زندگی کے شبانہ روز میں کبھی کبھی انسان اُلجھنوں کے بھنور میں اس قدر پھنس جاتا ہے کہ نکلنے کا کوئی راستہ نظر ہی نہیں آتا۔ ایسے ہی کبھی حقوق العباد کا معاملہ کہ جو گرداب دکھائی دینے لگتا ہے۔ بعض اوقات دشمنیوں اور دوستیوں کی وہ دلدل کہ سمجھ ہی نہیں آتی ان سب سے کیسے چھٹکارہ ممکن ہے۔ گویا زندگی جب جنگ و جدل بن کر رہ جائے، تدبر جواب دے جائے اور صبر منہ موڑ لے تو پھر کسی رہبر و راہنما کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ رہبر وہ کہ جس کے قول و فعل میں رتی برابر تضاد نہ ہو اور رہنمائی وہ کہ جس میں عملی نمونہ ملے۔ زندگی کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ محض باتوں یا خالی فلاسفی سے زندگی کی گاڑی نہیں چلتی۔ بچپن سے بڑھاپے تک ہر نیا سورج تجربات کا نیا سویرا لے کر طلوع ہوتا ہے اور ہر کرن ایک نیا سبق سکھاتی ہے۔ ذرا غور کریں تو گود سے گور تک معاشیات، سیاسیات، سماجیات، نفسیات، معاشریات اور دینیات کے نئے نئے اسباق سے پالا پڑتا ہے۔ کچھ کی سمجھ آتی ہے اور کچھ کی بالکل سمجھ نہیں آتی۔ کہیں سیاق و سباق کچھ سمجھا دیتے ہیں اور کہیں پڑھا لکھا، عالم فاضل اور صاحبِ عقل و صاحب کردار بھی دنگ رہ جاتا ہے۔
امت کی برتری کو ملا اور بھی عروج
سرخیل انضباط و سیاست حضور ہیں
فہم و فراست کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی زندگی اور آخرت کے فلسفہ اور حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایسی صورتحال میں قرآن و سنت ہدایت اور کامیاب زندگی کے سنگ سنگ آخرت کو سجانے والے وہ علمی و عملی سرچشمے ہیں جنہیں فراموش کرنا ممکن ہی نہیں۔ خواص و عوام اس بات سے آشنا ہیں کہ ہم بعض اوقات اقوال زریں، علم و حکمت اور دانائی کو مختلف سوشل سائنسدانوں، سوشل انجینئرز اور عالموں و فاضلوں سے تلاش کرتے ہیں لیکن ہمیں کبھی کوئی دنیاداری میں محسنِ انسانیت محمد مصطفےٰ سا اکمل نہیں ملا۔ حتیٰ کہ انبیاءکرام میں سے بھی کوئی احمد مجتبیٰ سی پریکٹیکل لائف والا نہیں ملا۔
میرے نبی کی شان اقدس میں تجربات و مشاہدات اور زندگی کے تمام زاویوں کے عملی نمونے پائے جاتے ہیں۔ طالب علم اور محقق اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ صرف تھیوری سے کام نہیں چلتا، پریکٹیکل بھی ضروری ہے۔ پرکھ کے لئے کسوٹی اور امتحانی کامیابی کے لئے سوالات و جوابات بھی ضروری ہیں۔ ان سب پہلوﺅں کا چونکہ آپ کی ذات میں احاطہ موجود ہے چنانچہ رب کعبہ نے فرمایا کہ ”بے شک آپ اخلاق کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں“۔ (القلم) پھر یہ بھی فرمان ہے کہ ”رسول اللہ کی زندگی آپ کے لئے بہترین نمونہ ہے“ (الاحزاب)۔ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ کے اسوہ حسنہ کو بہترین اور افضل قرار دیا گیا۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میں جب غیرمسلم محققین اور اسلام کے مخالفین نے بھی سر کھپایا تو انہوں نے تاریخ انسانیت کی سب سے بڑی پریکٹیکل ہستی گویا انسانی تاریخ کردار اور کمال کے لحاظ سے نمبر1 ہستی محمد مصطفےٰ کو قرار دیا۔ اُن میں کوئی اسلام لایا اور کوئی نہیں لایا۔ حتیٰ کہ حضرت عیسیٰؑ اورحضرت موسیٰؑ کو ماننے والوں نے اپنا مذہب تو نہ چھوڑا لیکن حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیٰؑ کو نبی اکرم کی کیٹیگری میں نہ پا سکے اور نہ کھڑا کر سکے۔ آخر ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں اور کئی تصدیق موجود ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر ایک چیز تو واضح کندہ ہے کہ مردہ اور افسردہ معاشرے میں اپنے حُسنِ عمل سے محمد عربی زندگی، چاہت، راحت، محبت، صداقت، امانت، دیانت، فراست، عزت اور غیرت کی روح پھونک دی۔ یہ روح بحیثیت لیڈر ہی نہیں پھونکی، بطور معلم، بحیثیت .... بحیثیت باپ، بحیثیت رشتہ دار، بحیثیت دوست، بطور داعی، بطور ہم سفر اور بطور ہم رکاب ہوں گی۔ دشمن داری میں بھی وضع داری اور صداقت و امانت کو فراموش نہیں کیا۔ غصے میں عقل کا دامن نہیں چھوڑا اور علم کے سنگ سنگ حکمت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔
آج کا جدید انسان اور جدید ترین استاد اور سیاستدان اس بات پر غور کرے کہ آپ نے علم و حکمت، حقوق و فرائض اور دیانت و شجاعت جیسے معاملات کو دوستی سے دشمنی تک میں اور امن سے صبر تک پھر داخلی امور سے خارجی امور تک کو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونے دیا۔
کیا آج کی قیادت قرآن و سنت کو مدنظر رکھے ہوئے ہے۔ کیا آئین کی دفعات 62 اور 63 کی پاسداری عزیز ہے؟
کیا او آئی سی (OIC) میں یہ فرمان نبوی مدنظر ہے کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت نہیں؟
کیا لیڈرشپ سے لے کر کارکنیت تک کو اس بات کا احساس ہے کہ قرآن کی چھوٹی سی سورة جو صرف تین آیات پر مشتمل ہے اُس میں رب کعبہ نے زمانے کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انسان خسارے میں ہے سوائے اُن لوگوں کے (1) جو ایمان لائے۔ -(2) جنہوں نے نیک عمل کا وطیرہ اپنایا۔ -(3) جو حق بات کی تلقین کرتے ہیں اور -(4) جو صبر کی بھی تلقین کرتے ہیں۔ ان چار باتوں میں بہت بڑا فارمولا اور کلیہ موجود ہے جو زندگی کو صراطِ مستقیم اور معاشرے کو متوازن رکھتا ہے۔ یہ ذات سے معاشرے تک میں قابل عمل فارمولا ہے۔ میرا نبی اس سورة کے سبھی صالح اور افضل عملوں کی تصویر اور تشریح ہے۔ تبھی تو محض اخلاق اور کردار سے فتح مکہ کی سی عجیب و غریب فتح تاریخ کا حصہ بنی جسے تاریخ دان اور ماہر سماجی علوم حیرت کی نگاہ سے معجزہ کی صورت میں دیکھتا ہے اور مفکر قرآن اور نبی کے مابین تعلقات و ارشادات و حرکات و سکنات کی ہم آہنگی دیکھ کر قرآن حکیم کو محمد کا معجزہ اور محمد کو انسانی تاریخ کا اکمل گرداننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مفکر کا مذہب چاہے کچھ بھی ہو۔
قارئین کرام! میں کم فہم ہوں ، کمزور ہوں اور کم علم بھی ، جہاں مجھے قرآنی باتیں عجیب لگنی شروع ہوتی ہیں اور رب کعبہ کی سمجھ عقل و دانش سے بالاتر ہونے لگتی ہے میں رسول اللہ کی طرف اور ان کی تعلیمات کی طرف رخ کرتا ہوں ۔ میں ہی نہیں ، ہم سب روز بھٹکتے ہیں اور روز گرتے ہیں لیکن تعلیمات رسول ہمیں اٹھان اور بناﺅ بخشتی ہے۔ والد ، بیٹا ، بھائی ، دوست ، شوہر ، سسر ، داماد ، عالم ، عام شہری ، استاد ، ڈاکٹر ، انجینئر ، ماہر اور انسان کیسا بننا ہے ان سب کی رہنمائی سیرت طیبہ میں موجود ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک کی مٹی کی پاسبانی کا فقدان کیوں آ گیا، حالانکہ خوش قسمت اور عظیم امت ہیں ہم ۔ ہمارا لیڈر سرے محل یا پانامہ میں کیسے پھنس گیا ؟ عادل کیوں پریشان ہے ؟ سپہ سالار کیوں مایوس ہے ۔ فلسطین میں خون مسلم کی نہریں کیوں ؟ کشمیر لہو لہو کیوں ؟ ہمارا آج گذشتہ کل سے بہتر کیوں نہیں ؟ مسیحا متحرک کیوں نہیں ؟ ادویہ دو نمبر کیوں ؟ یونیورسٹیوں کا عالمی رینکنگ میں مقام کیوں نہیں ؟ بیٹا خو سر کیوں ؟ بیٹی باغی کیوں ؟ باپ بے راہ روی کا شکار کیوں ؟ ان سب چیزوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہم نے نماز ، روزہ اور حج کو مقدم جانا بھی ہے تو حقوق العباد ، پڑوسی کے حقوق ، بطور لیڈر فرائض کو فراموش کر دیا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم نے بطور استاد اور طالبعلم تحقیق سے رشتہ توڑ لیا ۔ جو چیزیں محسن انسانیت اور نبی آخر الزماں نے سکھائیں جب ہم ان سے ہم منہ موڑ لیں گے ۔ احکامات کو نظر انداز کریں گے اور فرائض کو فراموش کریں گے تو پھر ایسی حالت میں بناﺅ کے بجائے بگاڑ ہی ہمارے آنگن میں بسیرا کرے گا ۔ کہیں دہشت گردی ہو گی اور کہیں خانہ جنگی اور کہیں مال و زر سے عشق میرا نبی محسن انسانیت تھا تو اس لئے کہ وہ امن پسند تھا ، جنگ و جدل میں عورتوں ، بچوں ، پھلدار درختوں کا خیال کرتا تھا ، معاف کرنے والا تھا اور پورے Ecosystem کو سمجھتا تھا ۔ میرا نبی پیغمبر امن تھا تو اس لئے کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار تھا ۔ یو این او کی انسانی حقوق کی تنظیمیں ، عالمی عدالت کے شعبے اور مالیاتی نظام کو سود سے پاک میرے نبی کے تناظر میں دیکھیں ، دیکھتے ہی دیکھتے گلوبل ولج جنت کا گہوارہ بن جائے گی ۔ محمود و ایاز کا فرق مٹا کر اور وسائل کی متوازن تقسیم عدل سے کریں کہیں دہشت گردی نہیں ملے گی ۔ میرے نبی نے کبھی چھپ کر وار کرنے ، انسانی حقوق بے جا بہانے اور غیر مسلموں سے بھی نا انصافی کی اجاتز نہیں دی ، غزوہ بدر ہو یا صلح حدیبیہ میرا نبی تو پیغمبر امن اور رحمتہ اللعالمین تھا ۔ اے لیڈر ذرا غور تو کر !!!!
اے نسیم سحر مدینے کی
تو ضمانت ہے میرے جینے کی
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38