کلبھوشن یادیو کامعاملہ سوئے درد جگا گیا،کئی تلخ یادیں زندہ کرگیا جاسوسی کی دنیا میں پہلے حاضر سروس بھارتی فوجی کی پاکستانی سرزمین سے گرفتاری کاحیران کن واقعہ، حالات کی سنگینی کی نئی جہتیں روشناس کرارہا ہے وزیراعظم مودی کے قومی سلامتی اُمور کے مشیر اجیت کمار ڈوول پولیس کیڈرکے ریٹائرڈ افسررہے ہیں وہ لاہور میں 7سال غیرقانونی رہائش اورجاسوسی کرنے کا برملا اعتراف کرچکے ہیں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بارے میں بھارت کا سرکاری موقف یہ ہے کہ اسے جیش العدل نامی گروہ نے ایران سے اغواکرکے پاکستانی خفیہ اداروں کو فروخت کیا تھا یادیو، علی حسین مبارک پٹیل کے بھیس میں چاہ بہار میں ہیرے جواہرات کا کاروبار کررہا تھا وہ ایک معصوم تاجر ہے جس کاجاسوسی ،تخریب کاری اوردہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن بھارتی حکام کلبھوشن یادیو کی معصومیت کی دلیلیں دیتے ہوئے حسین مبارک پٹیل کے بارے میں خاموش ہیںکہ خود بھارتی ذرائع ابلاغ نے علی حسین مبارک پٹیل کے پردے میں کلبھوشن یادیو کی پرفریب شخصیت کاپردہ فاش کردیاتھا۔
افسوس صد افسوس کہ جاسوسی کی جدید دنیا کے منفرد کردار، بھارتی حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو پاکستان میں ہمدرد ہی نہیں، مفت کے وکیل بھی میسر آگئے ہیں جو عوامی سطح پر اس کامقدمہ لڑنے کیلئے میدان میں بروئے کار ہیںوہ جرمنی کے ایک چوٹی کے سفارت کار ڈاکٹر گنٹرملائک کومیدان میں لے آئے جنہوں نے پاکستان میں کھڑے ہوکر بھارتی موقف کی تائید کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے طالبان سے خریدا ہے جسے ایران سے اغواکیا گیا تھا لیکن وہ بھی حسین مبارک پٹیل اور کلبھوشن یادیو کی دوہری شخصیات کے بارے میں کوئی وضاحت کئے بغیر رخصت ہوگئے ۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ایسا پر اسرار معاملہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کیخلاف جاری بھارتی سازشوں کادبے الفاظ میں ذکر کرتے ہوئے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اوربھارتی مداخلت کے بلوچستان میں کھلے شواہد پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںگفتگو کرنا مناسب نہیں سمجھا تھاجس پر پیپلزپارٹی کے ممتاز رہنما اورچوٹی کے قانون دان اعتزاز احسن نے بڑے وثوق سے کہا کہ جناب نواز شریف کبھی کلبھوشن یادیو کا ذکرنہیں کرینگے اس جاسوس کانام اپنی زبان پر نہیں لائینگے۔کلبھوشن یادیو کے بارے میں اعتزاز احسن کے دعوے پر اسرار راز ہیںجس سے پردہ وہ خود یاجناب نواز شریف ہی اُٹھا سکتے ہیںکلبھوشن یادیواورجناب نواز شریف کے معاملے میں،اعتزاز احسن نے مزید کوئی وضاحت کرنا مناسب نہیں سمجھا لیکن ان کا یہ اصرار ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کلبھوشن یادیوکانام نہیں لیں گے ۔
کلبھوشن یادیو بھولی بسری کہانی بنتے جارہے تھے انکانام وقت کی گرد ہماری اجتماعی یادداشت محو کیے جارہی تھی کہ گذشتہ دنوں سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے کلبھوشن یادیو کیخلاف مقدمہ چلانے،اسے منطقی انجام تک پہنچانے اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت اقوام عالم کے سامنے لانے کا اعلان کرکے اس اہم معاملے کو دوبارہ منظر عام پرلاکرزندہ کردیا۔ عام خیال یہ تھا کہ برادر اسلامی ممالک اورکچھ دیگر عالمی طاقتیں کلبھوشن یادیو کو خاموشی سے رہا کرانا چاہتی ہیں ۔
اس کالم نگار نے گذشتہ دنوں قومی سلامتی سے متعلقہ اس حساس اور نازک موضوع پر کچھ تازہ دستیاب تفصیلات کاذکرکیاتومیجرنذیرفاروق کے سوئے درد جاگ اُٹھے وہ فون نمبر ڈھونڈڈھانڈ کر اس کالم نگار تک پہنچ گئے،انہوں نے ایک اور بھارتی جاسوس کشمیر سنگھ کی کہانی سنائی جسے 1973میں فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی 34سال بعد مشرف دور میں جسے مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ انصاربرنی سرخ گلابوں سے لادکرواہگہ سرحد پر چھوڑنے گئے تھے ہمارے نام نہاد روشن خیال، نہیں جناب آزاد خیال موم بتی مافیا نے بڑے شادیانے بجائے تھے لیکن آفرین کشمیر سنگھ پر ہے کہ اس نے بھارتی سرزمین پر قدم رکھتے ہی متحدہ پاکستان کیخلاف اپنے کارناموں کا فخریہ انداز میں تذکرہ کرکے ہمارے مادرپدر آزاد پیار کی آشائوں کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیا تھا۔
کشمیر سنگھ کو سزائے موت سنانے والی فوجی عدالت کے سربراہ میجر فاروق نذیر بتارہے تھے کہ کشمیر سنگھ نے بنگلا دیش کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا تھا وہ جی ایچ کیو کی چیف آف جنرل سٹاف برانچ میںکام کرنیوالے بنگالی کلرکوں کے ذریعے تمام جنگی منصوبہ بندی کی دستاویزات چراکر بھارت بھجواتا رہا اسی طرح پاک فوج کے بنگالی افسروں کو فرار کراکے کلکتہ بھجواتا رہا، 603کمپنی کے علاقے میںبنگالی درزی کی دکان کو جاسوسی سرگرمیوں کامرکز بنایا ہوا تھا بھگوڑے بنگالی فوجی افسروں کو وہ شکرگڑھ کے علاقے سے بین الااقوامی سرحد عبور کراتا رہا ان شواہد کی روشنی میں اسے سزائے موت دی گئی تو وہ ذرانہیں گھبرایا ،کشمیر سنگھ نے مجھے چیلنج کیا تھا کہ میری سزائے موت پر عملدرآمد نہیںہوگا اوروہ زندہ واپس جائیگا 34سال کے طویل عرصے میں کئی حکومتیں بدلیں لیکن اسکی سزائے موت پر عملدرآمد نہ کیاجاسکا اور2007میں جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے دوران مکمل سرکاری پروٹوکول کے ساتھ اسے سرخ گلابوں میں لاد کر رہا کیا گیا۔
کلبھوشن یادیو کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف کی خاموشی پر بیرسٹراعتزاز احسن کا بیان 11اکتوبر 2016کونوائے وقت میں شائع ہوا تھا جس میں کہاگیا تھا ’اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کے گرفتار ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے معاملے پر حکومت بظاہر الجھن کا شکار ہے۔کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ حکومت کا بھارت میں کاروبار اور سرمایہ موجود ہے جسکے مفاد کی خاطر وہ اس معاملے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے سے گریزاں ہے۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان میں بھارتی مداخلت اور کلبھوشن یادیو کا ذکر ضرور کرنا چاہیے تھا، جو ایک واضح اور اہم ثبوت ہے۔ اگر آج بھارت کے پاس ایسا کوئی پاکستانی افسر بطور ثبوت موجود ہوتا تو وزیراعظم نریندر مودی اپنی ہر تقریر کے موقع پر اس کو ساتھ لیکر جاتے اور روزانہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جارہا ہوتا۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ جس دن وزیراعظم نے کلبھوشن یادیو کا نام لے لیا تو میں 50ہزار روپے کی رقم نابینا افراد کی ایسوسی ایشن کو عطیہ کردوں گا۔
حرف آخریہ کہ اعتزاز احسن کے بیان کردہ راز سے پردہ اُٹھانا وزیراعظم نواز شریف کی ذمہ داری ہے کیونکہ کلبھوشن یادیو کا معاملہ مادر وطن کی سلامتی سے متعلقہ ہے اگر وزیراعظم نواز شریف پاناما لیکس پر تین بار قوم سے خطاب کرسکتے ہیں توکلبھوشن یادیو ،بارے بھی انہیں تمام رازوں سے پردہ اُٹھانا چاہیے ۔آج ہمدم ِدیرینہ،ڈاکٹر احسن اخترناز بے طرح یاد آرہے ہیں جنہوں نے مدتوں پہلے کہا تھا …؎
ماں مٹی نے خوں مانگا تھا اوربیٹے
پانی سے تالاب کو بھرتے جاتے ہیں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024