آج عید میلاد النبی ہے ہر کلمہ گو نبی پاک سے اپنی حیثیت اور جذبے کے مطابق محبت کا اظہار کر رہا ہے ۔ گلیاں بازار عملے شہر آراستہ دکھائی دے رہے ہیں جگہ جگہ محافل میلاد منعقد ہو رہی ہیں ۔ نعت خوانی کا ذوق و شوق بڑھتا جا رہا ہے اچھے اچھے کھانے پکا کر تقسیم کئے جا رہے ہیں جن عشاق کو توفیق ملی ہے وہ عازمِ مدینہ ہوئے ہیں تا کہ اپنے آقا و مولیٰ کی ولادت کے موقع پر گنبد خضریٰ کی زیارت کر سکیں اور تسکین قلب حاصل کریں زیادہ تر عشاق کا وظیفہ درود پاک ہے جو جملہ امراض کا شافی علاج ہے ۔ نبی رحمت کی محبت کے حوالے سے جذبات کا اظہار قابل تحسین ہے لیکن ایک بات جو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ کتاب اللہ کا فہم ہے جو محبوب خدا پر نازل کی گئی دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں کتنی تعداد ہے جو قرآن پاک سے آشنا ہے کتنے پاکستانی ایسے ہیں جو قرآن پاک پڑھ سکتے ہیں اور پڑھتے ہیں افسوس کی بلکہ حد درجہ افسوس کی بات یہ ہے کہ کثیر تعداد میں مسلمان قرآن پڑھنے سے عاری ہیں انہوں نے یا ان کے والدین نے کوشش ہی نہیں کی کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن پاک کی تدریس کے لئے قریبی مساجد میں بھیجتے قرآن فہمی تو بہت دور کی بات ہے ناظرہ قرآن بھی نہ آتا ہو تو قرآن فہمی کیسے ممکن ہو سکتی ہے ؟ ہر گھر میں کتنے افراد قرآن آشنا ہیں اور اگر ہیں تو کتنے ہیں جو نماز فجر باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں اور ادائیگی نماز کے فوراً بعد تھوڑی سی تلاوت بھی کرتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو قرآن فہمی کے لئے اس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں اور کتنے مسلمان ایسے ہیں جو ترجمے سے آگے تفسیر کا بھی مطالعہ کرتے ہیں ۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت 78 ملاحظہ ہو ” بے شک نماز فجر کے قرآن میں فرشتوں کی حاضری ہوتی اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے“ کتنے مسلمان ہیں جو رات کے کچھ حصہ میں بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے نماز تہجد پڑھتے ہیں ۔ کتنے اہل ایمان ایسے ہیں جو اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ قرآن شفاءاور رحمت ہے ۔ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے استعانت کے ساتھ ساتھ شفاءکاملہ کے لئے قرآن سے استعانت طلب کیوں نہیں کرتے۔ انسانی جسم و جان پر آیات ، قرآن کے تاثرات و معجزات ملاحظہ کیوں نہیں کرتے؟ رسول کریم عرض کریں گے، اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا ۔ قرآن کی 6,666 آیات میں سے ہر آیت ایک وعظ اور ایک درس ہے ۔ اگر ہر روز ایک آیت کا فہم حاصل کرنے کی سعی کی جائے تو عمر بیت جائے گی فہم قرآن مکمل نہیں ہوگا ۔ قرآن اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ”والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اف“ بھی نہ کہو اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو“ کتنے کلمہ گو اس آیت کے مطابق والدین سے حسن سلوک کرتے ہیں ۔ کتنے ہیں جو یتیم کے مال کے قریب نہیں جاتے ؟ کتنے ہیں جو پیمانے اور ترازو کو انصاف کے ساتھ پورا کرتے ہیں ؟ کتنے ہیں جو اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ، بے ہودہ باتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں ، زکوٰة ادا کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں ۔ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ کتنے مسلمان ایسے ہیں جو رشتہ داروں ، یتیموں اور محتاجوں اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں ؟ کیا ہم سب نے مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے ؟ کیا ہمارے ہر محلے ، علاقے اور شہر میں لوگوں کی ایسی جماعت موجود ہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتی اور برائی سے روکتی ہے ۔ اہل ایمان صرف اسی آیت پر غور کر لیں کہ ، اے حبیب ! آپ فرما دیں ، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024