موسم اپنا چولا مکمل طور پر بدل چکا تھا اور گرمی کی شدید لہر کے بعد اکتوبر کے ابتدا میں ہی رات کو خنکی بڑھنے لگی تھی، اسی موسم میں ماہ صیام شروع ہوا تو روزہ داروں نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا، یوں کہنے کو تو یہ 8اکتوبر 2005ءکی ایک سہانی صبح تھی، لیکن حقیقت میں یہ ایک قیامت خیز صبح تھی، جب ایک خوفناک گڑگڑاہٹ اور زوردار جھٹکے نے پاکستان کے شمالی علاقوں میںلوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔7.6کی شدت سے آنے والا زلزلہ اسلام آباد، کشمیر اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں86ہزار لوگوں کی ہلاکت اور تیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرنے کا سبب بنا۔ پاکستانی تاریخ کے اِس المناک ترین واقعہ کو دس برس مکمل ہوچکے ہیں، لیکن ایک دہائی کے بعد بھی بہت سے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں کہ قدرت کی جانب سے اس عبرتناک واقعہ سے بحیثیت قوم ہم نے کتنی عبرت پکڑی؟زلزلہ کے بعد متاثرین کی امداد و بحالی اور آئندہ کیلئے اِن واقعات کے نقصانات سے بچاو¿ کے حوالے سے بہت سے دعوے کیے گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ اِن دعووں پر کس حد تک عمل ہوا؟ اس زلزلے نے قوم کو جس عظیم امتحان میں ڈالا، ہم اُس امتحان میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟ 86 ہزار ہلاکتوں اور تیس لاکھ لوگوں کے متاثر ہونے کے بعد ہمیں ملکی تاریخ میں جن سماجی و معاشی اور معاشرتی سطح چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، کیا ہم اُن چیلنجز سے عہدہ براءہونے میں سرخرو ہوسکے؟یقینا ایک دہائی مکمل ہونے پر ہمیں اِس طرح کے تمام سوالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ انہی سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ 8 اکتوبر کے المناک سانحہ کے بعد (آفات کی مینجمنٹ کے نام پر) قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے جو ادارے بنائے گئے ، اُن اداروں کی کارکردگی کا آج تک جائزہ کیوں نہیں لیا گیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ 8اکتوبر کے زلزلہ کے دس سال بعد بھی جب کوئی نئی قدرتی آفت آتی ہے تو اُس کی ہلاکت خیزی کو روکنے میں ناکامی کے بعد ادارے بس ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراکر اپنی ”ذمہ داریوں“ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔
8اکتوبر کو قدرتی آفات سے آگاہی کے قومی دن پر بھی ہمیں صرف زلزلہ یا سیلاب ہی یاد آتے ہیں، حالانکہ پاکستان سمیت دنیا میں قدرتی آفت کوئی ایک دو نہیں ہیں بلکہ اس کی درجنوں اقسام ہیں۔ مثال کے طور پر زلزلہ اور سیلاب کے علاوہ دنیا میں آتش فشاں، سونامی، برفشار(برفانی لہریں)، سمندری طوفان، بگولے، گرمی کی لہر، برفانی طوفان، آندھی، طوفان، گرد و باد، جنگلی آگ، خشک سالی، قحط، گاما شعاعوں کا اخراج، شمسی طوفان اور ”سپر نووا“ جیسی قدرتی آفات بھی ہیں۔ جیوگرافیائی مناسبت سے اِن میں سے بہت سی آفات کا تعلق ہمارے خطے سے نہیں ہے لیکن قدرتی آفت کوئی بھی ہو، اسکی وجہ سے ہونےوالا جانی، املاکی اور مالی نقصان ایک جیسا ہوتا ہے اور عموماً ان آفات میں جانی و مالی نقصان سے بچاو¿ کی بنیادی حفاظتی تدابیر بھی تقریبا ایک جیسی ہوتی ہیں۔مالک کائنات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہاں آتش فشانوں، سونامیوں، برفشاروں، سمندری طوفانوں، بگولوں، برفانی طوفانوں، آندھیوں اور قحط سمیت بہت سی قدرتی آفات نہیں آتیں۔ پاکستان میں عموما سیلاب، زلزلہ، آتشزدگی، لینڈ سلائیڈنگ اور گرمی کی لہر جیسی قدرتی آفات ہی زیادہ پیش آتی ہیں۔ذیل میں اِن آفات سے بچاو¿ کیلئے چند حفاظتی تدابیر آگاہی کیلئے پیش کی جارہی ہیں۔
مثال کے طور پرزلزلہ آنے کی صورت میں اگر آپ گھر کے اندر ہیں تو، وہیں رُکے رہیں اور بھاگ کر باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں، بڑی سی میز، تپائی، یا کسی ٹھوس فرنیچر کی آڑ لیں اور وہیں رک جائیں۔ اگر آپ کسی راہداری میں ہیں تو اندرونی دیوار سے چپک کر بیٹھ جائیں، بالخصوص دروازوں سے بچیں کیونکہ دروازوں کے پٹ زور سے بند ہوسکتے ہیں اور اس طرح آپ کو چوٹ لگ سکتی ہے، اپنے سر اور چہرے کو بچائیں، کھڑکیوں، شیشے کی پارٹیشنز، آئینوں، آتش زدگی کی جگہوں، کتاب کی الماریوں، فرنیچر اور روشنی کی تنصیبات سے فاصلے پر رہنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ پہیّوں والی کرسی پر ہیں تو پہیّوں کو مقفل (لاک) کرلیں اور اپنی گردن اور سر کے پچھلے حصے کو بچانے کی کوشش کریں۔ زلزلے کے جھٹکوں کے دوران ایلیویٹرز (متحرک سیڑھیوں) کا استعمال ہرگز نہ کریں، اگر زلزلہ آنے کے دوران ”لفٹ“ میں ہیں تو ہر منزل کے بٹن کو دباتے جائیں اور جتنی جلدی ہوسکے ، لفٹ سے باہر نکل آئیں۔زلزلہ کے جھٹکوں کی شروعات پر آپ جہاں کہیں بھی ہوں، فوری طور پر کوئی آڑ لیں اور جھٹکے بند ہونے تک وہیں پر رکے رہیں۔
گرم اور مرطوب موسم میں عموما سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا بھی شامل ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہوسکتی ہے کہ شدید آندھی چلنے والی ہے۔ ایسی صورت میں اگر آسمان پر سبزی مائل اور تیزی سے حرکت کرتے بادل بھی دکھائی دیں تو سمجھیں کہ بگولے اور شدید آندھی قریب ہی ہوسکتے ہیں۔اس دوران بجلی کی چمک ، کڑک اور تیز ہواو¿ں کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ شدید آندھی اور طوفان کی صورت میں اگر آپ گھر پر ہیں تو، تہہ خانے میں چلے جائیں یا نچلی منزل پر بنے کسی چھوٹے سے کمرے، غسل خانے ، حجرے، یا راہداری میں پناہ لے لیں۔ آپ بڑی سی میز یا تپائی کے نیچے پناہ لے کر بھی خود کو بچا سکتے ہیں۔ کھڑکیوں اور بیرونی دیواروں اور دروازوں سے دور رہیں۔
قارئین کرام!! اگرچہ قدرتی آفات کے واقعات ناگہانی طور پر اچانک پیش آتے ہیں، لیکن ان واقعات کے پیش آنے کی صورت میں نقصانات سے بچنے یا نقصان میں کمی کیلئے کوئی نہ کوئی منصوبہ ضرور موجود ہونا چاہیے کیونکہ قدرتی آفات سے متعلق آگاہی پھیلانے سے ہزاروں قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں، لیکن افسوسناک طور پر 2005ءکے تباہ کن زلزلے کے بعد سے ہر سال8اکتوبر کو قدرتی آفات سے آگاہی کا دن تو منایا جاتا ہے، لیکن افسوس اس سلسلے میں آگاہی پھیلانے کیلئے چند بینرز لگادینے یاایک آدھ سیمینار منعقد کرنے کے سوا کوئی عملی اقدام کیا جاتا ہے ، نہ کوئی ادارہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کسی نے اس حوالے سے میڈیا کو موثر طریقہ سے استعمال کرنے کا سوچا ہے۔
پس کالم: میڈیا کے بڑے حصہ کو قدرتی آفات سے آگاہی پھیلانے کی کیا پرواہ ہونی ہے، اُسے توقومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122کا بخار چڑھا ہے، جہاں وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے مطابق ایک جانب پجارو والے تو دوسری جانب میٹرو والے ہیں۔ میڈیا پر 342حلقوں میں سے محض اِس ایک حلقہ کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے، جیسے اس میں جیتنے کے بعد تحریک انصاف پورے پاکستان میں چھا جائے گی یا اس حلقہ میں ہارنے کے بعد مسلم لیگ ن کا روئے زمین سے صفایا ہوجائیگا؟ اس حلقہ میں جو بھی جیتے یا ہارے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑیگا، لیکن انتخابات سے پہلے ایک تبدیلی ضرور آگئی ہے کہ سڑسٹھ برسوں سے کرپشن ، قبضہ گروپوں اور سماجی برائیوں کےخلاف ”جہاد“ کرنےوالی جماعت اسلامی نے علیم خان کی حمایت کر دی ہے، یعنی سبحان اللہ! آئین کی دفعات 62اور 63کیلئے آئینی اور سیاسی لڑائی لڑنے والی مولانا مودودی کی جماعت اسلامی اگر علیم خان کے درِ دولت پر جھک گئی ہے اور قاضی حسین احمد کے پیروکاروں نے اگر قبضہ مافیا کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ”تبدیلی آنہیں رہی بلکہ تبدیلی آگئی ہے“!