خبر دینے کی بجائے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خبریں تخلیق کرنا سازش ہوتی ہے یہ کام مدتوں سے جاری ہے جس کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے جنگ میڈیا گروپ کو توہین عدالت کے نوٹس کردئیے ہیں کہ اس گروپ نے دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی نامزد کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) کے بارے تسلسل سے بے بنیاد خبروں کا سلسلہ جاری رکھا کہ چاروناچار اس کا نوٹس لینا پڑا۔ کل بھوشن کے بارے میںبھارت کے مو¿قف کو سچ ثابت کرنے کےلئے جو گھن چکر چلایا گیا اس میں بھی ایک گروپ پوری طرح ملوث تھا جس کےلئے ایک ریئائرڈ جرمن سفارت کار ڈاکٹر گنٹر ملائیک کو خصوصی طور کراچی بلایا گیا۔
جرمنی کے مایہ ناز سفارتکار اور مشرقِ وسطیٰ امور پر مستند دانشور ڈاکٹر گنٹرملائک پاکستان اور مشرق وسطیٰ کی تمام اہم ریاستوں میں بطور سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں۔جرمن سفارتکار یکم اپریل2017 کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کراچی میں بہار عرب کے حوالے سے طویل خطاب کرتے ہیں کہ انہوں نے مسلم دنیا پر پی ایچ ڈی کے بعد بطور سفارتکار چار دہائیاں، چالیس سال اسی خطے میں گزارے‘ وہ معلومات کے دریا بہاتے بہاتے اور پر مغز تجزیے کرتے کرتے اچانک اپنے موضوع سے ہٹ کر فرماتے ہیں ۔
پاک چین تجارتی راہداری کامنصوبہ (CPEC) پاکستان پر جنت کا دروازہ نہیں کھول دے گا اور یہ کہ بھارتی جاسوس (کلبھوشن یادیو) کو طالبان نے ایران سے اغواء کر کے پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھ بیچا تھا۔ یہ گفتگو کوئی ایرا غیر ا،نتھو خیرا نہیں منجھا ہوا سفارتکار کر رہا تھا جسے لاکھوں ڈالر خرچ کر کے بون سے بلوایا گیا تھا۔انتہائی عامیانہ زبان میں، جس کا سفارتکاری کی شائستہ کلامی سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ یہ گفتگو حیران کن تھی جرمن سفارتکار نے یہ چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا کہ کلبھوشن یادیو کو طالبان نے ایران سے اغواءکر کے پاکستان کو بیچا تھا نہ کوئی ثبوت نہ کوئی دلیل، اتنا بڑا الزام لگایا اور روانی سے آگے بڑھ گئے۔
ڈاکٹر گنٹر بھارتی حکومت کا سرکاری مو¿قف بیان کر کے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اس پیچیدہ کھیل میں اپنا کردار بہ احسن ادا کر دیا جس کے بعد اصل کہانی شروع ہوتی ہے 2 اپریل کو انگریزی روزنامہ (ڈان) کے کراچی میٹرو پولیٹن صفحہ 18 پر یہ خبر شائع ہوتی ہے جس کے آخر میں دونوں متنازعہ جملے موجود ہیں۔ عرب بہار کی جمہوری لہر تو کب کی دم توڑ چکی اب تو یہ درس گاہوں کا نصابی موضوع ہے جس کا حالات حاضرہ سے کیا لینا دینا اور اس میں کیا خبریت تلاش کی جا سکتی تھی۔ ڈان نے ڈاکٹر گنٹرملائک کی خبر کو مقامی شہری سرگرمیوں سے زیادہ اہمیت نہ دی۔
ڈاکٹر گنٹرملائک کے لیکچر کی اس طرح غیر اہم اور توہین آمیز اشاعت پر بھارت کو ثبوت فراہم کرنے کے مشن پر کام کرنیوالے چالبازوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے تو پھر وہ کھل کر سامنے آگئے اور ڈان میں شائع ہونیوالی یہ غیر اہم خبر اگلے روز 3 اپریل کوایکاشاعتی گروپ کے دونوں انگریزی اور اردو اخبارات میں شہ سرخی کے ساتھ نمایاں شائع کیاگیا۔ کراچی میں ہونیوالے لیکچر کی خبر میں شہر کا نام تبدیل کر کے اسلام آباد کر دیا گیا تھا۔ قارئین کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی سازش کی گئی کہ جیسے یہ لیکچر کراچی نہیں اسلام آباد میں ہوا ہے جبکہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افئیرز کی کوئی شاخ تک اسلام آباد میں موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں یہ خبر شائع کر کے بھارت کو ثبوت فراہم کیا گیا ہے کہ پاکستانی اخبارات بھی کلبھوشن یادیو کے ایران سے اغو اءاور پاکستان کو فروخت کی ’مصدقہ‘ خبریں شائع کر رہے ہیں تاکہ عالمی سطح پر بھارت اس خبر کو دلیل کے طور پر پاکستان کیخلاف استعمال کر سکے جو کہ وہ اب کر رہا ہے۔یہ کالم نگاربھی ایک دہائی تک اسگروپ سے وابستہ رہا خصوصی خبروں کی اشاعت کے طریقہ واردات سے بخوبی آگاہ ہے جس کا ایک ایک لفظ ایڈیٹر کی اجازت سے ہی شائع ہوتا ہے۔
لیکن عالمی عدالت انصاف کو ہم نے حکومت پاکستان یقین دہانی کرادی ہے حتمی فیصلے تک کل بھوشن یادیو کو پھانسی نہیں دی جائے گی لیکن کلبھوشن کو بچانے کےلئے اس غیر اہم اور پرانی خبر کو دوسرے دن نمایاں طور پر کیوں شائع کیا گیا؟ اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں اور کیا تھے؟ شہر کا نام تبدیل کر کے قارئین کو دھوکہ کیوں دیا گیا؟ اصل متن سے توجہ ہٹانے کیلئے طوطا کہانیاں کس نے لکھوائیں، بھارتی موقف کی تائید میں ایک ثبوت پاکستانی سرزمین سے سوچے سمجھے منصوبے اور سازش کے تحت کیوں فراہم کیا گیا جس میں بڑی بڑی عالمی طاقتیں شامل ہیں جنکے مقامی مددگار اور خیرخواہ اب بے نقاب ہو رہے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فارن افئیرز جنوبی ایشیا کی مایہ ناز دانش گاہوں میں شامل ہے جس کی موجودہ سربراہ ریٹائرڈ وفاقی سیکریٹری کابینہ ڈویژن ڈاکٹر معصومہ حسن ہیں۔ یہ انسٹی ٹیوٹ چوٹی کے دو سو سے زیادہ اداروں میں 16 ویں نمبر پر ہے۔ جہاں سینئر سفارتکار اور سفیر حضرات لیکچر دیتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر گنٹر ملائک کو بھی اسی سلسلے میں مدعو کیا گیا تھا۔
کلبھوشن یادیو، اکھنڈ بھارت کا جانباز ہم سے بلوچستان چھیننے آیا تھا پکڑا گیا تو پاکستان میں اسے وکیل اور گواہان صفائی میسر آگئے۔ جو بڑی دیدہ دلیری سے کہتے ہیں کہ ’را تو بیرون ملک دہشتگردی میں ملوث نہیں ہو سکتی کہ یہ اسکے دستور عمل میں شامل نہیں ہے البتہ پٹھانکوٹ میں لڑاکو حملہ آور پاکستان سے گئے تھے
نیوی کا حاضر سروس کلبھوشن یادیو جاسوسی کی دنیا کا ادنیٰ پیادہ نہیں بلکہ اکھنڈ بھارت کا ایسا سرفروش ہے جس نے رضا کارانہ طور پر دشمن کی سر زمین پر پنجے گاڑنے کیلئے اپنے آپکو پیش کیا تھا۔ کلبھوشن یادیو مقدر کا سکندر نکلا۔ ایسا خوش بخت جاسوس، دہشتگرد اور تخریب کار، حاضر سروس فوجی افسر جسے پاکستان میں ہمدرد ہی نہیں وکیل بھی میسر آگئے اور اب اس نازک اور حساس معاملے میں پاکستان کو ”مجرم“ بنانے کیلئے ثبوت گھڑے جا رہے ہیں جی ہاں یہ گھناﺅنا کھیل دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے۔
رواں سال مارچ کے پہلے ہفتے میں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا انکشاف ہوتے ہی بھارت نے مو¿قف اختیار کیا کہ اس ’معصوم‘ بھارتی تاجر کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے ایران سے اغواءکرایا ہے جس کیلئے جیش العدل نامی گروہ کو استعمال کیا گیا ہے لیکن کلبھوشن یادیو کی حسین مبارک پٹیل کے بھیس میں موجودگی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکا کہ کلبھوشن یادیو حسین مبارک پٹیل کے بھارتی پاسپورٹ پر کیسے ایران میں موجود تھا۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے حوالے سے بھارتی مو¿قف کو ثابت کرنے کیلئے عالمی سطح پر گھن چکر چلایا جارہا ہے۔
کلبھوشن کو ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی تھی کہ وہ بلوچستان کو اپنا مفتوحہ علاقہ سمجھ بیٹھا تھا۔ وہ یہ حقیقت بھول گیا کہ جاسوس علاقے فتح نہیں کیا کرتے اور بلوچستان، مشرقی پاکستان نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کو جے آئی ٹی کے بارے میں من گھڑت خبروں کی اشاعت کا دائرہ کار پھیلانا چاہئے اور پاکستان مخالف کارروائیوں کا جائزہ بھی ابھی لگے ہاتھوں لے لینا چاہیے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024