ہم ہر سال صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالے تشدد کے خلاف جدوجہد کی سولہ روزہ مہم کا اہتمام کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 1999ء میں متعارف کرائی گئی یہ مہم دنیا بھر میں حکومتوں، اداروں اور لوگوں کو صنفی بنیاد پر ہونے والے ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کی ہنگامی ضرورت کی جانب متوجہ کرنے اور اِس سمت میں پیش رفت کرنے کیلئے ایک عالمی پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔
دنیا بھر میں صنفی بنیاد پر روا رکھا جانے والا تشدد نسلی، سماجی ،معاشی اور مذہبی بنیادوں سے ماوریٰ ہے۔ یہ بشمول پاکستان اور امریکہ ہر ملک میں ہوتا ہے۔ کرہ ارض پر ہر تین میں سے ایک عورت کو مار پیٹ، جبری جنسی تعلق یا زندگی میں دیگر بدسلوکیوں کا سامنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں کم از کم تیس فیصد عورتوں کو اپنے قرابت داروں کے ہاتھوں اِس طرح کے تشدد کا سامنا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2016ء اور 2017ء میں قتل، مجرمانہ حملوں، گھریلو تشدد اور اغوا سمیت عورتوں اور لڑکیوں کیخلاف تشدد کے تقریباً تین ہزار واقعات سامنے آئے۔
ہیومن رائٹس واچ کیمطابق معذور عورتوں اور لڑکیوں کو جسمانی او رجنسی تشدد کادو سے تین گنا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں گھر یا اسکول میں جنسی تشدد جیسے دیگر نوعیت کے خطرات کا سامنا کرتی ہیں ،جبکہ انہیں ختنے اور کم عمری کی شادی ایسے ضرررساں رسم ورواج کی بھینٹ بھی چڑھنا پڑتا ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں ہر نو میں سے ایک لڑکی پندرہ سال کی عمر تک بیاہ دی جاتی ہے اور ہر سال تیس لاکھ سے زائد لڑکیوں کو ختنوں کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔
صنفی بنیاد پر روا رکھا جانے والا تشدد مردوں اور لڑکوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ مرد اور لڑکے بھی تشدد سے بلاواسطہ یا تشدد کے دائرے کے تحت بالواسطہ طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ صنفی بنیاد پر روا رکھے جانے والے تشدد کے انسداد پر بات چیت میں اور اٹھائے جانیوالے اقدامات میں مردوں اور لڑکوں کی شمولیت بھی بہت ضروری ہے۔
صنفی بنیاد پر کیا جانیوالا تشدد صرف عورتوں اور لڑکیوں کو ہی متاثر نہیں کرتا بلکہ اس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس سے صحت عامہ، انصاف، معیشت اور بین الاقوامی سلامتی کیلئے کی جانیوالی پیش رفت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صنفی بنیاد پر تشدد محفوظ جنسی طریقوں کے متعلق گفت و شنید ، ایچ آئی وی ظاہر کرنے اور ردعمل کے خوف کی وجہ سے علا ج معالجے تک رسائی کی صلاحیت کو محدود کرکے ایچ آئی وی، ایڈز پھیلانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالے تشدد کی معاشی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ عالمی بینک نے ایک حالیہ جائزے میں بتایا ہے کہ بیشتر ملکوں کیلئے اہل خانہ کے تشدد کا خمیازہ جی ڈی پی کے 1.2سے 3.7 فیصد تک ہوسکتاہے، جو اس رقم کے برابر ہے جو کئی حکومتیں پرائمری تعلیم پر خرچ کرتی ہیں۔اس عالمگیر مسئلہ کے حل کیلئے ہم سب کو سرگرم عمل ہونا ہے۔ ہم معاشرے میں سب پر زوردیتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں بین الاقوامی برادری، حکومتوں، نجی شعبے کی کمپنیوں اور صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کیلئے نچلی سطح پر سرگرم شخصیات کے ساتھ تعاون کریں۔
صنفی بنیاد پر روا رکھے جانے والے تشدد کے انسداد کیلئے نہ صرف ترقی ضروری ہے،بلکہ تشدد کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کیلئے قانون کا بھی نفاذ کیا جائے۔ متعدد ملکوں نے صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالے تشدد کے خاتمہ کیلئے قوانین بنائے ہیں۔ اس سلسلے میں اگلا قدم ان قوانین کا نفاذ ہے تاکہ احتساب کا عمل بڑھایا جا سکے اور سزا سے بچے رہنے کا سدباب کیا جا سکے۔ امریکہ صنفی مساوات ، خواتین اور لڑکیوںکوبااختیاربنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کے بنیاد ی ستون کے طور پر فروغ دیتا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ صنفی بنیاد پر روا رکھاجانے والاتشدد معاشرے کے افراد بالخصوص عورتوں اور لڑکیوں کی معاشی ، سیاسی اور سماجی طور پر اپنے خاندانوں، معاشروں اور قوموں کیلئے اپنا کردار اداکرنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ امریکہ نے ملک کے اندر اور حکومتی اداروں میں تشدد کے سدباب اور اس سے نمٹنے اور دیگر حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبہ کے ساتھ شراکت کو اپنی اعلیٰ ترجیح بنایا ہے۔ امریکی حکومت کے دو اقدامات اس سلسلے میں ہماری کوششوں کی مثال پیش کرتے ہیں۔ امریکی حکومت کا اقدام "سیف فرام دی اسٹارٹ" (شروع سے ہی محفوظ) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی انسانی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کا اقدام صنفی تشدد کے سدباب کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ "دی وائسز اگینسٹ وائلنس : دی جینڈر بیسڈ وائلنس گلوبل انی شیٹو" (تشدد کیخلاف آوازیں: صنفی بنیادوں پر تشددکے خلاف عالمی اقدام)صنفی بنیادوں پر شدید تشدد کے شکار متاثرین کو فوری طور پر سیکورٹی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے فوری مدد فراہم کرتا ہے اور اسکے ساتھ صنف یا صنفی شناخت کی بنیاد پر ممکنہ حملے کے خطرہ کی صورت میں بھی افراد کی اعانت کرتا ہے۔
ہم عالمی سطح پر شراکت داروں کیساتھ مل کر "ٹوگیدرفار گرلز" ایسے پروگراموں پر کام کرتے ہیں جوبچوں پر تشدد ،بالخصوص بچیوں پر جنسی تشدد کے خاتمہ کیلئے وقف ہے۔ ہم عورتوں اور لڑکیوں بشمول مقامی عورتوں اور لڑکیوں پرتشدد کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ کی کاوشوں میں بھی معاونت کررہے ہیں۔ اسکے علاوہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ پناہ گزین عورتیں اور لڑکیاں محفوظ ہوں اور اْن کو تعلیم تک رسائی ہو۔پاکستان میں امریکی سفارتخانہ نے اس سال صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالے تشدد کیخلاف سولہ روزہ مہم کے دوران وسیع پیمانے پر سرگرمیوں اور تقاریب کے انعقاد کے لئے تعاون کیا۔
اسلام آباد میں ہم نے عورتوں کے حقوق سے متعلق ایک فلمی میلے کا انعقاد کیا ،جس میں مشہور ڈرامہ "بول" کی نمائش کی گئی۔ کراچی میں ہم نے انسانی حقوق سے متعلق دو گول میز مباحثے منعقد کئے ،جن میں سے ایک میں انسانی حقوق کے علمبرداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دیہات میں صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالے تشددکے مسئلہ پر غور کیا۔ پاکستان امریکہ تبادلہ پروگراموں کے سابق شرکاء کی تنظیم کی لاہور شاخ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر "مجھے جینے دو" کے نام سے ایک مہم شروع کی ،جس میں تنظیم کے ارکان کے علاوہ، مشہور فنکاروں، سرکاری حکام اور کاروباری شخصیات نے اپنے ویڈیو اور تصویری پیغامات میں صنفی بنیاد پر روا رکھے جانے والے تشدد کے خاتمے کیلئے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو مل جل کر کام کرنے پر زور دیا۔ پشاور میں ہم مقامی اشتراک کِاروں کے ساتھ مل کر مردسماجی رہنماؤں، اساتذہ، نوجوانوں اور خیبر پختونخوا اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں سے رابطے کررہے ہیں ، تاکہ صنفی بنیادوں پر تشدد کے خاتمے کی اہمیت اجاگر کریں اور وہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے علمبردار کے طور پر سامنے آئیں۔ امریکی مالی اعانت سے پاکستان میں چلنے والے پروگرام کے تحت صنفی بنیاد پر تشدد کے 75000 متاثرین کو ان کی صحت عامہ، سماجی، سلامتی اور قانونی ضروریات پوری کرنے کیلئے انہیں خدمات فراہم کرنے والوں کیساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ اس اعانت میں متاثرین اور انکے خاندانوں کو فراہم کی جانے والی ہنگامی مالی اعانت بھی شامل ہے۔ یہ متاثرہ افراد اکثر مالی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ہم پاکستان اور انسانی حقوق کا خیال کرنیوالے تمام افراد پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس برائی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اسکے خاتمہ کیلئے اسی قسم کے اقدامات اٹھائیں۔معاشرے میں صنفی بنیاد پر روا رکھے جانیوالا تشدد کی، چاہے وہ ہمارے گھروں، پڑوس یا سرحد پارہو، کوئی جگہ نہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024