ حساب سے ہر سال واپسی کرنا ہوگی یہ عمل 20 سال تک چلے گا۔ اگر ہماری برآمدات لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں پسپائی کا شکار ہیں تو پھر 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی بدولت برآمدات میں ہر سال 14 فیصد اضافہ ممکن ہے تاہم اس کیلئے پراڈکٹ مکس کو متنوع بنانا، فری ٹریڈ معاہدوں کی تجدید، نئی منڈیوں کی تلاش، بیرون سرمایہ کاروں کے اشتراک سے نئے منصوبے ، بینکوں سے بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات وغیرہ ضروری باتیں ہیں۔
پاور سیکٹر کی بہتری کےلئے لیسکو جیسی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نج کاری ضروری ہے ورنہ بجلی چوری ختم کرنے کا خواب کبھی پورا نہ ہوگا۔ سرکلر ڈیٹ کی بیماری جاتی ہے اور پھر آ جاتی ہے۔ 2013ءمیں 480 ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کا جائزہ لینے والی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کےمطابق آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے کے بعد انرجی سیکٹر کے ذمے ادائیگیاں 370 ارب روپے ہو گئی ہیں ۔ پاور ہولڈنگ کمپنی کو بھی 335 ارب روپے کی ادائیگی کرنا ہے۔ یوں سرکلر ڈیٹ کی رقم 705 ارب روپے بنتی ہے۔ بجلی کے شعبے کا المیہ بجلی کے بلوں کی کم ریکوری ، ٹرانسمشن اور ڈسٹرٹ بیوشن کے نقصانات میں اضافہ ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے سرکلر ڈیٹ کے خاتمے اور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نج کاری کا وعدہ کیا تھا جو پورا نہ ہو سکا ۔خواجہ آصف اور عابد شیر علی اس بارے میں کیا کہیں گے ؟ ملتان، لاہور اور فیصل آباد کی کمپنیاں منافع بخش تھیں لیکن خسارے میں چلنا شروع ہوئیں تو پاکستان سٹاک ایکس چینج کی لسٹ پر نہ آ سکیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کے نام پر 165 ارب کی وہ ادائیگیاں بھی کر دی گئیں جن سے بچنا ممکن تھا۔ ان ادائیگیوں کےلئے پری آڈٹ سے گریز کیا گیا۔ آئی پی پیز نے حکومت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دو سال کے اندر 15 سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کیلئے کوئلہ استعمال کریں گی جسے وہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
2013ءمیں حکومت کا عزم تھا کہ اس پراجیکٹ کو ہر قیمت پر کامیاب کیا جائیگا۔ 1990ء کی دہائی میں نواز شریف حکومت کا عزم صمیم تھا کہ ہر سرکاری ادارے کو پرائیویٹائز کر دیا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بنکنگ اور فنانس کے شعبے میں نج کاری کے باوجود کوئی انقلاب سامنے نہ آ سکا۔ ہماری اپروچ بدل چکی ہے۔ ہم جو کام خود نہیں کر سکتے اسے چینیوں کے سپرد کر دیتے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کو اب چینی کمپنیاں ہی آپریٹ کر رہی ہیں۔ سڑکوں ، گلیوں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے اور سڑکوں کی تعمیر بھی چینی کمپنیوں کے سپرد کی جا رہی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایٹمی قوت ہو کر 20 کروڑ جیالوں کی قوم کوڑا کرکٹ اٹھانے اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آئندہ برسوں میں دنیا کی بہترین معیشت والے ممالک میں شامل ہو جائے۔ یہ درست ہے کہ بہت سے منصوبوں کےلئے ہم بیرونی سرمایہ کاری کے محتاج ہیں لیکن ہمیں خود بھی تو اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہے۔ دبئی ، لندن ، فرانس میں رکھے گئے پیسے کس کے کام آ رہے ہیں؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024