21 اگست کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دھواں دار تقریر میں جنوبی ایشیا اور افغانستان کیلئے نئی پالیسی کی رونمائی کی گئی۔ پاک۔امریکہ تعلقات کی 70 سالہ تاریخ میں کسی صدر نے پاکستان کی اس انداز میں ذلت اور تضحیک نہیں کی تھی۔ اس تقریر کے رد عمل میں پاکستان کا ہر طبقہ و فردیک زبان ہو گئے اور انہوں نے بلا تفریق اس تقریر کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس میں لگائے جانیوالے الزامات کو مسترد کر دیا اور دھمکیوں سے مرعوب نہ ہونے کا واضح پیغام دیدیا۔ امریکہ کو شاید پاکستان کی طرف سے اس قدر شدید رد عمل کا اندارہ نہیں تھا۔ جب امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پاکستان آنے کا عندیہ دیا تو ان سے معذرت کر لی گئی۔ کچھ دنوں بعد ہماری صفوں میں کمزوری کے آثار نمودار ہونے لگے جب پہلے وزیر خارجہ اور بعد ازاں وریر داخلہ نے ـ’گھر کودرست کرنے کی ضرورت‘ کی شرط کے ساتھ موقف کو بدلا اورنیویارک جاتے ہوئے لندن میں وزیراعظم کو بھی ہم زبان کر لیا۔ بعد ازاں انہوں نے اس موقف کو تواتر کے ساتھ اپنے امریکہ کے دورۂ ثانی میں کھل کر بیان کیا اور کشمیر سے وابستہ تحریکوں کو مسلسل افغانستان کے حالات سے جوڑتے رہے۔ دورۂ ثالث میںاپنے ہم منصب سے مذاکرات میں وہ نسبتاً پرسکون نظر آئے۔ لیکن امریکی وزیرِ خارجہ کے حکومت کے بحران کو پاکستان کے بحران سے جوڑنے کے بیان نے پھر خدشات کو جنم دے دیا۔
اس دوران دھمکیوں کا عمل مختلف شکلوں میں سامنے آنے لگا۔ سب سے پہلے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹِس نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا کہ پاکستان کو ہم نے ایک اور موقع دیا ہے اور اس کے رد عمل کا انتظار کر رہے ہیں اور اگر اس نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو ہم امریکی صدرکے سامنے متبادل اقدامات تجویز کرینگے جو وہ پاکستان کے خلاف اٹھا سکتے ہیں۔ ایک دوسرے موقع پر جوائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے یہ ہرزہ سرائی کی کہ پاکستان کیISI دہشتگردوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ یہ بالکل ویسا ہی بیان ہے جو ستمبر 2011 میں ان کے پیشرو مائک ملن نے یہ کہہ کر دیا تھا کہ حقانی نیٹ ورک درحقیقت ISI کا حقیقی بازو ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اس خطے کے ملکوں کے دورے میں کچھ دیر کیلئے پاکستان میں قیام کیا اور اہم ترین سول اور فوجی عہدیداروں سے ملاقات اور مذاکرات کیے۔ تمام اخبارات نے یہ سرخیاں لگائیں کہ پاکستان نے ریکس ٹلرسن کا سرد مہری سے استقبال کیاجب دفترِ خارجہ کے ایک درمیانے درجے کے افسر نے انہیں ائرپورٹ پر خوش آمدید کہا۔ وزیرِ خارجہ کابل سے پاکستان تشریف لا رہے تھے۔ روانگی سے قبل انہوں نے بیان دیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ صرف اس صورت میں کام کرینگے جب وہ اپنے ملک سے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کر دیگا۔ اس غیر حساس بیان کا نتیجہ نہ صرف سرد مہر استقبال کا باعث بنا بلکہ پاکستان کی قیادت نے دو ٹوک الفاظ میں اپنے مؤقف کا اظہار کیا اور امریکی الزامات کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس مؤقف کی بھرپورترجمانی ہمارے وزیرِ خارجہ جناب خواجہ آصف نے سینیٹ سے اپنے خطاب میں کچھ یوں کی کہ انہوں نے اپنے گذشتہ کمزور اور مبنی برخلجان بیان کا کفارہ ادا کر دیا۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ ہم نے امریکہ کو بتا دیا ہے کہ ہم کسی کیلئے کرائے کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہم تعاون صرف اس صورت میں ہی کریں گے اگر وہ برابری اور اعتماد کی بنیادوں پر ہو گا۔ ہماری سرزمین پر کسی بھی دہشتگرد کی کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ لہٰذااس الزام تراشی کا مقصد صرف امریکہ کی افعانستان میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور اس کا الزام دوسروں پر ڈالنے کی کوشش ہے۔ یہ خیالات درحقیقت پاکستانی قیادت کی اجتماعی سوچ پر مبنی ہیں اور سول اور فوجی قیادت میں اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے دورے پرروانگی سے قبل واشنگٹن میں سنٹر برائے اسٹریٹیجک و بین الاقوامی اسٹڈیز میں ’’امریکہ اور بھارت کے 100 سالہ تعلقات کا تصور‘‘ کے عنوان پر کلیدی خطاب کیا تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں نے اس خطاب کو بھارت کی جانب ایک ’محبت نامہ‘ کا نام دیا ہے۔ اس میں پیش کردہ اہم پیغامات میں ہندوستان کو خطے کی قیادت سونپنا، اس کو درپیش خطرات کو امریکی خطرات سمجھنا، بھارت کی سلامتی اور خودمختاری کا بھرپور دفاع اور بھارت اور امریکہ کیلئے اس اختیار کا اعلان کہ وہ دیگر ممالک کی سلامتی اور خودمختاری کیلئے ان کو مسلح کر سکتے ہیں ، شامل ہیں۔ اس موقع پر ٹلرسن نے سخت ترین الفاظ میں چین کو بھی متنبہ کیا کہ بحیثیت ایک ابھرتی ہوئی طاقت وہ ضابطوں کی پابندی نہیں کر رہا (بمقابلہ بھارت) جس سے وہ اُس بین الاقوامی نظام کو جو ضابطوں کی پابندی پر مبنی ہے‘ کمزور کر رہا ہے۔ مثلاً چین کی جنوبی چین میں اشتعال انگیزیاں اور کمزور ممالک کو ہڑپ کر جانے والی معاشی حکمت عملی۔چین کیخلاف امریکی وزراء نے جارحانہ انداز اختیار کر لیا ہے۔ وزیرِ خارجہ کی اس تقریر سے پہلے وزیر دفاع جیمز میٹِس نے سینٹ میں بیان دیتے ہوئے نہ صرف CPEC منصوبے کی برملا مخالفت کر دی بلکہ اس کو چین کی توسیع پسندانہ سوچ کا عکاس قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اسکی مخالفت اس بنیاد پر بھی کر دی کہ وہ متنازع علاقوں سے گذرتا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے دورے کے اختتام پر جنیوا واپس پہنچ کر اس دورے سے متعلق صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے پاکستان کو پیشکش کی ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسائل کے حل کیلئے مدد کر سکتے ہیں۔ ایک صحافی کے اس تبصرے پر کہ پاکستان نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا ہے، وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یہ اس ملاقات کی صحیح تصویر نہیں ہو گی لیکن انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو بتا دیا ہے کہ واشنگٹن اپنی پالیسی پر عمل کریگا چاہے پاکستان ساتھ ہو یا علیحدہ رہے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پالیسی ضروری ہے اور اگر آپ(پاکستان) یہ نہیں چاہتا یا سمجھتا ہے کہ وہ یہ نہیں کر سکتا تو ہم اپنی حکمت ِعملی میں ضروری تبدیلی کر کے اپنے مقاصد دوسرے طریقے سے حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات احترام پر مبنی ہیں لیکن ہمارے سامنے کچھ اہم کام ہیں جو جائز ہیں جن کوکرنے میں ہمیں انکی مدد کی ضرورت ہے۔ ’’آپ انہیں کر سکتے ہیں یا آپ انہیں نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ نہیں کرنا چاہتے تو آپ صرف ہمیں بتا دیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ کوئی دھمکی نہیں ہے بلکہ حقیقت کا بیان ہے۔ ہماری ساری پالیسی واقعاتی صورتحال پر مبنی ہے۔ جو حالات کا تقاضا ہو گا ہم اس کے مطابق عمل کریں گے۔‘‘
دہشت گردوں کی فہرستوں اور ان میں درج ناموں کے سوال کا انہوں نے جواب نہیں دیا لیکن اس قدر بتایا کہ معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے اور اس پر اتفاق ہوا ہے کہ مخصوص افراد اور انکے پتے سے متعلق کی معلومات فراہم کی جائیں گی اور ہم پاکستان کی کارگردگی کا جائزہ لیں گے۔ کچھ یہی بات انہوں نے امریکی سینٹ کے سامنے بھی بیان کی۔دوسری جانب بھارت کے دورے میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کے بعد انہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ دہشتگرد گروہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ حکومتِ پاکستان کا عدم استحکام کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیرخارجہ کا کندھے سے کندھا ملا کر چلنے پر شکریہ ادا کیا۔
متذکرہ پس منظر میں کچھ اہم امور واضح ہو گئے ہیں۔ اول یہ کہ پاکستان پر اس وقت شدید دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ دوم، امریکی صدر کی دھمکی کے بعد وزارئے خارجہ اوردفاع نے بھی دھمکی آمیز لہجہ اختیار کر لیا ہے۔ سوم، امریکہ نے پاکستان کو اپنے طور پر مہلت یا موقع دیا ہے۔ اور ساتھ ہی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر تم ہمارے کہنے کے مطابق کام نہیں کرو گے تو ہم دوسری طرح سے کام نکالنا جانتے ہیں۔ چہارم، امریکہ نے بھارت کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ہم اس خطے میں تمہاری بالادستی قائم کرنے کیلئے تمہاری مکمل حمایت اورمدد کرینگے۔ پنجم، امریکہ نے بھارت کو لاحق خطرات کو امریکہ کو پیش خطرات سے تعبیر کرکے اسکی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کا عزم کیا ہے، جو ایک دفاعی معاہدے کے مترادف ہے۔ ششم، امریکہ نے ایک طرف چین کیخلاف سخت زبان استعمال کرنا شروع کر دی ہے اور دوسری جانب کھل کر CPEC منصوبے کی اسی انداز میں مخالفت شروع کر دی ہے جیسے بھارت کر رہا ہے۔
یہ تناظر ہے پاکستان کو درپیش سلامتی کے چیلنجز کا ۔ حکمت و تدبر سے ان نازک حالات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہماری نظر میں ہماری قیادت کو حکمتِ عملی بناتے وقت ان امور کو سامنے رکھنا ہو گا:۔ ایک، ساری قوم حکومتی مؤقف کی پشت پر کھڑی ہوتی ہے۔ دو، دھمکیوں سے مرعوب ہونے کی ضررت نہیں ہے لیکن ان کو سنجیدہ لینا بہت ضروری ہے۔ تین، پاکستان کے بغیر امریکہ افغانستان میں امن کے حوالے سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ امریکہ سے مذاکرات میں ہم پر اعتماد انداز میں مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی مدد کی حدود و قیود کا واضح، برملا اور بلا تردد اظہار کریں۔ چار، چین کیخلاف جس اعلانیہ صف بندی کا اظہار کیا جا رہا ہے، اسکے پس منظر میں اب چین سے مزید گہرے اور اعلانیہ تعلقات کی ضرورت ہے بلکہ جس طرح اس نے صدر ٹرمپ کی تقریر کے فوراً بعد پاکستان کی حمایت میں بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے، اسکے اعادے اور موجودہ دھمکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اضافی حمایت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اعلیٰ سطح پر رابطہ کر کے چین کی نو عزم قیادت کو اس صورتِ حال سے فوری آگاہ کیا جائے۔ پانچ، امریکہ کو ایک بات کھل کر بتانی پڑیگی اور وہ یہ کہ بھارت کا افعانستان میں کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اس کو صرف اور صرف ہمیں مشکلات میں پھنسانے کیلئے وہاں جگہ دی جا رہی ہے۔ اور علاوہ ازیںبھارت سے وابستہ ہمارے مسائل اور خصوصاً کشمیر کی آزادی سے وابستہ پاکستان میں موجود حمایت کے خلاف بھارت کی مدد کرنا اور ہم سے یہ توقع رکھنا کہ ہم اس عوامی حمایت کو کچل دیںتو نہ صرف یہ ممکن نہیں ہے بلکہ اس خطے میں امن کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا پاکستان کے مفادات کیخلاف کوئی بھی اقدام درحقیقت بھارت کی مدد اور اعانت تصور کیا جائیگا اور پاکستان کو اپنے دفاع کیلئے ضروری اقدامات کا حق حاصل ہو گا۔