اسی طرح مصر میں حسنی مبارک کے دورکا منظر بھی بڑا تاریک تھا۔ حکمران خاندان نے ہر شعبے میں اپنی اجارہ داریاں قائم کر رکھی تھیں۔ صنعت و حرفت کے میدان میں عامیوں کا داخلہ بند تھا۔ سب کچھ حسنی مبارک کے خاندان کے گرد گھومتا تھا۔ تحریر چوک سے ہر اٹھنے والی صدائے احتجاج نے جبر کے سارے بت چور چور کردیئے۔ فرعون رہا اور نہ اس کے حواری۔ 70 ارب امریکی ڈالر کے اثاثے پنجرے میں بند حسنی مبارک کے کسی کام نہ آسکے۔اخوان نے تبدیلی کو ادارہ جاتی استحکام میں بدلنے میں غیر معمولی سستی دکھائی تو جنرل السیسی کی صورت میں فرعون جدید دوبارہ مسلط ہو چکا ہے
بات پرانی ہو گئی لیکن اس میں بھی درس عبرت پنہاں ہے۔ روس کے زار اور آسڑیا کے بادشاہ نے اپنے عوام کو ریل کے سفر سے بہرہ مند نہ ہونے دیا۔ وہ نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ 19 ویں صدی کا یہ قصہ کب کا تما م ہوا کہاں گیا وہ زار… اور وہ بادشاہ۔
برطانیہ اور امریکا میں حکمرانوں نے عوام کو جدید ذرائع مواصلات سے روشناس کرایا اور دونوں ممالک پھل پھول رہے ہیں۔
صومالیہ میں کمزور مرکزی حکومت زوال کی بنیادی وجہ بنی، کامیاب معیشتوں کے پیچھے موثر مرکزی حکومت سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے۔ بظاہر صومالیہ آج بھی اقوام متحدہ کا رکن ہے لیکن اس کی حکومتی عملداری شاید دارالحکومت موغا دیشو میں بھی قائم نہیں۔ اداروں کی عدم موجودگی نظام کی بربادی کا سبب بنی اور اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
اسی طرح کولمبیا میں کمزور مرکزی سرکار ملک کے بیشتر حصے پر کنٹرول کھو چکی ہے جس پر دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ملیشیائیں قابض ہیں جن کا واحد دھندہ منشیات کا کاروبار ہے۔ سرکاری اور نجی زمینیں قبضہ مافیائوں کے نرغے میں ہیں۔
پیرو… اس کائنات میں تہذیب و تمدن کا پہلا گہوراہ رہا ہے یہاں ثابت ہو گیا ہے نسل، زبان، ثقافت اور جغرافیائی قربت کا ترقی اور خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ انسانوں کا عزم و حوصلہ اور دانش ہوتی ہے جو علم کے نور کے ذریعے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے۔
لاطینی امریکا کا بولیویا… استحصالی نظام اور اس کے تنخواہ داروں کے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ زمین اور معدنیات سے بھرپور کانوں پر استحصالی ٹولے کا قبضہ تھا۔ جب انقلاب اور رد انقلاب کا مکروہ کھیل شروع ہوا تو دکھ کم ہونے کے بجائے بڑھ گئے۔ سرے لون کی کہانی بھی بولیویا سے ملتی جلتی ہے۔
خدائے مہربان کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان میں ادارے باہمی تال میل سے آئین اور جمہوری نظام کی بالادستی کے مل جل کرنا کام کرنا سیکھ رہے ہیں جس کا ایک مظاہرہ کل شام ہوا جب فوجی اور سیاسی قیادت نے ڈان لیکس کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے کرکے بالغ نظری کا ثبوت دیا!
حرف آخر یہ کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کا لازوال شعر کام کے دباؤ اور اس کالم نگار کے فنا فی سیف الملوک ہونیکی وجہ سے عارف کھڑی شریف حضرت میاں محمد بخشؒ سے منسوب ہوگیا جس کی طرف انگریزی ادب عالیہ کے شناور ہونے کے باوجود سیف الملوک کے عاشق زار جہانگیر منہاس سمیت متعدد احباب نے توجہ دلائی لیکن جہلم سے پروفیسر عاشق صاحب نے خط کے ذریعے مکمل شعر عطا فرمایا۔یہ صرف نوائے وقت کا اعجاز ہے کہ قارئین کرام تحسین کرنے کے ساتھ غلطیوں پر گرفت بھی فرماتے ہیں گرامی نامہ کچھ یوں ہے
مکرمی محمد اسلم خان صاحب !
السلام علیکم !میں آپ کا کالم ’چوپال‘ بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔آپ کی تحریر پر مغزہوتی ہے 8مئی 2017 کے کالم میں آپ نے ایک شعر کا حوالہ دیا ہے جس کو میاں محمد بخشؒ سے منسوب کیاگیا ہے میرے ناقص علم کے مطابق یہ شعر میاں محمد بخشؒ کانہیں بلکہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کاہے۔
شعر مذکوردرج ذیل ہے۔
ت، تسبیح پھیری تے دل نہ پھریا کیہ لینا تسبیح پھڑکے ہو
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا کیہ لینا علم نوں پڑھ کے ہو
چلّہ کٹیا تے کچھ نہ کھٹیا کیہ لیناں چلّیاں وڑھ کے ہو
جاگ بنا دودھ جمدے ناہیں باہو
بھانویں لال ہوون کڑھ کڑھ کے ہو
اللہ تعالیٰ آپ کے علم وفضل میں اضافہ فرمائے
خیراندیش
پروفیسرعاشق حسین
گورنمنٹ کالج جہلم
…………………… (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38