شارٹ کٹ اکثر ناہموار ہوتے ہیں، اور جو لوگ بھٹکی ہوئی راہوں کے مسافر ہوں، ان کی روانی جتنی بھی تیز ہو وہ منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اقوام کی زندگیوں کی شادمانیوں اور دکھوں کی بڑی وجہ ان کی قیادت ہوتی ہے۔ گویا لیڈرشپ کسی چھوٹی سی یا معمولی سی ذمہ داری کا نام نہیں۔ حقیقت میں قیادت اپنا من مارنے کا نام ہے اپنے ذاتی حرص و ہوس کو بالائے طاق رکھنے کے فن کا نام ہے۔ قوم چھوٹی ہو یا بڑی، ملک یا ریاست ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ ہر صورت میں قیادت کو صراط مستقیم پر چل کرہی قوم کی رہنمائی کرنی ہوتی ہے۔ بیوی کی خوبصورتی و ناز و ادا، اولاد کی اموشنل بلیک میلنگ، عزیزوں کا اقربا پروری کا سبق اور نفس کے بیشتر بگاڑ اگر پس پشت ڈال کر ملک و ملت کا بیڑا نہیں اٹھایا جاتا تو اسے سیاست کے بجائے خود نمائی کہہ لیں یا کاروبار، سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ مانا کہ، یہ سب آئیڈیلزم ہے لیکن یہ بھی تو ماننا پڑے گا کہ یہ سب انسانوں ہی کی بستی کے معاملات ہیں اور انسانیت ہی تو ہے۔ لیڈر وہ سوشل انجینئر ہوتا ہے جو بناؤ کے لئے بگاڑ کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ دریافتوں کی شاہراہ کا مسافر ہوتا ہے!
ہر ملک کی قیادت کو مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور دورِ حاضر کی ایک اہم اصطلاح اسٹبلشمنٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ واسطہ بالواسطہ والا ہو یا بلاواسطہ والا، یہ لازمی ہے۔ اپنی ذاتی پارٹی، ذاتی خاندان، ملکی اپوزیشن اور بین الاقوامی اپوزیشن قیادت کا مقدر ہوتا ہے، اور اگر وہ اس سے بھاگے تو اسے سیاست سے بھاگ جانا چاہیے۔ سنگدل، تنگ دل اور متکبر کبھی لیڈر نہیں ہو سکتا۔ ملکی و بین الاقوامی لیڈر شپ تو دور کی بات ایسا شخص کسی ادارے، کسی سکول و کالج و یونیورسٹی، کسی ضلع، ڈویژن یا صوبے کا لیڈر ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔ سیاسی چسکا یا سماجی ذائقہ رکھنے والوں کو واضح کر دوں کہ، امریکہ و روس ہو یا ہمارے بعض عرب دوست فہم و فراست کے مادے کے بغیر قیادت اپنے آپ کو نہیں ملک و ملت کو ڈبو دیتی ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات کئی ٹائی ٹینک ڈوبنے میں وقت لیتے ہیں۔
چلئے! اپنی قیادت کی کشش کو زیربحث لاتے ہیں، اِدھر اُدھر کی باتوں اور مثالوں سے بھلا ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ جی! میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خاں، مولانا فضل الرحمن، ڈاکٹر فاروق ستار، سراج الحق اور اسفند یار ولی وغیرہ بالترتیب دورِ حاضر کی بڑی قیادت ہے۔ میاں نواز شریف تجربہ کے اعتبار سے سرفہرست ہیں اور عمران خان ان دِنوں ہر دلعزیزی میں تقریباً ٹاپ پر ہیں۔ آصف علی زرداری اپنی فہم و فراست اور مصالحت پسندی کے اعتبار سے کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ مولانا فضل الرحمن سیاست کے وہ کھلاڑی ہیں جنہیں ہر پِچ پر کھیلنا اور سکور کرنا آتا ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو مہاجر ازم ورثے میں مِلا ہے اور جانے کب تک وہ مہاجرانہ چیک کیش کی غرض سے جیب ہی میں رکھیں۔ سراج الحق کی جماعت اسلامی واقعی وہ سیاسی جماعت ہے جِسے اپنی جگہ آج بھی انسٹی ٹیوشن کا درجہ حاصل ہے تاہم اس کے فارغ التحصیل غیروں میں جا کر جمال اور کمال بن جاتے ہیں تاہم ہوم گراؤنڈ اور ہوم کراؤڈ پر زیرو ہیں۔ اسفند یار ولی اپنی جگہ ایک نظریئے کا نام ہیں جو برائے نام ہی رہ گیا۔
ایک ایک جملے میں، میں نے جو گزارش کی ہے اس کا مطلب تو بنتا ہے کہ اس قدر باکمال اور لاجواب سروس ہو تو ملک کسی امریکہ شمریکہ یا چین شین کا محتاج ہی نہیں رہنا چاہئے لیکن ہم ان طُرم خانوں اور تیس مار خانوں کے باوجود کبھی مارشل لاء لگوا لیتے ہیں، اورگاہے عدلیہ کے آگے چڑھ جاتے ہیں۔ چھوڑیئے لمبی بحث نہیں فقط اتنا بتا دیجئے یا فرما دیجئے کہ، تالی دونوں ہاتھوں سے نہیں بجتی؟ ۔درج بالا سب باتوں سے سبھی قارئین آشنا ہیں۔ یہی نہیں اول الذکر اور بعد الذکر لیڈر شپ کے موازنہ کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔
روز اول سے ہم سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے آمیزے کا نام حکومت ہے۔ جدید دور میں کبھی کبھی اور کہیں کہیں میڈیا کو چوتھا ستون بھی قرار دے دیا گیا۔ بہرحال ہمارے ہاں تو کراچی کی حالیہ سیاست میں قیادت کے بچگانہ پن نے حیران اور پریشان کر کے رکھ دیا۔ 35 سالہ تجربے والا بھی کم سن دکھائی دیا اور نومولود بھی کچھ نہ سیکھ پانے والا دکھائی دیا۔ میں دونوںسے گزارش کرتا ہوں کہ اوبامہ، ٹرمپ اور ڈاکٹر مہاتیر محمد کی تواریخ کا مطالعہ کریں کہ، پھر امریکہ و روس کی اسٹبلشمنٹ اور مہاتیر محمد بمقابلہ ججز کی تاریخ کا بھی مطالعہ کریں۔ کمال ہے، مصطفی کمال کہتے ہیں کہ میری ماں زندہ بھی ہوتی تو میں فاروق ستار کی طرح اسے سیاست میں نہ لاتا۔ ارے بھئی! سیاست تو عبادت ہے۔ کیا یہ اتنی بری چیز ہے کوئی اس میں ماں کو نہیں لا سکتا۔ یہ تو بیدار مغز اقوام کے اطوار ہیں وہ سیاست میں سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ فاطمہ جناح (مادر ملت)، بیگم رعنا لیاقت علی خان، والدہ مولانا محمد علی جوہر، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، بیگم نسیم ولی خان، عفیفہ ممدوٹ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے سیاسی کردار بہرحال قابلِ رشک ہیں۔ پھر ماں تو ماں ہوتی ہے! خیر آج میں بھی مصطفی کمال کی کم سنی اور فاروق ستار کی طویل ناتجربہ کاری کے سامنے اسٹبلشمنٹ کو قابلِ تحسین گرداننے پر مجبور ہوں۔ اگر بھتہ خوری، آپس کی لڑائی، قتل و غارت، دہشت گردی اور قبضہ گروپوں کے خاتمے کے لئے کوئی اسٹبلشمنٹ اپنا کردار پیش کر رہی ہے تو اسٹبلشمنٹ کو سلام۔ اور خواہش ہے کہ جمہوریت کے استحکام اور الیکشن 2018ء کے لئے بھی اسٹبلشمنٹ اتنی ہی مثبت ہو۔ کراچی والوں کے لیے بس اتنی بات کہ وہ اپنی عقل و دانش کو بھی تو بروئے کار لائیں! تماشا نہ بنیں اور نہ تماشا لگائیں!
ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں اور جمہوریت کا بول بالا ہو۔ آصف علی زرداری ن لیگ کے ماضی کو بھول کر اس کے ساتھ بیٹھیں۔ سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کی تشکیل میں سنجیدگی سے کام لیں۔ کب تک یہ لوگ ’’جوٹھی‘‘ سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ ایم ایم اے، پی پی پی، ن لیگ، تحریک انصاف الگ الگ اور پانچواں کوئی اتحاد سامنے آئے تو الیکشن 2018ء مزیدار ہو جائے گا اور متوازن بھی۔ ہاں! ن لیگ والے خوش فہمی سے باہر نکلیں، ان کی قیادت نے معینہ اور مقررہ وقت پر اپنے ممبران اسمبلی تو کیا کچھ وزراء کو بھی لفٹ نہیں کرائی تھی وہ نالاں تھے اور نالاں ہیں، اور وہ چھوڑ جائیں گے۔ ایم کیو ایم والے ڈرامے چھوڑیں اور اگر ہو سکے تو قومی دھارے کے ہو جائیں اس میں صداقت، سیاست، شرافت اور جمہوریت ہے۔ شارٹ کٹ سب کے لئے ناہموار ہوں گے حتیٰ کہ تحریک انصاف کے لئے بھی۔ جمہوری راہوں کے مسافر بنیں بھٹکی راہوں کے نہیں اس بات کو محترم میاں نواز شریف بھی سمجھیں۔