چین کی برق رفتار ترقی سے عالمی ساہوکار، امریکہ اور اس کے بغل بچے انگاروں پر لوٹ ر ہے ہیں۔ نت نئی چالیں اور ہرآن نئے مہرے لائے جا رہے ہیں۔ چین کو جنگ میں الجھا کر وَن بیلٹ، وَن روڈ منصوبے کو زنجیر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ طے شدہ سرحدی معاملات پر چھیڑ چھاڑ محض بھارتی مکار ذہن کی تخلیق نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کا شاخسانہ ہے جس کی کڑیاں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں اور آتی جائیں گی۔ ڈونگ لینگ، چین کے خود مختار علاقے کا کا حصہ ہے۔ مغرب میں بھارت کی سرحدی ریاست سکم جنوب میں بھوٹان ہے۔
1890ء میں چین کے شہنشاہ شینگ تائی اورملکہ برطانیہ کے درمیان دوطرفہ دوستانہ تعلقات کا تبت اور سکم کے بارے میں معاہدہ دوستی پر دستخط ہوئے جس کے تحت تبت اور سکم کے علاقوں کے درمیان حد بندی ہوئی تھی۔17 مارچ 1890ء کو کلکتہ میں اس کنونشن پر دستخط ہوئے جبکہ17 اگست1890ء کو لندن میں اس کی توثیق ہوئی تھی۔ ڈونگ لینگ بلاشک وشبہ چین کا علاقہ تسلیم کیا گیا اور طویل عرصہ سے چینی فوج اس علاقہ میں موجود ہے جبکہ چینی چرواہے اپنے مال مویشی اس جگہ چراتے چلے آرہے ہیں۔ 16 جون 2017 سے چین نے ڈونگ لینگ کے علاقے میں شاہراہ کی تعمیر کا آغاز کیا۔18 جون کو 270 سے زائد بھارتی فوجی کیل کانٹے سے لیس دو بلڈوزرلئے سکیم سیکٹر میں دَرّہ ڈو۔ کا۔ لا پار کرکے چینی علاقے میں آگئے اور شاہراہ کی تعمیر میں مداخلت کی جس سے علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ بلڈوزرز اور چار سو سے زائد فوجیوں کے علاوہ چینی علاقے کے 180 میٹر اندر ’’ گُھس بیٹھنے ‘‘ کے بعد تین خیمے بھی نصب کردئیے گئے۔
جولائی کے آخر تک 40 بھارتی فوجی اورایک بلڈوزر غیرقانونی طور پر اسی چینی علاقے میں موجود تھے۔ مداخلت کی اس کارروائی کے بعد چین کے سرحدی محافظ حرکت میں آ گئے اور ہنگامی تادیبی اقدامات کا آغاز ہوگیا۔
19جون کو چین نے سفارتی ذرائع سے بھارتی مداخلت پر شدید احتجاج اور غیرقانونی طور پر سرحد عبورکرنے کی مذمت کی۔ علاقے میں بھارتی حدود کی واضح نشاندہی پر مبنی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے بھارتی فوجیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے چین کی وزارت خارجہ، وزارت دفاع کے علاوہ نئی دہلی میں چین کے سفارت خانے اور بیجنگ میں بھارتی سفارت خانے کے ذریعے بھارتی حکومت کو صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے اپنا سنجیدہ کردار ادا کیا۔ چین کی جانب سے بارہا بھارت کو خبردار کیاگیا کہ وہ چین کی سرحد اور خودمختاری کا احترام کرے۔ خارجہ اور دفاع کے چینی ترجمانوں نے متعدد مرتبہ عوامی سطح پر اپنا موقف پوری سچائی اور حقائق کے ساتھ واضح کیا اور اس کے ساتھ نقشہ اور بھارتی فوج کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں کے ثبوت کے طورپر تصاویر بھی جاری کیں۔
بھارت اور چین کے درمیان 1890ء میں ہونیوالے کنونشن کے پہلے آرٹیکل میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ’’تبت اور سکم کی سرحد پہاڑی سلسلے کی چوٹی سے ہوگی جہاں سکم کے دریائے تستہ اور اس کے منسلکہ آبی شاہراہیں تبت موکو اور شمالی سمت تبت کے دیگر دریائوں کی جانب بہتے ہوئے اسے منقسم کرتے ہیں۔
بھوٹان کی سرحد پر دریائے گموچی سے شروع ہونے والی آبنائے لکیر مذکورہ آبی بہائوکے ساتھ چلتی ہوئی اس مقام پر اسے جُدا کرتی ہے جہاں یہ نیپال کی حد سے مل جاتا ہے۔‘‘ کوہ گموچی اب جی۔مو۔ما۔ڑھن پہاڑ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ کنونشن پوری طرح سے اس سرحدی تفریق کو بیان کردیتا ہے۔ زمینی ساخت کے اعتبار سے بھی سرحد کی نشاندہی میں کسی قسم کا کوئی ابہام موجود نہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کے قیام اور بھارت کی آزادی کے بعد دونوں ممالک نے 1890 کے سکم سیکٹر پر سرحدی تقسیم کے کنونشن کو اپنا لیا تھا جس کا بین ثبوت بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کا چینی ہم منصب چواِن لائی کے نام لکھے گئے خطوط اور سرحدی انتظام کے بارے میں چین بھارت نمائندوں کے خصوصی مذاکرات کے دوران بھارت کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات ہیں۔ عالمی ضابطوں کے مطابق کنونشن کے تحت جب کسی سرحد کا ایک بار تعین ہوجائے تو پھر اسے بین الاقوامی قانون کا تحفظ حاصل ہوجاتا ہے جس کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔
18 جون سے بھارت کی جانب سے چین کی خودمختاری اور تمام عالمی اور دوطرفہ ضابطوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کوئی روایتی سرحدی جھڑپ نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے دلائل تراشنے کا سلسلہ جاری ہے جن کا زمینی حقائق یا قانون وضابطے سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ چین قانون کے تحت اپنے علاقے میں اپنے عوام اور نقل وحمل میں سہولت کے لئے شاہراہ کی تعمیر چاہتا ہے جو کسی بھی ملک کا جائز حق ہے۔
دوسری جانب بھارت نے ڈو۔کا۔لا دَرّے کے علاقے میں بڑی تعداد میں تعمیرات کی ہیں اور پختہ بنیادوں پر عسکری مقاصد کی حامل ایسی عمارات بنائی ہیں جس سے اس کی فوجی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے خلاف چین کی جانب سے احتجاج کیاگیا اور بھارتی فوج کی جانب سے چینی علاقے میں ایسی تعمیرات کو گرانے اور ختم کرنے کا قانونی حق استعمال کیا۔ بھارت کی جانب سے مسلسل یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی بھی حربے کو بروئے کار لاتے ہوئے علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کیا جائے، وہاں موجود چین بھارت سرحدی امن کو تاراج کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہو جسے چین اپنے لئے ایک سنگین خطرے کے طور پر لے رہا ہے۔ یہاں ایک دلچسپ پہلو اس مثلث کا حوالہ بھی ہے جس کا سکم کے اس سیکٹر میں پیدا ہونے والے تنازعے سے تعلق نہیں۔
یہ بھارت، بھوٹان اور چین کے درمیان سرحدی لکیر سے کھنچنے والی مثلث ہے۔ جسے بھارت چالاک اور عیار ذہن بھوٹان اور چین میں کشمکش کا رنگ دے کر خود کو ثالث کے بھیس میں پیش کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ بھارتی عیاری کا رنگ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد دُھل جاتا ہے کہ کوہ ڑی۔مو۔مَا۔ڑھن سے دوہزار میڑ کے فاصلے پر سکم سیکٹر میں بھارت کی جانب سے چینی سرحد کی خلاف ورزی ہوئی جس کا اس ’ٹرائی جنکشن‘ سے کوئی واسطہ نہیں جس سے بھارتی عیاراِسے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔
چین اور بھوٹان کے درمیان سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لئے 1980ء سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک مذاکرات کے چوبیس دور ہوچکے ہیں جس میں عمومی اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ اگرچہ ابھی حدبندی کا باضابطہ عمل ہونا باقی ہے تاہم دونوں اطراف نے مشترکہ بنیادوں پر سروے مکمل کرلئے ہیں اور سرحد کی حقیقی نشاندہی سے متعلق عمومی اتفاق رائے پیدا کرلیا ہے۔ یہ معاملہ چین اور بھوٹان کے درمیان ہے جس سے بھارت کا کچھ لینا دینا نہیں اور وہ بھوٹان کی طرف سے ’’تو کون'میں خوامخواہ‘‘ کی عملی مثال بن کر ’’مامائے عظمت‘‘ بننے کی تگ ودو میں ہے۔
حالانکہ چین اور بھوٹان کے درمیان سرحد پر دوطرفہ کوششوں سے امن وآشتی قائم ہے۔ اپنی دکان بند ہونے کے غم میں پریشان عالمی سود خور کسی بھی حد تک جانے کو آمادہ ہیں۔ سازشوں میں ید طولی رکھنے والے زہر میں بجھے کون کون سے تیرآنے والے دنوں میں اس خطے میں پھینکیں گے، اس بارے میں توآنے والا وقت ہی بہتر بتائے گا۔
لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی تعاون اور ہم آہنگی سب سے اہم تقاضا ہے جو بدقسمتی سے اس وقت پورا ہونے کے بجائے ایک نئی سیاسی بساط کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی اور قومی مفادات کے ’’سکم سیکٹر‘‘ میں ایک طرف چین کے دوست ہیں تو دوسری جانب بھارت کے غمخوار کھڑے ہیں حرفِ آخر یہ کہ جناب نواز شریف کی عدالتی بر طرفی ایک لایعنی اور بے اساس دعویٰ تواتر سے کیا جا رہا ہے کہ کسی منتخب وزیراعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ یہ سفید جھوٹ ڈھٹائی اور اس تواتر سے بولا جارہا ہے جس کا شکار جناب نواز شریف جیسا نرم و گرم چشیدہ سیاستدان بھی ہو چکا ہے ۔
حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں بھٹو مرحوم نے 1970 میں انتخاب جیتا 20 دسمبر 1971 کو اقتدار سنبھالا اور 6سال بعد مارچ 1977 میں عام انتخابات کروائے جن میں نہایت ڈھٹائی سے دھاندلی کی' ووٹ کی حرمت کو پامال کیا خود بلا مقابلہ منتخب ہوا چاروں وزرا اعلیٰ بھی پیچھے نہ رہے جاہل جمہوریت پسند اور روشن خیال اس کا ڈھول بجائے جا رہے ہیں ہے کوئی جو ان کور چشموں کو روشن حقائق دکھاسکے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024