آج ملکی سیاسی گہما گہمی ، لوٹے بازیوں، نئی دھڑے بندیوں اور سیاسی قائدین کی عدالتوں میں پیشیوں کے باوجود سوچا کہ کیوں نہ ملکی معیشت پر ہی قلم سیدھا کیا جائے کیوں کہ راقم نے یہ پیش گوئی چند دن پہلے ہی کر دی تھی کے جلدہی ڈالر کو ’’پر‘‘لگ جائیں گے اور ممکن ہے کہ مارچ 2018ء تک ڈالر 118سے119روپے تک چلا جائے۔ لیکن ہماری حکومت کی ’’موثر‘‘ حکمت عملی سے 4دن میں ڈالر 106سے بڑھ کر 112روپے(تادم تحریر) تک پہنچ چکا ہے۔ملکی معیشت کی تباہی اور آنے والے دنوں میں شدید مہنگائی کے آثار پر دل کر رہا ہے کہ بقول مرزا غالب …؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں
ملک کو اس وقت جو مسئلہ درپیش ہے وہ ڈالر کی کمی ہے۔ ہمارا کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ چکا ہے جس میں گزشتہ دو تین سالوں سے مسلسل اضافہ ہوا ہے اسکے بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ 2014 کے دوران جب تیل کی قیمتیں گریں تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں ڈالر مستحکم ہوگیا جس سے امریکی معیشت مستحکم ہوئی۔ دوسری طرف ہم نے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیے جسکی وجہ سے برآمدات گر گئیں۔ پاکستان کی برآمدات 2013 میں 25 ارب ڈالر تھیں جو اب 20 ارب ڈالر پر آچکی ہیں۔ملکی درآمدات 41 سے 53 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں یعنی پاکستان کا تجارتی خسارہ بڑھ چکا ہے، اس سے مہنگائی کو روکا جا سکتا تھا تاہم حکومت مہنگائی روکنے میں ناکام ہوگئی، اب جبکہ تیل اور اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اگلے 6 ماہ میں ڈالر ختم ہو جائینگے۔ گویا کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور ڈالر کی کمی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ ہم پاکستانی کرنسی تو پرنٹ کر سکتے ہیں لیکن ڈالر نہیں، دوسری وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔
2013ء میں موجودہ حکومت کے آتے ہی جب ماہرین معیشت نے ملکی معیشت کے حوالے سے آنیوالے دنوں میں درپیش خطرات کا اندیشہ ظاہر کرنا شروع کیا تو بہت سے ناقدین ، حکومتی رفقاء اور چند یار لوگوںنے کہا کہ حکومت کو وقت دیا جائے اور 5سال پورے کرنے دئیے جائیں۔ وقت گزرتا گیا… جو نہی نیا مالی سال آتا تو نئے قرضوں کی نوید سنا کر یہ کہہ دیا جاتا کہ معیشت سنبھل رہی ہے، فلاں پراجیکٹ کیلئے قرضے لئے جارہے ہیں جو جلد ہی واپس کر دئیے جائینگے… بہرحال ان پالیسیوں کے ’’تسلسل‘‘ کے ثمرات آج یہ ملے کہ ہم نے آج کئی ایک ’’ریکارڈ‘‘ توڑ ڈالے ہیں۔
اور اب جبکہ اگلے چند ماہ میں مزید ادائیگیاں کر کے ڈالر ختم ہو گئے یا ختم ہونے کی حد تک چلے گئے تو کیا ہم مزید قرضے لیں گے ،کیوں کہ جولائی اور اگست کے صرف دو مہینوں میں حکومت نے ایک ٹریلین روپے کے قرضے لئے ہیں۔ حکومتی اخراجات اور آمدن میں فرق جسے بجٹ خسارہ کہا جاتاہے وہ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گیا ہے ،حکومت نے یہ خسارہ کم کرنے کے بارے میں جو اعدادوشمار بتائے تھے وہ غلط ثابت ہو چکے ہیں۔کہا یہ جاتاتھا کہ بجٹ خسارہ نیچے آرہا ہے ،اگر واقعی نیچے آرہا ہوتا تو حکومت کو مزید قرضے لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔
اب ہوگا یہ کہ تجارتی اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ہمیں بے تحاشا قرضے لینے پڑینگے۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے سال صرف سود کی مد میں 10 ارب ڈالر ادا کر نا ہونگے جس کیلئے مزید قرضے لینے پڑیں گے۔مستقبل میں جو نظر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ ہم قرضوں کے جال میں پھنس جائینگے جس سے نکلنا بہت مشکل ہو گا۔ اگلے 3 سے 4 ماہ میں ہم مجبور ہو جائینگے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں۔ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ نہیں بلکہ ایک سیاسی ادارہ بھی ہے ،اس کے مالکان اپنا سیاسی ایجنڈا آئی ایم ایف کے ذریعے دوسرے ملکوں پر نافذ کرتے ہیں ،اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس جائینگے تو نیشنل سکیورٹی کے جو معاملات معیشت کیساتھ جڑے ہوئے ہیں اس پر ہمیں بہت سارے کمپرومائز بیرونی طاقتوں کیساتھ کرنے پڑیں گے۔ گزشتہ دو ماہ میں حکومت نے قرضہ جات کی تعریف دو دفعہ بدلی ہے ،کوشش یہ ہورہی ہے کہ قرضہ جات کو کسی طرح چھپایا جا سکے …!
قارئین کو یاد ہوگا موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی 28جون 2013کو تقریباً800ارب کے گردشی قرضوں کی مد میںخزانے سے 480ارب روپے آئی پی پیزکودینے کا اعلان کیا تھاجس پر بڑی تنقید کی گئی کہ وہ من پسند جگہوں پر خرچ کئے گئے تھے۔ بہرحال اب آئی پی پیز کے وہی گردشی دوبارہ 800ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں۔ نیلم جہلم اور دیامیر بھاشا پر 9 سال میں زیرو پراگریس، نندی پور قائداعظم سولر پارک اور تھر کول پاور پراجیکٹ سمیت توانائی کے تمام منصوبے ناکام، صرف تیل سے بجلی بنانیوالی غیر ملکی کمپنیوں کا سہارا۔ان آئی پی پیز ( تیل سے بجلی بنانیوالی کمپنیوں ) کا اتنا قرضہ چڑھ چکا ہے کہ کسی بھی وقت پاکستان کو بجلی کی سپلائی معطل کر سکتی ہیں۔پاکستان میں زراعت کیلئے پانی کی شدید قلت، 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم۔ پاکستان دودھ سمیت تقربیاً تمام اجناس درآمد کرنے پر مجبور، 9 سال میں کوئی ایک ڈیم نہیں بننے دیا گیا اور انڈیا کے پاکستانی دریاؤں پر ڈیموں پر مکمل خاموشی،انڈیا جب چاہے پاکستان کا سارا پانی روک سکتا ہے۔ریلوے تباہ، موٹر ویز گروی، دوران جنگ ریلوے اس قابل نہیں رہی کہ بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حمل کیلئے استعمال ہو سکے جبکہ موٹرویز جن عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھے جانے کی خبریں ہیں وہ عدم ادائیگی پر اس کو جنگی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کرنے دینگے۔
آج پاکستان میں مہنگائی کی شرح 5فیصد تک جا پہنچی ہے جو قرب و جوار میں موجود ملکوںزیادہ ہے۔ بہرکیف یہ وہ چند سادہ سے حقائق ہیں جن سے نظریں چرانا جنگی جرائم سے بھی بڑا جرم ثابت ہوسکتا ہے۔ آج وزارت خزانہ میں کوئی فرد نہیں جو اس وقت فیصلے کر سکے ،حکومت کو مستقل وزیرخزانہ تعینات کرناچاہیے جوفیصلے کرے ،جس کے پاس اختیارات اور ایک پلان ہو۔یہ فیصلے ہر روز اور ہر لمحے لینا پڑتے ہیں۔تمام پالیسی جمود کا شکار ہے۔ میرے خیال میں اس میں سو فیصد حکومت کا ہی قصور ہے۔ جو کسی معاملے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ ڈنڈے ، دھرنے اور احتجاج کی زبان حکومت کو پسند آگئی ہے۔ اگر ہم فاٹا ہی کی مثال لے لیں تو فاٹا کے حوالے سے حکومت اور جے یو آئی پورے ملک کے ساتھ ’’سیاست ‘‘ کر رہی ہیں اور یہی وہ وجہ ہے کہ حکومت احساس نہیں کر رہی کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اُن سے دور کیوں ہو گئیں۔ یعنی 5سالوں میں منافقت کے ساتھ حکومت کی گئی۔ اس کا عملی نتیجہ عوام سے دوری کی صورت میں تو نکلا ہی مگر ساتھ ہی معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلا ہے جس کے آثار اب نظر آنے لگے ہیں۔