کمزور کے ہاتھ طاقت لگ جائے یا طاقتور کمزور ہو جائے، تو دونوں صورتوں میں بات معمول سے ہٹ جاتی ہے گویا دونوں صورتوں میں امتحان ہے پی پی پی کا کڑا امتحان اس لئے شروع ہو چکا ہے کہ سنٹرل پنجاب سے اس کے وہ سابق وزراءاور سابق ممبران اسمبلی تحریک انصاف میں جا رہے ہیں جو اپنے اپنے حلقوں میں خاصا اثر ورسوخ رکھتے ہیں تحریک انصاف کا امتحان یہ ہے کہ وہ جو تبدیلی کا نعرہ لیکر اٹھی تھی وہ تقریباً دم توڑ گیا ہے اب اس نعرے اور اپنی ساکھ کو وہ کس طرح بچاتے ہیں یہ وقت بتائے گا پھر پی پی پی کے آنے والے لوگ بھی عمران کو وزیراعظم بنا پاتے ہیں کہ نہیں اس کا پتہ الیکشن 2018ءبتائے گا مگر ایک بات طے ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے عوام کی اکثریت مفاد پسند بلکہ مفاد پرست سیاستدان کا حشر نشر کر دے گی۔ آنےوالا الیکشن 2013ء نہیں 2018ءہے اس دفعہ پی ٹی آئی یا پی پی پی یا پی ایم ایل این کے کھمبوں کو ووٹ ہر گز نہیں ملنے سیدھی سی بات ہے پس منظر دیکھ کر پیش منظر تراشا جائے گا مقابلے ہوں گے اور کاٹنے دار ہوں گے اس موجودہ صورتحال میں یقیناً پی ٹی آئی خوش و خرم ہے عمران خان ہر صورت میں وزیراعظم بننے کے خواہاں ہیں دوسری جانب گو آصف علی زرداری ناکامی کو سامنے دیکھ رہے ہیں لیکن وہ صرف بار گینگ پوزیشن چاہتے تھے جو وہ حاصل کر چکے ہیں یعنی سندھ کی دوبارہ حکومت، جنوبی پنجاب میں مقابلہ، کے پی کے اور بلوچستان میں تنظیم سازی اور کسی حد تک مقابلہ اس سے زیادہ انہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا یقیناً یہ پی پی پی کے زوال کی داستان ہے جو زرداری صاحب کے ہاتھوں رقم ہوئی لیکن زرداری صاحب بہرحال ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو نہیں ہیں بی بی پیپلز پارٹی کا کل اثاثہ تھی اس کے ختم ہونے کے بعد یہ کچھ ممکن تھا اور اس لئے عالمی اور اسٹیبلشمنٹ قوتوں نے اپنی پلاننگ کر رکھی تھی تھوڑی دیر کیلئے یہ تصور کر لیں کہ تحریک انصاف پر عمران خان اور ن لیگ کے سر پر میاں نواز شریف نہ ہوں، تو کیا ہو؟ پس آصف علی زرداری نے 2008 ء کا ”پاکستان کھپے“ کیش کیا، اپنی حکومت 2008ءتا 2013ءپوری کی، میثاق جمہوریت ٹھیک نبھایا بدقسمتی یہ تھی کہ معاشی قیامت برپا تھی اور وہ حاکم کیونکہ عالمی منڈی میں تیل اور ڈالر کی قیمتیں انتہا¶ں پر تھیں کوکنگ آئل آسمانوں سے بات کر رہا تھا اس کا پتہ اس کو چل سکتا ہے جو 2008ءسے 2013ءکا یہ عالمی گراف دیکھے گا اس کے برعکس میاں نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں۔ سی پیک اور سعودی امداد کے علاوہ پٹرول، کوکنگ آئل اور ڈالر زمین پر ہیں۔ تمہید بہت ہوگئی، ایک نظر اس تاریخ پر جو پی پی پی کو مختلف مواقع پر لگنے والے جھٹکے بتاتی ہے۔ (1) بھٹو کے تختہ دار پر جھول جانے سے بڑا جھٹکا کوئی نہیں تھا۔ (2) بے نظیر کے انکلز غلام مصطفی جتوئی سے ملک معراج خالد تک، ممتاز بھٹو سے جام صادق تک وغیرہ وغیرہ چھوڑ ہی نہیں گئے تھے، دشمن ہوگئے تھے۔ (3) پیٹریاٹ بن جانا اور مخلص ترین ساتھیوں یعنی راﺅ سکندر اقبال، فیصل صالح حیات، ڈاکٹر شیرافگن نیازی اور نوریز شکور وغیرہ کا الیکشن جیت کر مشرف صف میں جاکھڑے ہونا۔ (4) بے نظیر بھٹو کا 27 دسمبر 2007 میں (الیکشن 2008 سے قبل) قتل ہوجانا، ناقابل تلافی نقصان اور جھٹکا تھا اور (5) الیکشن 2018 سے قبل بالخصوص پنجاب سے ان لوگوں کا چھوڑ جانا جنہوں نے پی پی پی کا 2008 تا 2013 کا اقتدار انجوائے کیا اور جن کی پانچوں گھی میں تھیں۔ اسے کہتے ہیں چکرا دینے والا جھٹکا۔ بلاول بھٹو زرداری اس ترتیب کو بھی جانتے ہوں گے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی زندگیاں ختم ہونے کے جھٹکے اپنی جگہ لیکن بے نظیر بھٹو نے اپنے انکلز کا جھٹکا سہا تھا اور جو جھٹکا بلاول کے انکلز نے اب دیا ہے، اسے بلاول کو بھی سہنا پڑے گا اگر لیڈری کرنی اور چمکانی ہے۔ دو چار موٹی موٹی باتیں ابھی سے ذہن نشین رکھنے والی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ عین اس وقت جب پانامہ معاملہ حتمی نتیجہ پر پہنچنے والا ہے، لوگوں کی دوڑ پی پی پی سے ن لیگ کی طرف لگ گئی کہ میاں برادران کا برا وقت شروع.... اوکے ہوگیا! لیکن لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ فرشتوں والی باتیں کرنے والا عمران خان ”جیالے فرشتوں“ کا کس طرح خیرمقدم کررہا ہے اور یہ ہے نیا پاکستان۔ نیا پاکستان نہ ہوا البتہ تحریک انصاف کا نیا ورژن ”پیپلز تحریک انصاف“ ضرور ہوگیا۔ بقول عمران خان ”میں فرشتے کہاں سے لاﺅں؟“ تو بابا پھر فرشتوں والی باتیں بھی نہ کریں۔ کے پی کے میں جنہیں کرپشن کی پاداش میں نکالا تھا پھر ساتھ لگاکر کیا ثابت کیا تھا جناب نے؟ دوسری بات، جتنے جیالے فرشتے تحریک انصاف میں گئے، یہ سب عرصہ دراز سے ”مقام اعراف“ پر تھے، پی پی پی میں تھے ہی نہیں کیونکہ میں ان میں سے بیشتر کو جانتا ہوں لیکن دوستی اور وضع داری کا تقاضا ہے کہ قلم بند نہ کروں۔ یہ انتظار میں تھے کہ اِدھر ڈوبیں یا اُدھر نکلیں۔ خانیوال کے ہراج خاندان سے ان لوگوں نے سیکھا کہ بیک وقت ق لیگ، پی پی پی اور ن لیگ کو ہولڈ رکھو اور موقع پر فیصلہ کرو۔
تیسری بات، پی پی پی کے تحریک انصاف کی زلف کا اسیر ہونے والے گروپ کا غلام سرور خان سے مسلسل رابطہ تھا، پھر ایک گروپ ایسا ہی تھا کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھیں گے کہ ہم ادھر یا آپ ادھر یہ گروپ تو اسی وقت تشکیل پا چکے تھے جب نارروال سے ادریس تاج پی پی سے گرے اور پی ٹی آئی میں آ ٹکے تھے سارے پارٹی چھوڑ پرویز خٹک ہونے سے تو رہے۔
چوتھی بات، جو لوگ بمعہ نذر محمد گوندل، نور عالم خان، فردوس عاشق اعوان عبدالحمید دستی وغیرہ تازے تازے تحریک انصاف میں گئے ہیں یہ سب آزاد یا پی پی پی کے ٹکٹ پر جیت ہی نہیں سکتے، اپر پنجاب اور سنٹرل پنجاب میں ان کی دال لگتی نظر ہی نہیں آ رہی ان کے مخالفین ن لیگ والے بہت ڈاڈے ہیں اب تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر بھی ان کی جیت کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے جتنی جلد ہوتا ہے امتیاز صفدر وڑائچ اور دیگر چن تارے بھی شوق پورا کرلیں ن لیگ آپ کو وہاں بھی کہیں کا نہیں چھوڑے گی! صمصام و سوہنا راجہ ریاض نے بھی جاکر دیکھ لیا یہ سب جیت سے کوسوں دور رہیں گے۔ المختصر، تحریک انصاف پہلے ہی فائدے میں ہے لیکن نئے جیالے فرشتوں کی آمد سے ایک سیاسی بوم ضرور ملا ہے لیکن ان کے ذریعے سیٹ نہیں ملنے والی یہ وہی لوگ ہیں جن کی فرسٹریشن کا پی پی پی میں شور تھا کہ ”جی ایڈجسٹمنٹ کرو، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرو پی ٹی آئی سے ورنہ ہم مر گئے ہم برباد ہو گئے“ جیالے فرشتوں کی ہجرت سے اہل پی پی کو نقصان ضرور ہے لیکن کوئی اسمبلی وسمبلی کی سیٹ کا نقصان بہرحال نہیں ہے!!! ن لیگ جلدی جلدی پانامہ شہادت حاصل کرے یا غازی بنے کہ جیالے فرشتوں کی ہجرت نے تحریک انصاف کو بھی پیپلیا پیپلیاکر دیا ہے گویا حساب برابر کوئی جذباتی ہوکر سوچتا ہے تو سوچتا پھرے بہرحال پی ٹی آئی کا تاثر اور ساکھ خراب ہوئے ہیں اس موقع پر بلاول پہلے نانا کی طرح اردو سیکھیں پھر حالات اور انکلز سے سیکھیں کچھ باپ کی ناکامیوں اور کچھ باپ کی کامیابیوں سے سیکھیں ہو سکتا ہے تو کچھ چھوڑنے والوں اور رہ جانے والے کھرے کھوٹوں سے بھی سیکھے۔ تاریخ گوا ہ ہے پی پی کو انکلز نے چھوڑا کیا ہوا؟ ن لیگ کو تو سب نے قبل از انتخابات 2002ءچھوڑا، کیا ہو؟بلاول صاحب ابھی تو دفتر کھلا ہے، ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے بندہ سیکھتا ہی بے وفائیوں اور کٹھن راہوں کے امتحانات سے ہے، اگر سرخرو ہونے کی صلاحیت ہو!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024