ماشاءاﷲ پاکستان میں جمہوریت تو پہلے ہی پھل پھول رہی تھی اب ہماری فوج میں بھی جمہوریت نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق موجودہ سیاسی بحران کے عروج پر طاقت ور فوج کے کور کمانڈرز کے اجلاس میں گیارہ جرنیلوں میں سے پانچ جرنیل چاہتے تھے کہ اس سیاسی بحران میں فوج زیادہ ”فعال کردار“ ادا کرے تاہم فوج کے سربراہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس خبر کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ خبر کے لکھاری نے کل تیرہ سرکاری اہلکاروں و عہدیداروں سے بات کی جن میں صرف وزیر دفاع نے اپنے نام کے ساتھ بیان دیا جبکہ باقی تمام ذرائع نے گمنام رہنے کو ترجیح دی۔ اس خبر کی صداقت سے متعلق حکومت یا فوج کے ترجمان کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ انگریزی اخباروں میں نمایاں جگہ پانے والی یہ خبر بڑے اردو روزناموں میں اتنی بہادری سے نہیں لگائی جا سکی۔ مزید تجزیے سے پہلے اس خبر کا خلاصہ بیان کرنا ضروری ہے۔ (آغاز خلاصہ خبر) حکومت کے خلاف کئی ہفتوں کے احتجاج نے طاقتور پاک فوج کے گیارہ میں سے پانچ جرنیلوں کو اس بات کا یقین دلا دیا ہے کہ فوج مداخلت کرے اور وزیراعظم نواز شریف استعفیٰ دے دیں۔ فوجی حلقوں سے قریب ایک وزیر کے مطابق آرمی چیف نے اس کے برخلاف فیصلہ سناتے ہوئے سویلین قیادت کے خلاف بغاوت کو موجودہ حالات میں نامناسب قرار دے دیا اور مسائل کا حل سیاسی سطح پر کرنے کا فیصلہ سنایا۔ (اختتام خلاصہ خبر)
اس خبر کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ فوج نے جمہوریت کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے مگر اس خبر کی تفصیلات میں جائیں تو حالات مختلف نظر آتے ہیں۔ فوجی کمانڈروں کے درمیان اس قسم کی بحث حکومت یا جمہوریت سے زیادہ خود فوج کے نظم و ضبط اور فوجی قیادت کی لڑی کے لئے ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک حکومتی وزیر جس نے نام بتانے سے گریز کیا خبر رساں ایجنسی کو یتایا کہ ”کم از کم“ پانچ جرنیل ایسے تھے جو کئی ہفتوں سے سیاسی بحران کے حل کیلئے فوج کے ”فعال کردار“ پر اصرار کر رہے تھے۔ خبر کے مطابق ”دوفوجی ذرائع“ نے ان واقعات کی تصدیق کی ہے۔ ”وزارت دفاع کے ایک ذریعے“ کے مطابق آرمی چیف اپنے کمانڈروں کی مکمل حمایت کے بغیر کوئی انتہائی اقدام نہیں اٹھائیں گے اور ایک ماہ بعد (5 جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد) وہ اپنی مرضی کے چار جرنیل اور آئی ایس آئی کے سربراہ مقرر کرینگے۔ جس کے بعد (حکومت کو) ان سے (آرمی چیف سے) محتاط رہنا ہو گا“ یقیناً فوج کا سربراہ ہمیشہ میرٹ پر ترقی اور تبادلے کرتا ہے اپنے جیسے سیاسی خیالات رکھنے والوں کو پروموٹ نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے خبر کا تاثر اس کے برعکس ہے۔ خبر کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام بھی ان جرنیلوں میں شامل ہیں جو نواز شریف کو ہٹانے کی بات کرتے ہیں۔ اسی خبر میں ایک گمنام آئی ایس آئی کے افسر کے مطابق ادارے کے ملوث ہونے کی باتیں بے بنیاد ہیں ”مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی نہیں دکھا سکی اور کوئی بھی اس کی غیر مشروط طور پر مدد نہیں کریگا۔“ اب سوچیے کیا یہ بیان قابل تردید نہیں کہ ”حکومت کارکردگی نہیں دکھا سکی اور کوئی بھی اس کی غیر مشروط طور پر مدد نہیں کریگا۔“ اس پوری خبر کو پڑھ کر پاکستان کی پارلیمنٹ اور جمہوریت کو اپنی اوقات کا اندازہ ہو جانا چاہئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں آئین اور قانون اور عدالتیں موجود ہیں اور انتخابات میں ساڑھے چار کروڑ افراد ووٹ ڈال کر جس وزیراعظم کو منتخب کرتے ہیں اس کی قسمت کا فیصلہ ایک فوجی ہیڈکوارٹر میں بیٹھے چند جرنیل کس حیثیت میں کرسکتے ہیں۔ آخر حکومت اور فوج کے ترجمان کی اس خبر پر خاموشی اور پارلیمنٹ کے پنجرے میں بند اقتدار کے شیروں کی چپ کا کیا مطلب لیا جائے۔ افسوس ہے کہ سیاست دان اسی بات پر خوش ہیں کہ فوجی کمانڈروں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اور آرمی چیف جمہوریت پسند مگر کل اگر یہی اکثریت اقلیت میں بدل گئی تو پھر کیا ہو گا؟ دوسری طرف اگر فوج کے ترجمان نے اس خبر کے ذریعے حکومت کو اقتدار اور پالیسی سازی میں شراکت اور موجودہ بحران میں ملوث نہ ہونے کا پیغام دیاہے تو پھر واضح ہے کہ حکومت اورفوج کے درمیان عدم اعتمادی اور بے اعتباری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ پیغام رسانی کا کام میڈیا کے ذریعے کیا جاتا ہے اور وہ بھی بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے ذریعے۔ فوج کے اندر اختلاف رائے کی خبریں کسی صورت میں بھی حکومت اور فوجی قیادت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے۔ فوجی افسران اور خاص کر آئی ایس آئی کے افسران کو میڈیا کے ذریعے سیاسی بیان بازی سے روکنا فوجی قیادت اور ادارے کی یکجہتی کے لئے انتہائی لازم ہے۔ فوجی قیادت کے لئے اس سے زیادہ افسوسناک بات کیا ہو گی کہ میڈیا اور چند سیاست دان کھلم کھلا یہ تاثر دیں کہ اس ادارے کی طاقت ور ترین خفیہ ایجنسی کا سربراہ اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ دن پہلے فوجی قیادت کی پالیسی کے برخلاف کوئی کام کر رہا ہے۔ تاہم اگر یہ الزام سچ ہے تو پھر یہ اور بھی زیادہ افسوسناک اور خطرناک صورت حال ہے۔ کور کمانڈروں کے اجلاس میں فوجی کمانڈروں کو اپنی عسکری اور جنگی حکمت عملی سے متعلق آزادانہ رائے دینے کا پورا حق ہے کتنی فوج کہاں لگانی ہے کونسا اسلحہ استعمال ہونا ہے ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کیسے کرنی ہے فوج کی فلاح وبہبود اور بری اور بحری افواج کے ساتھ رابطوں کے علاوہ حکومت کو دفاعی اور خارجہ پالیسی سازی کے لیے سفارشات کی تیاری ان سب چیلنجوں کے ہوتے ہوئے فوجی کمانڈروں کے اجلاس میں ملک کے منتخب وزیراعظم کے بارے میں یہ بحث کہ انہیں حکومت سے نکال دیا جائے اور پھر ایسی خبروں پر حکومتی اور عسکری خاموشی ناقابل فہم ہے۔ سیاسی قیادت کے لیے تو یہ لازم ہے کہ وہ عوام کی رائے اور اکثریتی فیصلوں کا احترام کریں اور نچلے طبقوں کے جذبات کا خیال رکھیں اور یہ جمہوریت کہلاتی ہے مگر فوج جیسے منظم اور جنگجو ادارے کے لیے لازم ہے کہ اس کی اعلی قیادت جو بہترین جنگجو صلاحیتوں کے باعث اس مقام تک پہنچتی ہے اپنے فیصلوں اور نظم وضبط کو نچلی سطح تک نافذ کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ منتخب حکومت اپنے فیصلوں پر عملدر آمد کرانے کے لیے اپیلیں اور میٹینگیں کرے اور کور کمانڈروں کے اجلاس کا انتظار کرے اگر کورکمانڈروں کے اجلاس میں سیاسی معاملات پر بحث کو صحت مندانہ جمہوریت کہتے ہیں تو پھر حکومت آئین میں ترمیم کرکے فوج کو اپنا سربراہ کور کمانڈروں کے اجلاس میں اکثریت سے منتخب کرنے کا اختیار دے دے اور کچھ نہیں تو شاید کور کمانڈروں کو اندازہ ہو جائے گا کہ جمہوریت کے کتنے مسائل ہوتے ہیں ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024