صرف 60 سال کی عمر پر عروج و کمال 9 نومبر 1877ء سے 21 اپریل 1938ء تک کی کہانی، سچی اور پکی کہانی میں علم و ادب کی ایسی شاہراہ پر گامزن رہے کہ نہ صرف فلسفہ کی منزل پائی بلکہ تعلیم، خودی، خداشناسی، ارتقائ، جغرافیہ، انسانیات اور شعرو سخن کی وہ قربتیں وہ رفاقتیں پائیں کہ ادبی دنیا کے علاوہ تحریکی، تاریخی اور سیاسی قیادت کا بھی شرف پایا۔ وہ شخص جو اقبال کا نام ہی نہیں حقیقی اقبال بھی رکھتا ہے اور یہی حقیقی اقبال اپنی ذات کے اندر غور و فکر کے لئے ایک اقبالیات چھوڑ گیا۔ اقبال وہ محقق تھا جو صرف انسانی بستیوں ہی کا باسی نہیں تھا بلکہ پورے سسٹم اور ایکوسسٹم میں بسیرا رکھتا تھا۔ یہ ایکوسسٹم حیاتیاتی علوم کا پورا معاشرہ ہے جس میں زندگی کا مقابلہ بھی ہوتا ہے اور مفاہمت بھی۔ اس کے اندر ایسوسی ایشن بھی ہے اور جنگ و جدل بھی۔ انسانوں سمیت سبھی جانوروں، پودوں، زمینوں، پانیوں، طفیلیوں اور زیستوں کے باہمی تعلقات کا ایک سسٹم، اقبال نے جب وہ پورا ایکو سسٹم چنا جس میں غالب انسان تھے اور دور سے فیکٹرز کے افیکٹس بھی دیکھے تو 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ، بے جی کی گود کی کنڈر گارڈن میں پلنے والا بچہ جب 21 اپریل 1938ء کو اس جہان فانی سے کوچ کرتا ہے، تو وہ محض اقبال نہیں تھا اقبالیات بن چکا تھا۔ اس کی سٹڈی اور ریسرچ نے اسے مفکر پاکستان، مصور پاکستان، شاعر مشرق اور حکیم الامت بنایا۔ بات صرف اردو اور فارسی شاعری کی نہیں، بات شاعری میں اٹھان کی ہے۔ شاعری میں تعلیم کے ساتھ تربیت کی ہے، تربیت میں صرف طالب علم ہی نہیں استادکی بھی بات ہے۔ استاد کو لیڈر قرار دینے کی بات ہے اور احساس دلانے کی بات ہے کہ اگر کوہ و کمر (پہاڑ اور وادیاں) کلیموں (قیادت)سے خالی ہوں گی۔ گویا قحط الرجال ہوگا تو وہ نوجوان، وہ جوان، وہ خواتین جواز خود شعلہ سینائی ہیں ان کی تراش خراش کون کرے گا۔ بات یہ سمجھائی کہ ایکو سسٹم میں اگر میکرو سے لے کر مائیکرو تک کی اشیاء کا خیال نہ کیا گیا تو برین ڈرین ہوگا، برین گین نہیں۔ بات یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اگر ارتقائی عمل میں نیچرل سلیکشن کو مد نظر نہ رکھا گیا اور اس کے خدشات و تحفظات کا ادراک نہ ہوا تو بقا مشکل ہو جایا کرتی ہے۔ بتایا کہ بقا اس کی جو فٹ ہے (SURVIVAL OF THE FITTEST) فطرت اور قدرت کی بات کی، بات جب مجاہد کی تو محض مرد کو ہسار یا افغان باقی کی بات نہیں بلکہ مومن اور اس کی شمشیر کے ساتھ ساتھ کرگس اور شاہین کے اور جہان کا فلسفہ بھی سمجھایا۔ ہیرے کے جگر سے لے کر کبوتر اور شاہین کا تذکرہ بھی سامنے رکھا۔ گل و لالہ اور نرگس کے تشبیہات واستعارات کی بات کی۔ فلک کی بات کو بھولے نہ ستاروں کے جہاں کو فراموش کیا، ریگستان کو بھی سپرد قلم کیا اور نیل کے ساحل کو بھی۔ وفا اور ایفا کو بھی سامنے رکھا۔ اگر علم اور عشق کا مکالمہ کرایا تو درس یہ دیا کہ دونوں کو ساتھ لے کر چلیں اور کہا کہ موج میں مزہ ہے بیرون دریا کچھ نہیں۔ خود شناسی کو خداشناسی کا پیغام بنایا تو حکم اذان کا بیان بھی دیا۔ عشق کو بار بار چاہا، عشق کی سادگی کی بات کی یا گہرائی کی تو پیش یہ کیا کہ یہ عشق دراصل ایمان ہے اور دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کرنے کی بات کی، نیا زمانہ اور نئے صبح و شام پیدا کرنے کی بات کی۔ یہ بات کیوں کی؟ کہ تحقیق کو و تیرہ بنائو تعلیم کو ترقی کا ذریعہ بنائو، مومن بھی رہو اور سائنسدان بھی بنو، شمشیر ہو کہ وقت کا میزائل یہ دونوں ہیں تو بقا ہے۔ جہاد کو جہد اور تحقیق کے زمرے میں لیا اور عشق کو ایمان کے، تبھی تو اقبال کے متعلق کہا گیا کہ، اقبال قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن! قحط الرجال کے اس موسم میں یہ یاد آتا ہے کہ …؎
خالی ہے کلیموں سے یہ کوہ وکمر ورنہ
تو شعلہ سینائی میں شعلہ سینائی
لالہ صحرا (نظم) نہیں علامہ اقبال کے سوال پر عصر حاضر ذرا غور کرے کہ:
تو شاخ سے کیوں پھوٹا میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
ایک جذبہ پیدائی ایک لذت یکتائی
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
آج ہم سیاست بھی کرتے ہیں اور سماجی خدمت بھی لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم جائزہ بھی تو لیں کہ کیا ہم منشور اور نصب العین کو مد نظر رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے قول و فعل میں تضاد تو نہیں؟ کیا ہماری زندگی کی صفوں میں محمود و ایاز کے لئے برابر جگہیں ہیں۔ کفر اور کافر کو ہم کیا سمجھے ہیں؟ ہمارے دلوں میں بت کدے ہیں یا بازئوں میں محمود غزنوی؟ کیا ہمارے عشق میں گرمی اور حسن میں شوخی ہے یا ’’فلرٹ‘‘؟ کہیں ہم اپنے آپ کے ساتھ بھی فلرٹ کے عادی تو نہیں ہوگئے؟ اقبال نے تو کہا تھا کہ ’’جداہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘… کیا شجاعت اور عدالت کا سبق ہماری سپاہ گری اور عدلیہ میں ہے؟ شب بھر میں مسجد بنانے والے ماحولیات کو تعصب کی آلودگی سے بچائیں اور امن کی راحت میں لائیں۔
اقبال کی بے شمار خوبصورت باتوں میں، اس کی شگفتگی و نغمگی و شاعری، اس کے قافیہ و ردیف میں حتیٰ کہ حرف حرف میں انسانی حقوق کی بات ہے۔ جدید این جی اوز، فیشن ایبل افراد اور سیاستدان دن رات انسانی حقوق کے راگ الاپتے ہیں اور قدم قدم پر شعلہ بیانی اور شیریں بیانی کے سنگ سنگ فلسفہ و حکمت کے تڑکے کے طور پر کلام اقبال کو زبان و بیان میں لاتے ہیں۔ مگر کبھی غور کیا کہ خواتین کو ہم معاشرتی و سیاسی و سماجی تعلیمی اور تحقیقی محور و مرکز میں کتنا لائے ہیں؟ اقبال تو اقبال تھا اور اقبالیات میں کمال و جمال ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت اس خطے میں افغانستان و پاکستان و ہندوستان اور بنگلہ دیش میں جب خواتین کو حقوق ملیں گے اور سوسائٹی میں عملاً نظر آئیں گے تو میں سمجھوں گا کہ انسانی حقوق کا سبق جو نظریہ اسلام سے ہمیں ملا ہے یا جو اخلاقی اور معاشرتی بنیادوں کی روح میں ہے وہ ہمیں مل گیا۔ کاش کوئی سمجھے کہ حقوق کے حوالے سے جوانسانی بھی ہے اور عورتوں کے حقوق بھی، اس حوالے سے ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا کیا ہے:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
یہاں ’’رنگ‘‘ اور ’’ساز‘‘ سے مراد معاشرتی فنشنگ،میکنگ اور شیپنگ کی ہے۔ اقبال کے نزدیک سائنس اور دین دو الگ الگ مضمون نہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ آج اقبال کی خواہش کے مطابق جوانوں کو آہ سحر ملے، شاہین بچوں کو بال و پر ملیں، خواتین کو حقوق اور انسانی حقوق ملیں، قوم کو خودی اور سیاستدان سبق پڑھے شجاعت کا اور امامت کا… خدارا! تعلیم، نوجوان، عورت اور جمہوریت جیسی چار چیزوں کو قومی دھارے میں لائیں اور اقبالیات کو حیاتیات میں لائیں!