گریٹر اسرائیل کا شیطانی منصوبہ چارنکاتی ایجنڈے پر استوار ہے جس پر یہودیوں اور قدامت پسند مسیحیوں ‘نیوکانز کا کامل اتفاق ہے جس کی تکمیل کے لئے وہ سردھڑ کی بازی لگانے پر تلے ہیں۔ اس کے چار مراحل کی ترتیب میں اول سب سے خوفناک اور بڑی جنگ، دوسرے نمبر پر مسلمانوں کے دو اہم ترین مقدس مقامات کا انہدام، تیسرے نمبر پر معبد کی تعمیر اور چوتھے نمبر پر حضرت دائوؑ کی تاج پوشی کے لئے استعمال ہونے والے پتھر (تھرون آف ڈیوڈ) کو نوتعمیر شدہ معبد میں رکھا جانا ہے۔ پروٹوکولز آف زائیان 1897ء میں بنے تھے اور گریٹر اسرائیل کا نقشہ تیار ہوا تھا۔ اس نقشہ میں ایک سانپ ان تمام علاقوں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں کل ڈیڑھ کروڑ یہودی ہیں جس میں سے صرف 35 لاکھ وہاں آئے ہیں۔ انہوں نے تمام یہودیوں کو اسرائیل لاکر آباد کرنا ہے‘ اس کے لئے انہیں جگہ چاہئے۔ واقعات کی ترتیب کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے قیامتِ صغرٰی (Armageddon) یا بہت بڑی اور خوفناک جنگ کہا جاتا ہے۔ عام فہم الفاظ میں شاید اسے تیسری عالمی جنگ کہا جاسکتا ہے جس کا میدان جنگ اسرائیل میں مجیدو نام کی ایک پہاڑی اور اس کے اردگرد کے علاقہ کو بتایا جاتا ہے۔ مسیحی اور یہودی بائبل کی کتاب ’’مکاشفات‘‘ سے اس قیامت صغریٰ کہلانے والی جنگ کی سند لاتے ہیں جس کے بعد گریٹر اسرائیل یا وسیع تر اسرائیل کا مرحلہ آئے گا۔ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کا انہدام کرنے کا ملعون منصوبہ زیرغور ہے۔ صخرہ چٹان کو کہتے ہیں۔ قبۃ الصخرہ وہ سنہری گنبد والی عمارت ہے جو اکثر تصاویر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ دونوں مقدس مقامات یروشلم میں ایک پہاڑی پر واقع ہیں۔ اس پہاڑی کو یہودی ’’ٹیمپل مائونٹ‘‘ یا معبد کی پہاڑی کے نام سے پہچانتے تھے۔
محترم نبی حضرت سلیمان نے اللہ کا گھر یا مسجد جسے یہودی معبد کہتے ہیں، اس پہاڑی پر تعمیر فرمایا تھا۔ نبی آخرالزماں محمد مصطفیؐ معراج جب بیت المقدس سے صدرۃ المنتہی کے لئے تشریف لے گئے۔ آپ کا براق جس چٹان سے آسمانوں کی جانب روانہ ہوا تھا، عبدالملک بن مروان نے اس چٹان پر ایک گنبد بنوایا جسے قبۃ الصخرہ کہتے ہیں۔ اردن کے شاہ حسین مرحوم نے اس گنبد پر سونے کی چادر چڑھائی تھی جس کا وزن لگ بھگ 35 ٹن بتایا جاتا ہے اور یہودیوں نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ یہ سونا ایک دن ہمیں نئے معبد کے لئے کام آئے گا۔ یہ وہی ’’ٹیمپل مائونٹ‘‘ ہے جس کے نام پر صلیبی جنگجو ’’ٹیمپل نائٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے یعنی حضرت سلیمان کی پہاڑی کی حفاظت کے لئے لڑنے والا سالار 1099ء میں صلیبیوں کا یہ ’’مقدس جنگوں کا سلسلہ ‘‘ شروع ہوا تھا۔
قبۃ الصخرہ کے ساتھ مسجد عمر تھی، وہاں مسجد اقصیٰ ہے۔ مسلمانوں کی لاعلمی کا عالم تو یہ ہوچکا ہے کہ انہیں قبۃ الصخرہ اور مسجد اقصیٰ میں فرق کا بھی علم نہیں۔ عمومی طور پر سنہری گنبد والی عمارت کو ہی مسجد اقصیٰ تصور کرلیاجاتا ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں۔ یہ بھی ایک گہرا دکھ ہے کہ جن وارثوں کو اپنے اثاثوں کا ہی علم نہ ہو، وہ ان کے تحفظ اور دفاع کے لئے کیا کرسکیں گے۔
ڈاکٹر اسرار کے الفاظ میں گزشتہ ’’انیس سو برس سے یہودیوں کا خانہ کعبہ گرا پڑا ہے۔ 70 عیسوی میں ٹائٹس رومی نے یہ معبد گرایا تھا۔ مسلمانوں نے یہ کام نہیں کیا تھا‘ رومی بت پرست تھے اور ان کے ہاتھوں یہ کام ہوا۔ یہودیوں نے تیسرا معبد تعمیر کرنا ہے۔ 1967ء میں انہیں جگہ کا قبضہ مل گیا‘ اب تعمیرات کے حتمی مرحلے کی طرف انہیں جانا ہے۔‘‘
1967ء سے پہلے مشرقی یروشلم اردن کا حصہ تھا۔ عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ کے بعد یہ حصہ صہیونیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے بیک وقت تین عرب ممالک کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ یروشلم ہاتھ میں آنے کے بعد صہیونیوں نے فتح کا جشن منایا تھا۔ اللہ کے پیغمبر حضرت دائودؑ نے پہلا اور ان کے عظیم فرزند اور نبی حضرت سلیمان نے دوسری مسجد (یہودیوں کے الفاظ میں معبد) تعمیر کیا تھا۔ چونکا دینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ اب تیسرے معبد کی تعمیر کے بعد اس میں وہ مقدس پتھر لاکر رکھا جائے گا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت دائود کی تاج پوشی ہوئی تھی۔ یہ پتھر’’تھرون آف ڈیوڈ‘‘ یا دائود کا تخت کے نام سے مشہور ہے۔ اسی پتھر پر بعدازاں حضرت سلیمان کی تاج پوشی ہوئی۔ بیان ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے اللہ کا جو گھر بنایا تھا اس میں یہ پتھر رکھ دیا گیا تھا۔ اسرائیلی بادشاہوں کی تاج پوشی کے لئے یہی پتھر بعدازاں بھی استعمال ہوتا رہا۔ معبد گرانے کے بعد بادشاہ ٹائٹس رومی یہ پتھر اپنے ساتھ روم لے گیا جہاں سے پھر یہ پتھر آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ سے ہوتا ہوا برطانیہ جاپہنچا۔ چودھویں صدی عیسوی میں اس پتھرکو ایک کرسی کا حصہ بنادیا گیا۔ برطانیہ میں ویسٹ منسٹر کی پارلیمنٹ کے ساتھ واقع ویسٹ منسٹر چرچ ایبے میں یہ کرسی موجود ہے۔ برطانوی بادشاہوں اور ملکہ کی تاج پوشی اسی کرسی پر بٹھا کر کی جاتی رہی ہے۔ دنیا میں یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ دنیا میں مسلمانوں کی کل آبادی ایک ارب پچاس کروڑ ہے
ان اعدادوشمار کی روشنی میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہونے کے باوجود ایک کروڑ پچاس لاکھ یہودی ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے صرف اور صرف بے عملی ہے
سیکولر ترکی کی مسلح افواج سے طویل پنجہ آزمائی کرکے شکست دینے والے بوڑھے دانشمند ترک نجم الدین اربکان نے مسلمان حکمرانوں کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہو ئے کہا تھا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان 80 لاکھ یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے خدائی مدد اور ابابیلوں کے انتظار میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ ابابیلیں آبھی گئیں تو وہ کنکر یہودیوں پر نہیں بے عمل مسلمانوں پر پھینکیں گی۔