اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے لیکن ایسے نظر آتا ہے کہ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا ہے کیونکہ بہت سے بھارتی لیڈروں نے پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں۔ بھارت کی بی جے پی کے مرکزی راہنما مشیر سوامی ایک کٹر ہندو پرست لیڈر ہیں۔ وہ بھارتی وزیر اعظم سے بھی کافی قریب ہیں اور حکومت میں کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ انکے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنی مرضی کے فیصلے کرا سکتے ہیں ۔مسٹر سوامی پاکستان اور مسلمان دشمنی کےلئے بھی کافی مشہور ہیں۔ابھی حال ہی میں انہوں نے بیان دیا ہے کہ :” ہم پاکستان کے چار ٹکڑے کر دیں گے“۔ اس بیان پر بھی تسلی نہ ہوئی تو مزید گوہر افشانی کی کہ ؛” پہلے دو ٹکڑے کئے تھے۔اب چار کرینگے ”۔اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو بڑھک ماری :” ہم تیاری کررہے ہیں اور جب تیار ہوجائینگے تو پاکستان پر حملہ کر دینگے۔اپریل 2018تک ہماری تیاری مکمل ہو جائیگی“۔یہاں یہ سوچنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی فضا بھارتی وزیر اعظم پہلے ہی ہمارے خلاف اور اپنے حق میں کر چکے ہیں۔وہ ہر اہم موقع اور ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے خلاف بیانات تو دیتے رہتے ہیں مگر انکا سب سے بڑا کارنامہ امریکہ کو پاکستان کیخلاف ابھارنا ہے۔ بھارت نے الیکشن کے دوران ٹرمپ پر بھاری انو سٹمنٹ کی اب وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے ۔جون میں بھارتی وزیر اعظم نے امریکہ کا دورہ کیا تو اسے ایک شاندار پروٹوکول ملا اور ڈونلڈ ٹرمپ اس حد تک ”رام“ ہوا کہ اس نے بھارت کو جدید ٹیکنالوجی والے تباہ کن ہتھیار بھی آفر کر دئیے جو تا حال امریکہ کے قریب ترین دوست ممالک کو بھی آفر نہیں کئے گئے۔ٹرمپ نے بھارت کو ”فطری اتحادی “ قرار دیا اور بھارت کے ساتھ ” گلوبل سٹر یٹیجک پارٹنر شپ“ مضبوط کرنے کا اعلان کیا۔ مودی کے زیر اثر ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کےلئے نئی پالیسی کا اعلان کیا جس میں بھارت کے کردار کی بہت تعریف کی اور اسے افغانستان میں اہم کردار آفر کیا۔ ساتھ ہی پاکستان پر دہشتگردوں سے تعلقات رکھنے اور انہیں ”محفوظ پناہ گاہیں“ مہیا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے دھمکی دی کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کی صورت میں پاکستان پر سخت پابندیاں لگائی جائیں گی اور پاکستان کیخلاف سخت کاروائی کی جائیگی۔ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ بھی بتایا کہ جنگ افغانستان سے پاکستان میں شفٹ کی جائیگی۔ڈونلڈ ٹرمپ کی اس نئی پالیسی سے بھارت اور افغانستان بہت خوش ہوئے کیونکہ یہ دونوں ممالک عرصہ دراز سے پاکستان کو دہشتگرد ملک قرار دلوا کر پاکستان کےخلاف سخت کاروائیوں کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
بد قسمتی سے امریکہ اسوقت دنیا کا طاقتور ترین ملک اور دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا بھی اقوام عالم کی مجبوری ہے۔ کوئی بھی ملک اسے ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔امریکہ اپنے دشمنوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتا جتنا اپنے دوستوں کو پہنچاتا ہے۔ یہی مجبوری ہماری بھی ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں انوالومنٹ کے بعد سے تمام امریکی صدوراورٹاپ افسران پاکستان سے ”ڈومور“ ہی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ سب کا الزام یہی تھا کہ : ” ہم نے انٹی افغان دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے “۔ حالانکہ حقیقتاً ایسی کوئی بات نہیں۔ پاکستان نے بغیر کسی تمیز کے ہر قسم کے طالبان کےخلاف کاروائی کی اور انہیں نکال باہر کیا۔اسوقت وہ بھارتی ”را“ اور افغان "NDS" کے زیر سایہ افغانستان میں قیام پذیر ہیں۔وہاں محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ مولوی فضل اللہ جیسے پاکستان دشمن دہشتگرد بھی وہیں چھپے ہوئے ہیں۔ یہ تمام دہشتگرد ”را“ اور NDS کی پناہ میں ہیں اور انکے کہنے پر پاکستان کےخلاف دہشتگردی کی جاتی ہے ۔یہ سب بھارتی ایما پر ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ آج تک کسی امریکی صدر نے پاکستان کو اتنی دھمکیاں نہیں دیں جتنی بھارت کی دوستی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دی ہیں۔ پاکستان کو کوالیشن سپورٹ فنڈ میں جو ہر سال امداد ملتی ہے وہ نہ صرف کم کر دی گئی ہے بلکہ ملنی بھی بند ہو گئی ہے۔
امریکہ چونکہ وقت کی سپر پاور ہے اس لئے سارا یورپ اور دنیا کے بہت سے دیگر ممالک امریکہ سے تعلقات بہتر رکھتے ہیں۔ اسکی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اس لئے اگر خدانخواستہ ہمارے امریکہ سے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو بہت سے دیگر ممالک بھی ہم سے دور ہونے کو ترجیح دیں گے اور یہی بھارت کی خواہش بھی ہے اور کوشش بھی۔بھارت کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر امریکہ نے بھارتی ایما پر پاکستان کو دھمکیاں دیں اور نتیجتاً ہمارے تعلقات کافی حد تک امریکہ سے بگڑ چکے ہیں جنہیں درست کرنے کےلئے ہماری حکومت کوشاں ہے۔ہمارے وزیر خارجہ نے امریکہ کا دورہ کیا۔وہ وہاں متعلقہ افسران سے بھی ملے مگر اطلاعات یہ ہیں کہ وہاں انہوں نے تمام زور اپنی حکومت کی لابنگ پر لگایا بہ نسبت بھارت کی در اندازی اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے۔ ان حالات میں یقیناً ہم بین الاقوامی دنیا کی رائے اپنے حق میں نہیں کر سکتے۔ حکومت بھی اپنے ہی مصائب میں گرفتار ہے۔ حکومت کےلئے اس وقت اپنے لیڈر کے کیسز سب سے زیادہ اہم ہیں ۔
پاکستان کو بد نام کرنے، دہشتگرد ملک ثابت کرنے اور دنیا میں تنہا کرنے کیلئے بھارت پورا زور لگا رہا ہے۔ ایسا کرنے کیلئے انکے پاس وسائل بھی ہیں اور ذرائع بھی۔ایسے نظر آتا ہے کہ بین الاقوامی دنیا کی رائے بھی بھارت کے حق میں جا رہی ہے۔ اور تو اور ہمارا بہترین دوست چین بھی بھارتی مﺅقف کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ بھارت اسلحے کے بھی انبار لگا رہا ہے۔ امریکہ، انگلینڈ، فرانس، اسرائیل، جاپان اور روس تک سے اسلحہ خرید رہا ہے ۔اپنی ایمو نیشن فیکٹریاں بھی دن رات کام کر رہی ہیں ۔بھارت کئی بلین ڈالرز کا اسلحہ خرید چکا ہے اور کئی بلین ڈالرز کا اسلحہ پائپ لائن میں ہے اور نئے معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ بے مقصد نہیں ہو سکتا۔ چین کو تو بھارت کسی نہ کسی طریقے سے رام کر ہی لے گا لیکن پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے سے کبھی باز نہیں آئےگا۔یہ ہتھیاروں کی طاقت ہی ہے کہ سوامی صاحب نے پاکستان کو” چار ٹکڑے کرنے کی دھمکی دی“۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن روات نے” چین اور پاکستان دونوں کو بیک وقت سبق سکھانے کا اعلان کیا“۔ حال ہی میں بھارت کے ائیر فورس ڈے پر بھارتی ائیر چیف سی ایس دھنوا نے کہا کہ وہ” پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایسا کرینگے“ ۔
،،بھارتی وزیر خارجہ ششما سوراج نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ :” پاکستان کشمیر میں تشدد بھڑکانے کا ذمہ دار ہے۔ دہشت گردوں کی فیکٹری بند کرے“۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھی اپنے حالیہ دورہ دہلی کے دوران پاکستان کےخلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کئے رکھا۔امریکی جوائنٹ چپقس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے پاکستان کی ISIپر دہشتگردوں سے رابطہ کا الزام لگایا اور پاکستان کےخلاف کاروائی کرنے کی دھمکی دی۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کے نہ صرف مستقبل کا خدشہ ظاہر کیا بلکہ سی پیک کو بھی متنازعہ قرار دیا۔ اس پس منظر کے تناظرمیں ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور بھارت مل کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف کوئی منصوبہ رکھتے ہیں۔ ایک خفیہ خبریہ بھی ہے کہ بھارت پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کریگا اور پھر اقوام متحدہ کے ذریعے اقوام متحدہ کی امن فوج بھیج کر پاکستان کے ایٹمی اثاثے اپنی نگرانی میں لئے جائینگے۔یہ منصوبہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے متحدہ طور پر تیار کیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارت اور اسرائیل کی نگرانی میں آزاد بلوچستان کی تحریک پہلے ہی جینوا میں چل رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024