نوازشریف نے پاکستان واپسی پر ’ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ والا پرانا کیسٹ دوبارہ چلا دیا۔ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ بھی تاریخ میں رقم رہے گا۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ مخمصے کا شکار اور عالم تذبذب میں نوازشریف ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اپریل 1993ء میں بھی انہوں نے ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کشکول توڑنے کی بھی بات کی تھی۔ اسکے بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58-2(B) کے تحت انہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی سے گرا دیا تھا۔ اس زمانے میں بھی میاں صاحب ’’زلزلے‘‘ کے اصل مرکز کا پتہ نہ لگا سکے تھے۔ 1997ء میں کرسیٔ عظمیٰ پر دوبارہ جلوہ افروز ہوئے تو مذکورہ شق پر چھری چلا دی۔ اس وقت بھی انہیں بھاری مینڈیٹ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا حالانکہ سیاسی اور غیر سیاسی سیانوں کو اس وقت بھی علم تھا اور آج بھی ہے کہ سیاسی زلزلے کا مرکز کہاں واقع ہے۔ سسرال کی طاقت کا اندازہ نہ کرنے والی بہو زلزلے کے جھٹکوں سے دوچار رہتی ہے۔ وہ طاقت کے اصل مرکز کو سمجھ نہیں پاتی یا پھر اپنے مال و دولت اور حسن و جمال کو دیکھ کر رعونت اور خود فریبی کا شکار ہو جاتی ہے۔
یونیفارم میں کھڑا عام گارڈ بھی عام آدمی نہیں ہوتا۔ اس کے ہاتھ میں پستول ہی اس کی ہیبت ہوتی ہے اور ہر یونیفارم کی رنگت بھی مختلف ہوتی ہے۔ زلزلے کے مرکز کی یونیفارم سے بچہ بچہ واقف ہے۔ مودی‘ اشرف غنی اور ٹرمپ بھی اس یونیفارم کی طاقت سے آشنا ہیں۔ سیاستدان کوہ ہمالیہ کے برابر مینڈیٹ کے دعوے دار ہو کر بھی کوہ پیما نہیں کہلا سکتے۔ کوہ پیما ہی چوٹیاں سر کرتے اور جھنڈے گاڑتے ہیں۔ نواز شریف کو زندگی میں 7 کوہ پیماؤں کی رفاقت نصیب ہوئی۔ سارے ہی انہیں سلام کرتے تھے۔ 28 جولائی سے اب تک نوازشریف نے گرد و نواح کے دوستوں کی باتوں پر کان نہیں دھرا۔ چودھری نثار اور شہباز شریف کوہ پیماؤں کی نفسیات اور اختیارات کو عام پاکستانیوں سے سو گنا زیادہ جانتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ وہ چوٹی ہے جس پر کوہ پیما ہی قدم جما سکتے ہیں۔ اداروں کو حدود میں رہ کر کام کرنے کا درس نصابی کتابوں کی تھیوریوں سے زیادہ نہیں۔ اکنامکس کے طلب اور رسد کے قانون کو منافع خور ذخیرہ اندوز آڑھتی کیا سمجھتے ہیں۔ ٹماٹر 300 روپے کلو اکنامکس کے قانون کے تحت تو نہیں بیچا جاتا۔ پٹرول کی قیمتوں میں ردوبدل بھی قانون طلب و رسد کا محتاج نہیں۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی عادت ہو تو بیک سیٹ پر بیٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ 12 نومبر کو ایبٹ آباد میں شیر گرجے گا۔ اپنے دفاع میں جارحانہ باولنگ کرے گا۔ ابھی بہت کچھ ہونے جا رہا ہے۔ لہٰذا قیاس آرائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد وزارت عظمیٰ کس کا مقدر ٹھہرے گی۔ اس بارے میں نواز شریف نے کچھ نہیں کہا۔ ن لیگ میں نوازشریف اور مریم نواز اداروں کے بارے میں سوچ کے حوالے سے ایک صفحے پر ہیں۔
کوہ پیماؤں کی طرف سے ڈان لیکس ٹویٹ کی واپسی دوطرفہ ’’واپسی‘‘ ثابت ہوئی۔ پارلیمنٹ نے احتساب کے حوالے سے کچھ کیا ہوتا تو آج نواز شریف مریم نواز کے ہمراہ احتساب عدالت کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے دکھائی نہ دیتے۔ نیب کی الماریوں میں 17 سال سے بند گرد زدہ فائلوں کو نکالنے کا حکم نئے چیئرمین نے دیا ہے۔ اب ساری کی ساری فائلیں جھاڑ پونچھ کے بعد احتساب عدالتوں میں پیش ہوں گی۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے مقدمات بھی کھل گئے ہیں۔ عمران خان کے جلسوں کے منتظم علیم خان کے سر پر بھی نیب مقدمات منڈلا رہے ہیں۔ پنجاب میں 56 کمپنیوں میں 80 ارب روپے کی مبینہ کرپشن کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ پی پی پی اور ن لیگ نیب ختم کر کے احتساب کمیشن لانے پر متفق ہو چکی ہیں۔ ادھر نیب نے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
سلئین مافیا اور گاڈ فادر کہنے والی عدالت کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ جس پارلیمنٹ میں کورم پورا نہیں ہوتا اور جس کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد اور کسی کرپٹ افسر کو سزا نہیں ملتی وہ اپنی بالادستی کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے۔ اب کوئی مک مکا نہیں ہو سکتا۔ بظاہر آصف زرداری نے ن لیگ سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔ یوم حساب صاف دکھائی دے رہا ہے۔ جب بھائی بھائی‘ ماں باپ اور بیوی بچوں سے بھاگے گا ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی۔ جلسے جلوسوں پریس کانفرنسوں سے یہ دن نہیں ٹلے گا۔
کیا ہماری قسمت کی لکیروں میں بحران لکھا ہے۔ ابھی چند روز پہلے وزیراعظم کے منہ سے فالتو بجلی کی باتیں اور اب بجلی کا بحران 17 بجلی گھر کیوں اور کیسے بند ہوئے‘ بجلی کی مجموعی پیداوار 6705 میگاواٹ کم ہو گئی‘ گردشی قرضہ ن لیگ آئی تو 400 ارب اور اب الوداعی سال میں 800 ارب۔ وزیر خزانہ ملک سے دور اور احتساب سے قریب۔ استعفیٰ دینے کو بھی دل نہیں چاہتا لیکن کوئی کب تک لحاظ کریگا۔ پی ایس او نے حکومتی پاور جنریشن کمپنیوں سے 276 ارب روپے کے بقایاجات وصول کرنا ہیں۔ حکومتی ادارے واجبات ادا نہیں کرتے‘ تھانوں کی بجلی کون بند کریگا؟ بجلی کی پیداوار کا زیادہ انحصار فرنس آئل پر ہے۔ فرنس آئل مہنگا ہو تو بجلی مہنگی ہو جاتی ہے۔ فرسودہ سسٹم 15 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کر سکتا۔ خبر آئی ہے کہ بجلی بنانے والی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا کام شروع ہو رہا ہے۔ 210 ملین پاکستانیوں کی اکنامکس سے بے نیازی حکمران اشرافیہ کو اپنی اکنامکس کی فکر ہے۔ حدیبیہ اور ماڈل ٹاؤن رپورٹیں نیام سے باہر آنے والی ہیں۔ ن لیگ کی حکومت کو جلد یا بدیر فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ ریاست کی ہم نوا ہے یا پھر نوازشریف کے لئے قربانی دیتی ہے۔ احتساب عدالتیں بتا رہی ہیں کہ شریف فیملی کے لئے سموگ بڑھتی جا رہی ہے۔ ن لیگ کے 188 ایم این ایز کو بھی سموگ دکھائی دے رہی ہے۔ 87 میں سے 44سنیٹرز ن لیگ کے ہیں۔ ن لیگ کو یہ بھی علم ہے کہ ریاضی دانوں نے ان کے لئے پلس مائنس فارمولے پر کام مکمل کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی اور پی پی پی پلس کی طرف جا رہی ہیں۔ عمران خان کے نزدیک نواز شریف مائنس ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے 2018ء میں تبدیلی آ رہی ہے۔ عوام بھٹو کی جیت کو بھول جائیں گے۔