چاروں اور ایسی ہاہکار مچی ہوئی ہے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور پانی کا بحران موت بن کر ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے عاقبت نا اندیش ہمارے رہنما پاناما' پاناما کھیل رہے ہیں پاکستان جس کی زرعی معیشت کا دارو مدار پانی پر ہے صرف پانی کی کمی کی وجہ سے تیزی سے قحط کی طرف بڑھ رہا ہے قحط اور خشک سالی، زلزلہ یا سیلاب کی طرح نہیں ہوتی کہ اچانک آجائے، ناگہانی وار کرے، لمحوں میں بستیوں اور آبادیوں کو اپنی ہلاکت آفرینی سے ملیامیٹ کر دے، قحط اور خشک سالی تو ایسی کربناک آفت کا نام ہے جو آہستہ آہستہ دبے قدموں، بڑی دھیرج سے وسیع و عریض علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیکر موت سے ہمکنار کرتی ہے، زمانہ قدیم میں قحط کا شکار بے بسی اور بے کسی سے دم توڑتے تھے کہ انھیں موت سے بچانے والے ہاتھ بہت دور ہوتے تھے، دشوار گذار اور طویل فاصلے، امدادی ٹیموں کیلئے موت کی اس جولان گاہ تک فوری رسائی کو مشکل اور بعض حالات میں ناممکن بنا دیا کرتے تھے پھر انسانیت سسک سسک کر دم توڑتی تھی۔ گدھ زندہ انسانوں کے دم نکلنے کے منتظر ارد گرد منڈلاتے رہتے لیکن زندہ انسانوں کو نوچنے سے گریزاں ہوتے کہ فطرت نے ان کو یہی سکھایا تھا۔ یہ اشرف المخلوقات حضرت انسان ہے جو کسی صورت ترس نہیں کھاتا۔ دم توڑتا، جاں بلب یا پیاس کا شکار مظلوم، یہ سب کو اپنی اغراض کا ترنوالا بنا لیتا ہے۔
مواصلات کے اس جدید دور میں قحط سے موت کا تصور ناپید ہوچکا ہے کہ دم توڑتی انسانیت کو پلک جھپکتے میں اشیائے خورد نوش پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ہوائی جہازوں سے دیوہیکل کنٹینروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں تک امداد کی فوری فراہمی نے قحط کو پسپا کرکے رکھ دیا ہے لیکن اسی دور جدید میں ہمارے تھر میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے جہاں بچے بھوک سے زیادہ پیاس سے مر رہے ہیں یا ناقابل استعمال آلودہ پانی ان کیلئے زہر قاتل بن رہا ہے۔ ناکافی غذا، ادویات اور معالجوں کی عدم دستیابی نے اس سانحے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ گذشتہ تین برس میں 15 سو بچوں کو پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی نے نگل لیا ہے خشک سالی اور قحط کے بارے میں فطرت انسانوں کو بہت پہلے سے خبردار کرنا شروع کر دیتی ہے خبردار کرنے کیلئے مظاہر قدرت خطرے کے نشان واضح کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ان علاقوں میں خشک سالی کے پہلے مرحلے میں جنگلی حیات ناپید ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مختلف بیماریاں چرند پرند اور انسانوں پر دھاوا بول دیتی ہیں۔ ہمارے تھر میں گذشتہ کئی برسوں سے ڈھور ڈنگر مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ تھر کے مورتو ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ گذشتہ سالوں میں جب بے شمار مور اچانک اور یک لخت مرنے لگے تو کسی پراسرار وائرس کے حملے کا چرچا ہوا تھا، انھی دنوں اس کالم نگار کے دوست ماہر جنگلی حیات نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان میں خشک سالی کا طویل دور شروع ہونے والا ہے جس کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔
خشک سالی کا منطقی انجام قحط کی صورت میں متشکل اور مجسم ہوتا ہے جس کیلئے ذخائر خوراک اور صاف پانی کی فراہمی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے۔ زوال کا شکار ہمارے سماج میں اب سر پڑی نمٹانے کی عادت راسخ ہو چکی ہے، اس لیے فطرت کی بار بار واضح تنبیہ کے باوجود کسی حکمت کار نے اس کی پروا نہیں کی، کوئی اقدام نہیں کیا سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے، تھر میں زندگی اور موت کا کھیل تو گذشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ سندھ کی ثقافت کی ترویج کے نام پر جب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پر جشن رنگ و نور منایا جا رہا تھا عین اسی وقت تھر کے وسیع و عریض ویرانوں میں بکھرے ہوئے بے نوا انسانوں پر، گھاس پھونس کی جھونپڑیوں اور مٹیالی خاکستر گوٹھوں پر موت کے سائے پھیل رہے تھے لیکن سندھ دھرتی کے بیٹے بھوک اور پیاس سے سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔ لیکن کسی کو اس کی کیا پروا ہو سکتی دور دراز علاقوں میں بسنے والے انسان تھوڑے ہوتے ہیں کہ ان بے صدا اور بے نوا غلاموں کی پروا کی جائے پاکستان میں پانی کا بڑھتا بحران لمحہ فکریہ ہے لیکن کوئی فکر کرنے والا نہیں ہے۔
انتہائی محتاط تخمینوں اور تجزیوں کے مطابق 3 کروڑ پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور تقریبا 4 کروڑ افتادگانِ خاک کے پاس بیت الخلا جیسی بنیادی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔ ویسے ہم ایسی ایٹمی طاقت ہیں جس کے باشندے دن میں بجلی اور پانی کی تلاش میں مارے مارے پھر تے اور بے امان تاریک راتوں میں ہتھ پنکھوں کے ذریعے گرمی کا مقابلہ کر نے کی کوششِ ناتمام کرتے ہیں۔
پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، لیکن اس آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے شترمرغ کی طرح ریت میں سر دبائے ہوئے ہیں پانی کی قلت کے سبب کاروبار، کھیت کھلیانوں اور آبادیوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑیگا۔ پاکستان دنیا کے ان 180 ممالک کی فہرست میں 36 ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے حکومت، معیشت اور عوام تینوں شدید دبائو میں ہیں۔پانی کی قلت سے متعلق خون کے آنسو رولا دینے والی یہ رپورٹ امریکی ادارے ’’ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ‘‘ نے تیار کی ہے۔
رپورٹ میں خبردارکیا گیا ہے کہ پاکستان تیزی سے پانی کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہاں زراعت کے ساتھ ساتھ گھریلو اور صنعتی استعمال کیلئے موجود پانی بھی بہت تیزی سے ختم ہو رہا ہے جسکے نتیجے میں کاروبار، کھیت اور آبادیوں کو قحط کا سامنا کرنا پڑیگا۔قحط سے بچنے کا سب سے کارگر نسخہ پانی کو محفوظ بنانا اور اسے درست طریقے سے استعمال کرنا ہے جس کا ہمیں کچھ علم نہیں ہے ویسے بھی جب موت سر پر منڈلا رہی ہو تو کیا سیکھنا اور سمجھنا ہوسکتا ہے۔ جنت نشان 'سنگاپور پاکستان کے مقابلے میں زیادہ دبائو کا شکار ہے۔ وہاں تازہ پانی کی جھیلیں اور ذخائر موجود نہیں پانی کی طلب' فراہمی سے زیادہ ہے۔ اسکے باوجود عمدہ رکھ رکھاؤ اور بہتر انتظام کاری، عالمی معاہدوں اور ٹیکنالوجی میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے سنگاپور کا شمار بہترین ’واٹر منیجرز‘ میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں 60 سال پہلے فی کس 50 لاکھ لیٹر پانی دستیاب تھا۔ پانچ گنا کمی کے بعد آج کل یہ مقدار 10 لاکھ لیٹر رہ گئی ہے۔منگلا اور تربیلا ڈیمز نصف صدی پہلے بنائے گئے تھے جس کے بعد ملک میں پانی کا ذخیرہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے صرف 120 دن کا پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔گندے پانی اور ناقص صفائی کی وجہ سے سالانہ پانچ سال سے کم عمر کے 40 ہزار بچے ہیضے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دیہات سے انتقالِ آبادی' شہروں کی طرف ہجرت، زیادہ پانی کی ضرورت والی فصلوں کی کاشت، صنعتوں کا پھیلائو، ناقص انفرا سٹرکچر، کہتے ہیں کہ ہم تین کالا باغ ڈیموں کے برابر پانی کھیتوں تک پہنچانے کے عمل میں ضائع کر دیتے ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بارشوں کے کم یا زیادہ ہونے اور گلیشئرز کے پگھلنے کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری متاثر ہو گا جو دستیاب پانی کا 96 فیصد استعمال کرتا ہے۔پانی کو ذخیرہ کرنے کا مناسب انتظام نہ ہونیکی وجہ اور زیادہ بارشیں اور سیلابوں کی وجہ سے فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے اور زمین میں کٹائو کی وجہ سے کاشت کاری مشکل ہوتی جائیگی۔اقوام متحدہ کی مارچ 2012ء میں جاری کردہ ورلڈ واٹر ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ ملکوں میں پاکستان نویں نمبر پر ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کو زراعت، صنعت، صحت اور توانائی کے شعبوں میں مربوط کوششیں کرنا ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ اتنا وقت کس کے پاس ہے کہ وہ دور از کار خدشات کی بنیاد پر سنجیدہ ہو جائے۔پانی کے ذخائر اور انفرا سٹرکچر میں اضافہ، پانی کے مسائل کے بارے میں شعور پیدا کرنا اور بارش کے پانی سے کاشتکاری کو فروغ دینا ہو گا۔ گھریلو اور صنعتی صارفین کو یکساں طور پر پانی کے استعمال میں کفایت شعاری کو اپنانا ہو گا۔ زیادہ پانی کی فصلوں اور سیلابی پانی سے متعلق سخت قوانین بنانے ہوں گے۔ ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے بارش کے پانی سے کاشتکاری، گرے واٹر کی ری سائیکلنگ، واٹر پرائسنگ، پانی کے ذخائرمیں اضافے، پانی کی آلودگی میں کمی کے اقدامات کو فروغ ملے شہری آبادیوں میں متوازن اضافہ ہو۔قابل استعمال پانی کی دستیابی اور محتاط استعمال پر زور دینا ہوگا۔ ہر شخص کو صاف پانی کی فراہمی اور صحت و صفائی کی سہولتیں فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ پانی کے بہتر اور کفایت شعاری کے ساتھ استعمال کے لئے سکولوں اور ذرائع ابلاغ پرمہم چلائی جائے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38