بحران اور مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں قوم کے قابل فخر فرزند آس و امید کے روشن چراغ جلائے جارہے ہیں وہ ہمیں اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ ہماری تمام اجتماعی اور انفرادی بدعمالیوں کے باوجود پاکستان آج بھی روشن اور تابناک امکانات اور معجزات کی سرزمین ہے جہان ہر روز نت نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور معجزات رونما ہوتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس ہماری اجتماعی نفسیات منفی حادثات و واقعات کی اس قدر عادی ہو چکی ہے ہمیں یہ اچھی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں پاکستانی مہاتما ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک خواب دیکھاتھا غریبوں کے لئے سود سے پاک' بلاضمانت قرض کی ان کی دہلیز پر فراہمی 'دیوانے کا خواب' تھاساری دنیا کے ماہرینِ بنکاری و معاشیات نے اسے ناقابل عمل منصوبہ قرار دے دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب تمام ماہرین کے تجزیوں سے مایوس نہیں ہوئے قرضوں کی فراہمی اور واپسی کا ایسا انوکھا اور کامیاب ماڈل پیش کیا کہ ساری دنیا ششدر پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے چوٹی کی عالمی دانش گاہیں ڈاکٹر صاحب کو مہمان بلاتیں ہیں عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے اور پاکستان کسی کو خبر نہیں ہے ڈاکٹر صاحب کی عقل و دانش سے صرف کے پی کے اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے استفادہ کیا ہے پاناما کی گندی دولت میں لتھڑے حکمران شریف خاندان کے ایک ستون شہباز شریف کی پذیرائی اور ڈاکٹر امجد ثاقب سے استفادہ حیران کن حقیقت ہے اس وقت کروڑوں نہیں اربوں روپے بلا سود قرض گردش میں ہیں جن سے ہزاروں نہیں لاکھوں خاندان استفادہ کرکے غربت کی آہنی زنجیریں توڑ خطِ غربت سے ابھر کر خوشحال زندگی کی طرف بڑ ھ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے محمد یونس کا گرامین بنک کا چھوٹے قرضوں کا نوبل انعام یافتہ منصوبہ پرِ کاہ کی حیثیت نہیں رکھتالیکن ڈاکٹر امجد ثاقب کو کسی پذیرائی سے کیا لینا دینا وہ تو کسی تارک الدنیا درویش کی طرح ہر چیز سے بے نیاز اپنی دھن میں مگن ہیں ڈاکٹر امجد ثاقب نے مسجد کو مرکز بنا کر غربت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔صرف 10سال پہلے 10ہزار روپے کے قرض حسنہ سے شروع ہونے والا روشنی کا یہ سفر 10ارب روپے کی کثیر رقم بن چکا ہے۔ اخوت مقامی مساجد کومرکز بنا کر کس طرح خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بے نواﺅں کوجینے کاحوصلہ اور رُوشنی اور ا±مید کی کرن دکھا رہی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب شاہی افسر DMG 13ویں کامن گروپ کا رکن رکین تھے جس کی وجہ سے زندگی میں آسانیاں پیدا ہوتی گئیں خودبخود بند دروازے کھلتے گئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس سہولت کو بھی عوامی خدمت کےلئے استعمال کیا ڈاکٹر صاحب کی آپ بیتی ’اخوت کا سفر‘کی زبان سادگی اور پرکاری کا حسین امتزاج ہے۔ چھوٹے قرضوں کی فراہمی کے اس منفرد منصوبے(Akhuwat Micro Finance Loan Project ) پراب دنیا کی تمام بڑی درس گاہوں میں تحقیق ہورہی ہے۔ جس کا صرف پاکستان علم نہیں ہے ۔
اخوت یونیورسٹی بھی ایک ناقابل فہم منصوبہ ہے جس کا خواب ڈاکٹر امجد ثاقب نے دیکھاایسی دانش گاہ جہاں فیس حصول علم میں رکاوٹ نہیں ہوگی صرف ذہانت اور صلاحیت معیار مطلوب ہوگی غربت ذہانت کا راستہ نہیں روک سکے گی کسی ماں کو زیور بیچ کر اپنے ذہین بچے' بچی کو نہیں پڑھانا پڑے گا اخوت یونیورسٹی کے تعمیراتی منصوبے پر کام تیزی سے جاری ہے آپ ایک اینٹ خرید کر بھی اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں عالمی معیار کی مفت تعلیم کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہو رہا ہے ۔یہ تو قوم کے ایک قابل فخر فرزند کی کہانی ہے اب تین سگے بھائیوں کا قصہ سنئیے علوی برادران نے ایجادات کی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اب یاد نہیں کیسے کمپیوٹر وائرس کا ذکر ہورہا تھا کہ اس کالم نگار کو دورانِ گفتگو اچانک یاد آیا کہ کمپیوٹر وائرس لاہور کے علوی برادران نے ایجاد کیا تھا امجد' باسط اور شاہد علوی کو اس حوالے سے کوئی نہیں جانتایہ سن کر مانچسٹر میں مقیم باخبر اخبار نویس دنگ رہ گیا تھا کہ اسے بھی کچھ علم نہیں تھا اس نے گوگل سے تصدیق کے بعد بھی اپنی حیرانی کا اظہار جاری رکھا کہ ہم کیا قوم ہیں اپنے قابلِ فخر فرزندان کی تشہیر میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں ان کو اعزاز دینے اور سر پر بٹھانے کی گم نامی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں کلمہ خیر کہنا انہیں سرا ہنا تو دور کی بات ہے ۔انتھک ڈاکٹر امجد ثاقب رُکنے اور سانس لینے کے لیے تیار نہیں۔مستقبل کے تعلیمی منصوبے اخوت یونیورسٹی' جہاں داخلے کی بنیادی شرط اہلیت ہوگی۔ جس کے فرزندتحصیل علم کے بعد اپنی مادر علمی کو قرض لوٹائیں گے جس کے لیے لاہور،قصور روڈ پر کیمپس میں تعمیرات تیزی سے جاری ہیں اور جذبہ تعلیم کے جنون' اخوت رضاکار اس کی اینٹیں فروخت کرنے نکل رہے ہیں۔ د±نیا کی پہلی منفرد درس گاہ جہاں مفت تعلیم دی جائے گی جس کے فرزند برسرِ روزگار ہونے کے بعد اپنی مادر علمی کے ماتھے پر جھومر سجائیں گے۔ آشاﺅں کے دیپ جلائیں گے پھر روشن ہوگا پاکستان اور مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے بھاگ جائیں گے۔مایوسی کے اندھیروں میں کئی چراغ روشن ہیں،امید پرست ناامید ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ ممتاز صنعت کار اور کاروباری علوم کے استاد الماس حیدر ایک ایساچراغ ہیں وہ بتا رہے تھے ”میں حکمرانوں کے ساتھ مل کرصرف اس لیے کام کر رہا ہوں، کہ امن و امان اور انتظامی معاملات بہتر ہوسکیں، ان کا کاروبار اور کاروباری سرگرمیوں سے براہ راست تعلق ہے“ ہاروڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل جناب الماس حیدر ان شخصیات میں شامل ہیں جن کی کمپنی عالمی سطح پر تیزی سے ترقی کرنے والے 5 سو صنعتی اداروں میں شامل ہے ، وہ مختلف اداروں میں پڑھاتے بھی ہیں، کاروباری علوم کی ممتاز درس گاہ لمز یونیورسٹی کے داﺅد بزنس سکول میں اس کالم نگار کو بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے،سیاسی استحکام کیوں ضروری ہے الماس حیدر بڑے عام فہم انداز میں بتا تے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے خطرات اور اس کے عوامل (Risk Factor ) کا تجزیہ کرکے شرح سود کا فیصلہ کرتے ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک وہ ادارہ جس کے لیے قرض مانگا جارہا ہے اور دوسرے وہ ملک جہاں پر یہ کاروبار ہو رہا ہے، اگر کوئی چینی صنعت کار قرض کا خواہاں ہو گا تو اسے صرف 3 فیصد شرح سود دینا ہو گی لیکن اگر کوئی پاکستانی قرض چاہے گا تو 3 فیصد کے ساتھ پاکستان کے حالات کی وجہ سے 5 فیصد ( Risk Factor) کے اضافی ادا کرنا ہوں گے۔
الماس حیدر کا خیال ہے کہ علم محض ڈگری یا نوکری کے لیے حاصل کرنا کار ضیاع ہے، صرف علم نہیں علم نافع حاصل کرنا عبادت ہے کیوں کہ بے مقصد اور بے سمت علم بسا اوقات سیدھی راہ دکھانے کے بجائے گمراہ بھی کر دیتا ہے، علم نافع کے حصول کے لیے تو رسالت مآب دعا فرمایا کرتے تھے، وہ قرآن اور حدیث عربی متن کے ساتھ روانی سے پڑھتے ہوئے عام فہم زبان میں ترجمہ بھی کرتے جارہے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں مال و دولت کے حصول کو برا گردانا جاتا ہے جب کہ قرآن اور احادیث میں مال خرچ کرنے والے کو متقی اور صالح قرار دیا گیا ہے اگر مال و دولت جائز طریقے سے کمائی نہیں جائے گی تو خرچ کیسے کی جائے گی، اسی طرح ایمان دار تاجر کا رتبہ اللہ کی راہ میں جان نچھاور کرنے والے شہداء کے برابر قرار دیا گیا ہے، الماس حیدر امید پرست ہیں جو کبھی مایوس نہیں ہوتے، وہ بتا رہے تھے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال دنیا کے درجنوں ممالک سے اب بھی بہتر ہے، 20 کروڑ لوگ مصروف عمل ہیں گاہک موجود ہے اس لیے یہ سارے کارخانے چل رہے ہیں خوش خوراک اور بے فکروں کی اتنی بڑی منڈی کہاں موجود ہے۔ ہمارے اساتذہ میں جہانگیر ترین بھی شامل تھے جنہوں نے عملی زندگی کا آغاز پنجاب یونیورسٹی میں بطور استاد کیا تھا لیکن بعد ازاں انھیں خاندانی معاملات کی وجہ سے زراعت کی طرف لوٹنا پڑا اور انھوں نے کھیتی باڑی جیسے قدیم پیشے کو جدید کاروبار میں ڈھال کر ہماری دیہی زندگی میں انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اور ہم ہیں کہ پاناما' پاناما کھیل کر وقت ضائع کر رہے ہیں سلام صد سلام قوم کے عظیم فرزندان زمین پر جو انوکھے خوابوں کی تدبیریں ڈھونڈ رہے ہیں ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024