ختم نبوت انتہائی حساس اور جذباتی مسئلہ ہے جس میں معمولی سی بے احتیاطی یا غلطی دنیا اور آخرت کو برباد کر سکتی ہے یہ تو
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
والا معاملہ ہے جس پر سیاست گری کا کھیل کھیلنے کا کوئی کلمہ گو تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابی اصلاحات کے آئینی بل کے مسودے کا کام اقتدار کے ایوانوں میں گذشتہ برس 2016 کے اوائل سے مکمل رازداری سے جاری تھا۔
جومسودہ قانون سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر ممنون حسین کی رسمی منظوری کے بعد قانون بن کر لاگو بھی ہو گیا۔ ایوان صدر کی لا برانچ درجنوں افسروں اور اہل کاروں پر مشتمل ہے انہیں بھی یہ مسودہ بغور پڑھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کوئی صاحب ایمان اس طرح کی جسارت کر سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے قانون پر کاری وار کرنے کےلئے مسودہ قانون پر مکمل رازداری سے کام جاری رہا درجنوں آئینی اور دستوری علوم پر کامل دسترس رکھنے والےشہ دماغ بروئے کار رہے اور انہوں نے ایسی معصومانہ زبان میں ترامیم تجویز کیں کہ جن میں چھپی بارودی سرنگوں اور ان کے محرکات و عوامل کا پتہ چلانا عملًا ناممکن تھا۔
ان شاطرشہ دماغوں کی توقعات کے عین مطابق ان کا مسودہ قانون یکے بعد دیگرے قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہو گیا کسی کو کچھ پتہ نہ چلا' کانوں کان خبر تک نہ ہوئی کہ کس ہوشیاری سے نقب زنی کر کے عقیدہ ختم نبوت کو پامال کر کے رکھ دیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب صدر میاں نواز شریف نے وفاقی حکومت کو حکم اور میاں شہباز شریف نے مشورہ دیا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات بل کے ذریعے کاغذات نامزدگی میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے بیان حلفی کے خاتمے کی ترمیم واپس لے۔ حیرانی مگر اس بات پر ہے کہ اگر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد‘ جمعیت اہلحدیث کے سربراہ علامہ ساجد میر اور جمعیت علماءاسلام کے رہنما مولانا امیر زمان کے علاوہ گزشتہ رات تک الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر وضاحتیں دینے والے مسلم لیگی اکابر کے بقول انتخابی اصلاحات بل میں کوئی قابل اعتراض شق تھی ہی نہیں اور حکومت نے جو کیا سب درست تھا تو پھر میاں نواز شریف کی ہدایت کا کیا مطلب؟ قوم کو بے وقوف بنانے اور امریکہ و یورپ کے علاوہ ملک کی ایک طاقتور‘ بااثر اور حکمران جماعت میں بارسوخ اقلیت کو خوش کرنے کی تدبیر ناکام رہی تو یوٹرن لے لیا۔
1990ءکے عشرے میں ایک بار آئین میں دوسری اور متفقہ ترمیم کے خاتمے کی بات میاں صاحب کے ایک مشیر نے چھیڑی تھی اور کہا تھا کہ اگر ہم یہ کر گزریں تو ہمارے قرضے معاف ہو سکتے ہیں مگر راجہ ظفر الحق ڈٹ گئے اور انہوں نے کہا کہ اس بارے میں سوچنا خودکشی ہو گی۔ میاں نواز شریف نے بقول راجہ صاحب ان کے موقف کی تائید کی اور مشیر گرامی کو چپ کرا دیا۔ بعض واقفان حال کا اصرار ہے کہ تجویز میاں صاحب کی تھی مخالفت راجہ صاحب نے کی واللہ اعلم بالصواب۔
میاں نواز شریف کی شہرت پابند صوم و صلوٰة شخص کی ہے۔ جاتی ا±مرا میں میلاد کی محفلیں برپا ہوتی ہیں اور 2000میں جب انہوں نے رضا کارانہ جلا وطنی اختیار کی تو اسے حضور اکرم کے بلاوے سے تعبیر کیا ۔
آصف علی زرداری نے کبھی ایسے لوگوں کو قریب نہیں پھٹکنے دیا جو انہیں آئین کی اسلامی شقوں اور قوم کے جذبات و احساسات سے چھیڑ چھاڑ کی ترغیب دے سکیں۔ پتھروں کو باندھنے کا رواج آخر مسلم لیگ ن کے دور حکمرانی میں کیوں فروغ پاتا ہے؟۔
افسوس وفاقی کابینہ اور مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ان اصحاب جبہ و دستار ارکان پر ہے جن کا نان نفقہ ذکر رسول کے طفیل چلتا ہے۔ کیا وہ اس قدر لاعلم اور ناواقف ہیں کہ انہیں تحفظ ختم نبوت کے قانون میں نقب زنی کا پتہ ہی نہ چلا‘ اقتدار کی ہوس اور اہل اقتدار کی قربت میں وہ اپنے منصبی تقاضے بھول گئے۔
پیر امین الحسنات شاہ‘ علامہ ساجد میر‘ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم‘ مولانا فضل الرحمن‘ مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر شیوخ ایوان میں بولے نہ شیخ رشید کے شور مچانے کے بعد باہر آ کر کسی نے لب کشائی کی زحمت گوارا کی۔ جب میاں نواز شریف کا بیان شائع ہوا کہ ترمیم واپس لی جائے تو مولانا فضل الرحمن کی دینی حمیت بھی جاگ اٹھی اور کئی دوسروں کی زبان پر پڑے تالے بھی کھل گئے۔ جس کلمہ گو کو ایک بار بیت اللہ شریف میں طواف اور روضہ رسول پر حاضری کا اعزاز ملے‘ اس کے جذبہ ایمانی‘ حب رسول میں اضافہ دیدنی ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف ساڑھے سات سال تک حجاز مقدس میں مقیم رہے اور سینکڑوں نہیں تو درجنوں بار انہیں یہ سعادت ملی۔ پاکستان واپسی کے بعد وہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بالعموم حرم نبوی میں گزارتے ہیں مگر اپنے اردگرد موصوف نے ایسے ہیرے جواہرات اکٹھے کر لئے ہیں جو انہیں بار بار کعبہ سے منہ موڑ کر کلیسا سے تعلق جوڑنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اب راسخ العقیدہ مسلمان کے بجائے فخریہ لبرل قرار دیتے اور بھارت میں ہزاروں بتوں کے پجاریوں کو اپنا ایسا بھائی سمجھتے ہیں جو ان کی طرح آلو گوشت کھاتے اور ایک ہی بولی بولتے ہیں‘ بس ہلکی سی لکیر درمیان میں حائل ہے۔ حالیہ واردات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جو میاں صاحب اور ان کے قریبی مشیروں کے علم میں لائے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر شیخ رشید شور نہ مچاتے اور ٹی وی چینل عوام کو پرانے فارم اور نئے فارم کا عکس نہ دکھاتے اور اپنا صحافتی فرض ادا نہ کرتے تو انتخابی اصلاحات کی آڑ میں حکومت مکروہ واردات کر گزری تھی۔
اس فریب کاری کے بعد حوصلے مزید بڑھتے اور نشانہ آئین کی وہ اسلامی شقیں ہوتیں جن پر مغرب سیخ پا ہے اور ان کے پاکستانی پیرو کار مسلسل تبدیلی کے لئے کوشاں۔ نواز شریف کی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے اور صادق و امین کی آئینی شق کو عملاً غیر مو¿ثر کرنے کی کارروائی کا تیس سے زائد ارکان قومی اسمبلی نے بائیکاٹ کیا‘ ان کے ضمیر نے گوارا نہ کیا اور ان میں سے بعض رات بھر جاگتے رہے۔ مگر علما و مشائخ کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی۔ ایمان کے تقاضوںکے تحت اور رسول کی خوشنودی کے لئے نہیں‘ میاں نواز شریف کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت الیکشن قوانین کی شق بحال کر دے گی۔ اپنا تھوکا چاٹنے کی یہ حرکت بھی معیوب نہیں مستحسن ہے مگر کیا اپنی نیک نیتی کا ثبوت دینے کے لئے حکومت اور شریف خاندان اس قانونی ٹیم کی برطرفی پر آمادہ ہے جس نے باریک واردات کی؟ کم از کم زاہد حامد اور وزارت قانون کے سیکرٹری کی برطرفی‘ کون اس بات پر یقین کرے گا کہ یہ کسی فرد واحد کی غلطی اور نادانستہ حرکت ہے۔
اپنی نااہلی پر اس قدر حساسیت کہ پورا ملک سر پر اٹھا رکھا ہے‘ عدالت عظمیٰ پر چڑھ دوڑے ہیں اور قصر ختم نبوت میں نقب زنی‘ کروڑوں عاشقان رسول کی دل آزاری پر ذمہ داروں کی سرزنش سے بھی گریز؟ لاہور کنونشن میں میاں شہباز شریف نے ذکر کیا مگر نواز شریف نے اس حساس معاملے پر لب کشائی کی نہ کروڑوں عاشقان رسول سے معذرت۔ معلوم نہیں روز محشر اپنے رسول شفیع المذنبین رحمت للعالمین کو کیا منہ دکھائیں گے۔
ٹھوکریں کھاتے پھرو گے ان کے در پر پڑ رہو
قافلہ تو اے رضا! اوّل گیا‘ آخر گیا"
(جاری)