بدقسمت جمہوریت اور بدنصیب عوام کے خوش نصیب لیڈر مولانا فضل الرحمن 1953ء میں ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہوئے۔ اگر 19 جون کا برتھ ڈے دیکھوں تو وہ جوزا (GEMINI) ہیں۔ یکم ستمبر کو یوم پیدائش مانوں تو وہ سنبل (VIRGO) بنتے ہیں۔ میری تحقیق غلط بھی ہو سکتی ہے مگر مجھے جون اور ستمبر کے یہی متذکرہ دن ملے۔ ہوسکتا ہے تاریخ کوئی اور ہو تاہم مولانا سالگرہ نہیں مناتے۔ نہیں معلوم وہ، مناتے تو اسلامی ماہ وسال کو مدنظر رکھتے یا دیسی تاریخوں کو؟ یہ بہرحال معلوم ہے کہ وہ ’’ستارہ بازی‘‘ پر یقین نہیں رکھتے جو ضروری بھی نہیں۔ یہ ہم بھی نہیں مانتے، جانے وہ ہمیں جوزا
(GEMINI) کیوں لگتے ہیں؟ زمانہ طالب علمی ہیں ہمیں یہ مرض تھی کہ ہر اس سٹار کو سپر سٹار گردانتے جو کسی حسن کا ہوتا۔
جی! قصہ مختصر اپنے پیارے مولانا محترم مذہبی طور سے مکمل ملا اور سیاسی اعتبار سے پورے مسٹر لگتے ہیں! انکی خطابت، فلسفہ اور زیرک سیاست کے ہم عرصہ سے قائل ہیں۔
جس طرح پی پی پی اور ن لیگ پر خاندانی اجارہ داری ہے اسی طرح کی اجارہ داری جے یو آئی کے گروپوں پر بھی ہے حالانکہ یہ پی پی پی اور ن لیگ کی طرح دنیادار نہیں بلکہ مذہبی ہیں۔ عالم تو اے این پی اور پختون خواہ ملی پارٹی وغیرہ کا بھی یہی ہے۔ پی ٹی آئی بھی عمران خان کی مرہون منت کی رہے گی۔ آہ! شاید یہ عوامی جمہوری و سیاسی یتیمی ہے؟ آ جا کے جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی نظر آتی ہے جو داخلی اعتبار سے جمہوری اور خاندانی اجارہ داری سے پاک ہے۔
خیر، آج مولانا کے آصف علی زرداری اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ملاقات کے حوالے سے ایک جملے نے پورا کالم ہی اپنے نام کرالیا۔ فرماتے ہیں ’’نہیں معلوم تھا کہ پیپلزپارٹی اتنی یتیم ہوجائیگی‘‘۔ مولانا کی اس تیکھی بات میں نشتر زنی کے علاوہ دم خم بھی ہے۔ ان کا مطلب تھا کہ، زرداری صاحب قادری صاحب کی دہلیز پر جانے کیلئے مجبور ہوگئے۔ مگر اسی ملاقات پر شیخ رشید خوش دکھائی دئیے اور ان کا خیال تھا کہ مولانا کو بھی زرداری رام کرلیں گے لیکن ایسا نہیں لگ رہا کہ مولانا زرداری صاحب کے دام میں آجائیں کیونکہ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ مولانا سیاسی طور پر بہت چکنے ہیں اور پھسل پھسل جاتے ہیں۔ ہاں! مولانا سوائے حکومتی زلف کے اور کسی کے اسیر نہیں ہوتے۔ ملک و ملت اور جمہوریت سے مولانا کا ٹھاٹھیں مارتا ’’عشق‘‘ انہیں حکومت سے ہجر کا مزا لینے نہیں دیتا۔ وہ مشرف کے بھی ’’ساتھ‘‘ تھے۔ پھر 2008 تا 2013 زرداری صاحب کے بھی سنگ رہے۔ 2013 سے تاحال وہ ن لیگ سے جمہوری و سیاسی رومانس رکھتے ہیں۔ کل بھی قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، آج بھی ہیں۔ امید ہے آئندہ بھی ہونگے، ٹریک ریکارڈ تو یہی کہتا ہے بشرطیکہ کوئی عمرانی حکومت نہ آجائے۔ اپنے خیال میں مولانا کا پورے زمانے سے سیاسی اتحاد ہے سوائے عمران خان کے، مگر بعید نہیں بذریعہ شاہ محمود قریشی و جہانگیر ترین و پرویز خٹک بوجہ ’’جمہوری عشق‘‘ مولانا کی بیل منڈے چڑھ بھی سکتی ہے۔
فی الحال خان ،مولانا کو بخشتے ہیں نہ مولانا ، خان کو۔ دونوں کے جلسوں کے شرکاء تلخ و ترش شعلہ بیانی کے بغیر خطاب اور خطبوں کو نامکمل سمجھتے ہیں۔ دراصل مولانا شدید بیقرار و بیزار ہیں کہ 2002 کے بعد انہیں کے پی کے میں اپنا ’’جمہوری قیام و طعام‘‘ میسر نہیں آیا۔ ایسی کسمپرسی میں بھلا خان انہیں اچھا لگے بھی تو کیسے؟ کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟
دوسری جانب مولانا سیاست کے شباب سے ہمکنار عمران خان پر یہودی ایجنٹ کا الزام لگائے بغیر اپنی سیاست و حکمت کو نامکمل سمجھتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے مولانا کی اس بات پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ذرا اور پیچھے جائیں تو مولانا کا سیاسی تعلق بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت سے بھی جڑا تھا، یہ وہی دن ہیں جب انکے سر ڈیزل کا ’’الزام‘‘ بھی آیا۔ ہمارا تو خیال ہے یہ محض ڈیزل کا قصور ہے ورنہ یہ کام اور مولانا… چھی چھی چھی!!! ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس ضمن میں کسی مرید کا تبصرہ یوں ہے کہ ’’ہوا کچھ یوں، جب روس افغانستان پر چڑھ دوڑا لیکن افغانستان میں طالبان نے انہیں دن میں تارے دکھا دیئے، ایک وقت ایسا آیا کہ طالبان کے پاس وسائل کم پڑ گئے اور علاقے فتح کرنے میں انہیں مشکلات پیش آنے لگی تو افغان طالبان کے وفد نے مولانا سے ملاقات کر کے صورتحال سے آگاہ کیا، اس پر مولانا نے بینظیر بھٹو سے طالبان کی مدد کا کہا جو وزیراعظم بینظیر نے مولانا کی گزارش پر طالبان کیلئے چمن بارڈر سے 18 دن ڈیزل سپلائی کیا، پھر کچھ سیاست دانوں نے نیب کے ذریعہ بہت کوشش کی کہ کسی طرح مولانا کو پھنسایا جائے مگر ایک پائی بھی مولانا کی ذات پر ثابت نہ کر سکے۔ کسی چاہنے والے نے ’’ثابت کرنے‘‘ والی بات تو خوب کی۔ مولانا نے بھی دن رات ایک کردیا ہے کہ سابق وزیراعظم پر کرپشن ’’ثابت‘‘ نہیں ہوئی۔ گویا وہ ’’معصوم‘‘ ہیں۔ بدقسمت جمہوریت ہو کہ بدنصیب عوام سارے نقائص تو ان میں ہیں۔ بس یہی گنہگار ہیں، اس لیول کا تو ملا بھی اشرافیہ ہے، اور اشرافیہ سے شرفا تک سبھی معصوم ہیں۔ مولانا 17 اکتوبر 2017ء کی قومی اسمبلی کی تقریر اٹھا کر دیکھیں، ساری تقریر قابل توجہ ہے، اس میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ، قانون کے نفس مضمون کو نہ بھی چھیڑیں اسکے آگے پیچھے ایسی اضافتیں کردی جاتی ہیں کہ پروسیجر مشکل ہو جاتی ہے، اور وہی قانون لاگو ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر مثال کے طور پر یہ بھی کہا کہ یہاں زنابالجبر کو زنا سمجھا جاتا ہے اور زنابالرضا قانوناً ایک جائز امر ہے جبکہ شریعت کیمطابق دونوں پر حد ہے اور دونوں جرم ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے لیکن سرکاری کرپشن پر بھی کیا یہی نقطہ نظر نہیں ہونا چاہئے، یا سرکار؟ 62 اور 63 کس لئے ہے۔مولانا کا 28 جولائی 2017ء کا موقف ’’ترقی پسندانہ‘‘ نظر آتا ہے جس میں وہ کرپشن میں ’’قانونی‘‘ تقاضوں کی بات کرتے نظر آتے ہیں شریعت کی نہیں۔ انکے نزدیک کم و بیش عالمی و عدالتی نزاکتیں ایک صفحہ پر تھیں اور سی پیک و دیگر ترقیوں کو روکنے کیلئے سب کیا جا رہا ہے اور میاں صاحب کو خطرہ ہے۔ اللہ جانے یہاں مولانا ’’کرپشن بالرضا‘‘ سے متفق تھے یا جمہوریت سے ایفا میں یا شریعت کی وفا سے؟ گمان غالب ہے جولائی 2017ء کا موقف مسٹر والا اور اکتوبر 2017 کا ملا والا ! یا دونوں گڈ مڈ، واللہ اعلم بالصواب۔
حضور کے ان دنوں کے طرزتکلم اور سیاست کو دیکھوں تو درج بالا سوال کا جوب واضح ملتا ہے کہ ان کا دل زرداری صاحب کیلئے نہیں دھڑکتا بلکہ آج کے ’’نوازنے‘‘ والوں کیلئے دھڑکتا ہے اور فی الوقت دھڑکے گا بھی۔ دل ہے بعد کی بعد میں دیکھی جائیگی۔ خیر یہ بھی ذہن نشیں رہے مولانا دل والوں والا وتیرہ کم او دماغ والوں والا زیادہ رکھتے ہیں! پس شیخ رشید احمد کی مذکورہ پیش گوئی میں فی الحال دم لگتا نہیں ہے۔
ارے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ملائیت کیخلاف ہیں، اپنا تو یہ عالم ہے کہ پچھلے دنوں ایک کم فہم و نومولود اینکر پرسن خاتون کی آف ائیر ملائیت کیخلاف گفتگو کی شکایت پروڈیوسر اور ایم ڈی کو کردی، محترمہ نے روشن خیالی میں اس لئے حدود پار کرلیں کہ مخصوص حالات میں خواص کو راضی کرنا مقصود تھا۔ اس ضمن میں ہم مولانا زاہدالراشدی کے اس سوال اور بات سے آج بھی مکمل اتفاق کرتے ہیں ’’سوال یہ ہے کہ آج اگر اس تقسیم کار میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے حصے کا کام سرانجام نہیں دے سکا اور گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں مغربی آقاؤں کی ناز برداری اور انکے ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کوئی کام نہیں کر پایا تو اپنی اس ناکامی کا طوق ملا کے گلے میں کیوں ڈال رہا ہے؟‘‘ (ہفت روزہ الہلال- اسلام آباد 11 اگست 2000)
جہاں تک مولانا نے پی پی پی کی یتیمی کی بات کی ہے اس میں مولانا کچھ بھول رہے ہیں۔ کیا پی پی پی نے بارہا ان کی سیاسی یتیمی پر ہاتھ نہ رکھا؟ وہ الگ بات ہے آج کل میاں صاحب کا ان پر ہاتھ ہے۔ ارے! ہم کسی ملائیت اور آمریت کے قائل نہیں اور نہ مولانا سے ایسی توقع ہی کرتے ہیں، ہم ایم ایم اے کی تاریخ اور 2002ء کی دھکے سے پائی اپوزیشن لیڈری کو بھی بالائے طاق رکھتے ہیں اور یہ بھی فراموش کرتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کی چئرمینی کوئی کارکردگی نہیں رکھتی… لیکن مولانا آپ خواجہ سعد رفیق تو نہ بنیں، آپ تو شریعت پسند ہیں نا؟ آپ تو یہ فراموش نہ کریں کہ آپ کے حاضر سروس لیڈران تو پی پی پی کی ’’یتیمی‘‘ کے دست شفقت کیلئے ہنوز مرے جارہے ہیں۔ مولانا! دھرنے کا دست شفقت بھی فراموش کردیا کیا؟ میثاق جمہوریت کا تحفہ کس کو زیادہ راس آیا؟ اور وہ 18ویں ترمیم کا پھل؟ اسٹیبلشمنٹ جس سے ذرا نالاں ہو اس کی یتیمی میں پل ہی کتنے لگتے ہیں؟ مولانا ہم آپ سے ’’متاثر‘‘ ضرور ہیں لیکن دایاں دکھا کر بایاں مارنے والے تھپڑ سے نہیں ڈرتے صاحب، ڈرتے اس بات سے ہیں کہ
’’پھر کس قدر جلد بدل جائیں گے انساں جاناں؟‘‘