20جنوری کے سورج نے ایک بار پھر دہشت گردوں کو چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی کے نہتے طلبا پر اندھا دھند فائرنگ کرتے دیکھا۔ 20سے زیادہ شہداء اپنے خون میں نہا گئے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا وہ جدید تعلیم سے آراستہ ہو کر قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ حملہ آور 15سے 20سال کی عمر کے تھے۔ زخمی طلباء نے بتایا چاروں دہشت گرد پشتو بول رہے تھے۔ شہید ہونے والے بھی پشتو بولتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ چاروںدہشت گرد بھی مسلمان تھے اور تما م زخمی ہونے والے اور شہدا بھی کلمہ گو مسلمان تھے۔ ــــ"پشتو"اور اسلام موت کے سامنے ڈھال نہ بن سکے۔ دو طالبات کا شہید ہونا بھی پشتو کلچر کی صریحاََ خلاف ورزی ہے۔ کچھ سیاسی بیانات ِمذمت اور حسب معمول انکوائری کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس انکوائری کمیٹی کی تفتیش کی تان کہاں پہ آکے ٹوٹی ۔ ایک نامی گرامی ماہر تعلیم ڈاکٹر پروفیسر عبدالرحیم مروت کو وائس چانسلرکے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی گئی۔ لوکل انتظامیہ اور پولیس کے امن کے کبوتر سائرن بجاتی کاروں میں اڑانیں بھرتے نظر آتے ہیں۔یونیورسٹی میں گھسنا تو آخری عمل ہے۔ پاکستانی طالبان کی تنظیم برسرپیکار ہے۔ ان کا حدود اربعہ کیا ہے؟ انکے ذرائع نقل و حرکت کیا ہیں۔ فنڈ کہاں سے آتے ہیں۔ صرف حملے کے وقت انکے موبائل کے پیغامات پکڑے جاتے ہیں۔ پہلے ان کی بات چیت نہیں پکڑی جاتی۔ یہ شتر بے مہار کی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔ خوش گپیاں کرتے پولیس کے عمال ناکے لگائے عام شہریوں کی تلاشیاں لیتے برتری محسوس کرتے ہیں ۔دہشت گرد چارسدہ میں قیام کرتے ہیں کسی کو پتہ نہیں لگتا۔ یونیورسٹی کے اندر باہر کاسروے کرتے ہیں۔مد ہوش سول انتظامیہ یونیورسٹی پر حملے سے پہلے ان کو کیوںچیک نہ کر سکی۔ آرمی پبلک سکول پر حملے کے سیکیورٹی کے خلا کا کمشنر پشاور ڈویژن کیوں ذمہ دارقرار نہ دیا گیا۔ جو آج اس نام نہاد انکوائری کمیٹی میں بیٹھا باچاخان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کر رہا ہے۔جو خود آرمی پبلک سکول کے سانحے کیلئے جوابدہ ہے وہ باچا خان یونیورسٹی کے معاملے میں منصفی کرنے کا حق کیسے رکھ سکتا ہے۔کیاسول انتظامیہ ، سیکیورٹی کا سارابوجھ فوج پر ڈال کر سیکیورٹی سے عہدہ بر آ ہو چکی ہے۔اب سول انتظامیہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کو بند کرانے پر مجبور کرتی رہی وائس چانسلر کے انکار پر گریڈوں کیلئے لڑنے والی سول انتظامیہ نے یونیورسٹی کوکہا کہ اگر یونیورسٹی بند نہیں کرنی تو پولیس کے 50اہلکاروں کویونیورسٹی کی حفاظت کیلئے یونیورسٹی کے حوالے کیا جائے گاجن کی تنخواہ یونیورسٹی کے فنڈسے ادا کی جائے گی۔ یونیورسٹی نے مجبوراََ پولیس کی یہ شرط مان لی۔ سول انتظامیہ نے پروفیسر اور طلبا کو بھی کتابوں کے ساتھ ہتھیار لانے کی ہدائت کر دی ہے تاکہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکیں۔اور کبھی کبھی اِدھر اُدھر اسلحے سے آزادی کا اظہار بھی کر سکیں۔ صوبے کی پولیس اور سول انتظامیہ کی ہر جگہ شدید کوشش ہوتی ہے کہ تعلیمی ادارے بندکر دیئے جائیں تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو جائے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری نہ ہونگے ادارے اور نہ ان کے تحفظ کا پھڈا۔ یہاں یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ ریاست کے قیام کا بنیادی جواز سیکیورٹی کی فراہمی ہوتاہے۔ پشاور کے سکول اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات میں کچھ مشترکہ امور بھی ہیں۔ اول یہ کہ دونوں واقعات کی ذمہ داری طالبان پاکستان کے سربراہ عمر منصور نے قبول کی ہے۔ دوم دونوں واقعات میں مغربی تعلیم کوہدف بنایا گیا۔ البتہ دونوں اداروں کے عنوان دہشت گردی کے اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔آرمی پبلک سکول میں "آرمی"کا لفظ اہمیت کا حامل ہے اور اس میں آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کی چبھن چھپی ہوئی ہے۔ باچا خان یونیورسٹی میں "باچاخان "کا لفظ ایک شخص کا نام نہیں۔ ایک عدم تشدد کی سیکولر سوچ کا عنوان ہے۔ اس دن یونیورسٹی میں مشاعرہ بپا ہونا تھا جس کی تھیم یہی ترقی پسند قومی روایت ہی ہونی تھی۔
یہ الفاظ اور عنوان محض نشان ہیں در اصل مزاحمت اور مخاصمت کہیں گہری ہے۔ روایتی دینی مدارس میں طریقہ تعلیم ، جدید سکول و کالج سے بالکل مختلف ہے۔ ان کی اساس فقہ پر رکھی گئی۔ فقہی اختلافات صدیوں پر محیط ہیں۔ اتفاق رائے پیدا کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اِن مدارس کی مالی اعانت بھی مقامی اور خارجی ذرائع سے فقہ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اِن مدارس سے فارغ التحصیل طلباء جہاد اور خلافت کے دو ستونوں پر ایک عالمگیر فتح یابی کیلئے جدوجہد کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ طلباء ایک خاص فرقہ وارانہ نظم و فکر کے ساتھ اپنی ایک خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ اپنی علمی دستر س کو حتمی اور غیر متبدل سچائی مانتے ہیں بلکہ اپنی تفسیر کے علاوہ دوسری فقہی تشریحات کو باطل اور ناقابل برداشت گردانتے ہیں۔ حالانکہ تمام مو قرومعظم آئمہ کرام نے اپنی تفاسیر کو فرقہ یا مسلک نہیں مانا تھا۔اِن سربراہان علم و دانش نے اپنی تفسیری کا وشوں کو مزید علمی رہنمائی کیلئے ایک زینہ تجویز کیا۔ یہ تمام آئمہ گرامی باہمی بحث و تمحیص میں یقین رکھتے تھے اور اپنے فکری نتائج پر کہیں آپس میں اختلاف کرتے تو کہیں اتفاق۔ آئمہ کا یہ اختلافی اشتراک نہ ذاتی تھا نہ مکمل جداگانہ۔ ان کے فتاویٰ آہنی شکنجے نہ تھے بلکہ ان کی دیانت و خلوص کا انعکاس تھے۔تمام آئمہ کرام کے ادراک اوروجدان کو توحید ورسالت اور وحدتِ امہ سے متصل رکھنا ضروری تھا۔ اجتہادی شعور کے ساتھ انہوں نے اسلام کی سچائی کو راستہ دیا کہ وہ دورِآخریں تک انسانیت کی رہنمائی کر سکے۔ بدلتے ہوئے سماج کو بنیادی حقائق سے وابستہ رکھنے کیلئے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھنا ہو گا۔ اجتہاد واجماع کا راستہ روکنازندگی کو جامد کرنے کے مترادف ہے۔ اجتہاد کے عمل میںتسلسل نہ ہونے سے فرقہ واریت پیدا ہوتی۔…؎
آئیں نو سے ڈرنا، طرز کہیں پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ہمارے ملک میں دو نظام ہائے تعلیم مروجہ ہیں۔ اہل مشرق کا مذمتی انداز میں جدید تعلیم کو مغربی تعلیم کہہ کر جدید تعلیم سے دستبرداری کا اعلان کرنا پسپائی ہے۔ حالانکہ تاریخ کہتی ہے کہ علم اور جہالت پر کسی کو اجارہ داری حاصل نہیں رہتی ہر ایک کے ادوار آپس میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ مستقبل کی دنیا سائنس کی دنیا ہے۔ سائنس ناگزیر ہے۔آج کی دنیا میں سائنس کے بغیر اپنا وجود قائم رکھناممکن نہیں۔ دینی مدارس اصرار کرتے رہے ہیںکہ یہ دنیا عارضی پڑائو ہے حقیقی اور مستقل دنیا حیات بعداز موت ہے۔گو کہ حیات بعد از موت ازلی ابدی سچائی ہے مگر اس دنیا کی مکمل نفی کرنا اور اس تنسیخ کی تبلیغ کرنا رہبانیت کی طرف لے کر جاتا ہے جس کی قرآن نے منظوری نہیں دی۔ موجودہ دنیا دوسری دنیا کی کھیتی ہے۔ ان دونوں نظریات کے درمیان سمجھوتہ ہو سکتا تھا مگرایک منصوبہ بندی کے تحت دونوں تعلیمی نظاموں کا تضاد اور تفاوت قائم رکھا گیا کسی ممکنہ فطری سنگم کا قیام بعیداز قیاس سمجھ لیا گیا ہے۔ تعلیمی نظام ، نظام حیات کا پر تو ہے۔ مایوس غریب طبقے کیلئے دینی مدارس آخری امید ہیں جبکہ جدید تعلیم ناقابل رسائی ہے۔ دوسری جانب حکمران ٹولہ کے بچے کبھی دینی مدارس میں پڑھتے نہیں دیکھے جاتے۔ ان کے نصاب جداگانہ۔ تعلیمی مقاصد جدا۔ دونوں طلباء اور طالبان کی نفسیات جدا۔پوری قوم کی سانجھ شراکت سے ترقی کے مساوی امکانات حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے مگر جہاں طبقاتی تقسیم پر تعلیم کا انحصار ہو گا وہاں بچوںکی آرزئوں اور خوابوں کی بنت میں زمین آسمان کا فرق ہو گا۔ ایک درسگاہ موجودہ زندگی کو نفی کر رہی ہو کیونکہ اس زندگی میں بچے کیلئے نہ کوئی امید ہے نہ کوئی وعدہ۔ بس قناعت کا سبق اور درس ِاستغناء کے علاوہ اس کے دریدہ دامن میں کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے مدرسے کا بچہ حیات بعد از موت کی خوشخبری کا تعاقب کرنے لگتا ہے۔ ایسا محروم و بے بس بچہ جب اچانک دوسروں کو بے بس کر دینے کی صلاحیت حاصل کر لے تووہ ایک عجیب احساس برتری کے ساتھ طاقت کا جارحانہ استعمال کر کے خوشی حاصل کریگا۔دوسری جانب اجلے کپڑے پہنے شاندار کار میں قالینوں والے سکول میں آنے والا قوم کا لاڈلا بچہ، سائنٹفک سوچ سے مسلح ہو کر یقینی طور پر کامیاب ہونا سیکھ رہا ہوتا ہے۔اسے ایسا لگتا ہے جیسے پوری قوم اس کی خواہشات کی تکمیل کیلئے دست بستہ حاضر کھڑی ہے۔ ان دونوں کی نفسیات یقینا مختلف ہو گی۔ واضح تعلیمی منصوبہ بندی کے ذریعے دینی اور سائنسی تعلیم کو دو متصادم گروہوں میں تقسیم کرنا کس قدر ظالمانہ فعل ہے۔حالانکہ اسلام دین اور دنیا کی تقسیم کا سخت مخالف ہے۔ سائنس کی ہر دریافت اور ایجاد اس خالق حقیقی کی محیرالعقول صناعی کی تشریح کرتی ہے۔ لمحہ بہ لمحہ وسعت پذیر کائنات اگر کُن کے محیط حکم کی تعمیل میں مصروف کا ر ہے تو سائنس متحیربچے کی طرح کُن کا پیچھا کرتی ہے اور خالق عظیم کی ذات کبر یائی کا تعارف کراتی ہے۔ (جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024