امریکی صدر ٹرمپ نے قبلہ اول بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر کے جس شر انگیز ی کا مظاہرہ کیا ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر کے اکثر ممالک اسکی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ انتہائی قدم اٹھا کر گویا عالمی امن کو سبوتاژ اور امن عمل کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب اگرچہ دور حاضر کو بہت سے حلقے انسانی تہذیب و تمدن اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے مثا لی قرار دیتے نہیں تھکتے، مگر زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو اس تاثر کی تائید کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، خصوصاً آج بھی دنیا میں ایسے بہت سے بد قسمت خطے موجود ہیں جہاں انسانی حقوق کی پامالیوں کا بدترین سلسلہ اپنی پوری شدت اور تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور ایسے علاقوں میں یقیناً مقبوضہ کشمیر اور فسطین سر فہرست ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے گذشتہ 70 سالوں سے غیر انسانی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے مگر اسے عالمی ضمیر کی بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس جانب عالمی برادری نے ہنوز خاطر خواہ توجہ نہ دی اور اسی وجہ سے اس علاقے میں کشمیریوں کی نسل کشی کا قبیح عمل نہ صرف جاری ہے بلکہ ہر آنیوالے دن کے ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ جنگی جرائم بالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کو امن کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے، اس ضمن میں جارحیت کے نقطہ نظر سے جنگ کی منصوبہ بندی، تیاری اور عملی جارحیت شامل ہیں۔ جنگی جرائم کی دوسری قسم وہ ہے جس کے مطابق انسانی اقدار کیخلاف جرائم ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال کے مطابق اگر دو ممالک یا گروہوں کے مابین بوجوہ جنگ کی نوبت آ ہی جائے تو اس جنگ کے دوران شہریوں کی ہلاکت، عوام پر جان بوجھ کر گولہ باری، زیر حراست افراد کیخلاف دوران حراست تشدد اور ہلاکتیں اور شہری ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگر کوئی فرد یا گروہ جان بوجھ کر اس قسم کے جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو عالمی برادری کا فرض ہے کہ جنگی جرائم کے ٹربیونل قائم کر کے ایسے افراد کیخلاف باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ’’نورم برگ‘‘ میں عالمی برادری نے اسی بین الاقوامی قانون اور روایت کے تحت بہت سے نازی جرمنی کے اہلکاروں اور کئی جاپانیوں کو باقاعدہ مقدمہ چلانے کے بعد مختلف نوعیت کی سنگین سزائیں دی تھیں اور پھر گذشتہ برسوں میں یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد سربیا کے حکمران ’’ملازووچ‘‘ اور اسکے کئی ساتھیوں کو گرفتار کیا اور ہیگ (ہالینڈ میں قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل ) میں ان کیخلاف مقدمات چلائے گئے۔ اسکے علاوہ کمبوڈیا کے سابق حکمران ’’پول پاٹ‘‘ کے قریبی ساتھیوں کیخلاف بھی جنگی جرائم کے ارتکاب کے میں بھی مقدمات چلے۔
ایسی صورتحال میں بہت سے حلقوں کی یہ رائے خاصی وزن اختیار کر گئی ہے کہ پچھلے پچیس برسوں سے جس بڑے پیمانے پر جموں کشمیر کی مقبوضہ ریاست میں انسانی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئیں اور جس شدت سے یہ سلسلہ جاری ہے، ہزاروں افراد کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا،ان جرائم کے مرتکب بھارتیوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر قائم جنگی جرائم کے ٹربیونل میں مقدمات کیوں نہ چلائے جائیں؟
مقبوضہ کشمیر میں دہلی کے انسانیت سوز مظالم کا جائزہ لیں تو حیرانگی اور بے پناہ افسوس ہوتا ہے کہ اس جدید دور میں بھی زمین کے کسی خطے پر اس قدر مظالم روا رکھے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ جنوری 1989 سے لیکر 30 اکتوبر 2017 تک مقبوضہ کشمیر میں 94,874 بے قصوروں کو شہید کر دیا گیا جبکہ 7100 لوگ حراست کے دوران شہید ہوئے۔ 108,471 دکانوں اور مکانوں کو مسمار یا نذر آتش کر دیا گیا۔ 107,674بچوں کے سروں سے والدین کا سایہ چھین لیا گیا اور 22,862 خواتین کو بیوگی کے لق و دق صحرا میں دھکیل دیا گیا۔ 11,026 خواتین کے ساتھ اجتماعی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے۔ اسی تناظر میں دس دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جا تا ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں خصوصاً نہتے فلسطینیوں اور کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو جس برے طریقے سے مجروح کیا جا رہا اسے ایک ستم ظریفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے!