بھارت کی محبت حسینہ واجد کولے ڈوبے گی وہ حسینہ واجد جس کے غدارباپ شیخ مجیب نے کالی ماتا، اندراگاندھی کویہ کہنے کاموقع دیا تھا کہ ہم نے پاکستان کی بنیاد، دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبودیا۔ آج وہی دو قومی نظریہ، نئے رنگ وروپ میںدوبارہ حسینہ واجد کوچیلنج کرتا رہتا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے بنگلہ دیشی کالی ماتاحسینہ واجد پر بڑی کڑی مشکل آن پڑی ہے ،آگے کھوہ(کنواں)اور پیچھے کھائی ہے اب جائے تو جائے کہاں۔
مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ بھارت اپنا تیارکردہ ناقابل بھروسہ اسلحہ اورناقص گولہ بارود بنگلہ دیش کوفروخت کرنا چاہتا ہے لیکن بنگلہ دیش کی فوجی قیادت بھارتی ساختہ ،ہتھیار نہیںخریدنا چاہتی، بنگلہ دیشی جرنیل بھارت کی بجائے چینی ہتھیاروں کوپسند کرتے ہیں جبکہ نئی دہلی کے حکمران خاص طورپر مودی بنگلہ دیش کو 25سالہ معاہدہ دوستی کے ذریعے اسے بے دست وپا بناناچاہتاہے جبکہ حسینہ واجد حالات کی ’’نزاکت‘‘ کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کو مفاہمت کی یادداشت تک محدود رکھنا چاہتی ہیں کیونکہ بنگلہ دیشی فوجی قیادت بھارت کا کسی قسم کا غلبہ قبول کرنے کوتیار نہیں ہے۔ بنگلہ دیشی جرنیلوں نے ناقص بھارتی ہتھیاروں کی خریداری کی تجویز کویکسر مسترد کردیا ہے۔ آج کی بنگلہ دیشی فوج اوراس کی قیادت خالصتاً’’ساختہ بنگلہ دیش ‘‘ہے جس پر بھارت کا کسی قسم کاکوئی نفسیاتی دبائو یامرعوبیت نہیں ہے اس لئے فوجی قیادت نے معاہدہ دوستی اوربھارت سے خریداری پر اپنے پیشہ وارانہ تحفظات کاکھل کراظہار کردیا ہے جس پر حسینہ واجد عجب مشکل میں پڑ گئی ہے۔ اس کا دورہ بھارت کئی بار منسوخ ہوچکا ہے، بھارتی اصرار پر اب اپریل 2017میں حسینہ واجد کے دورے کے انتظامات کرائے جارہے ہیں ۔گم سم حسینہ واجد بے بسی سے چاروں اوردیکھ رہی ہے۔ اسے اپنے گناہوں کیساتھ ساتھ اپنے باپ کے گناہوں کاکفارہ اداکرنا پڑے گا، خراج دینا ہوگا عوام کو تو بنگلہ قوم پرستی کی نعرے بازی سے گمراہ کیاجاسکتا ہے لیکن فوج کی قیادت کو اس ’’کھلونے‘‘سے نہیں بہلایا جا سکتا۔ خطہ بنگال کا شورید ہ سر لہو پوری طرح بروئے کار ہے اور حسینہ واجد کی نگاہوں کے سامنے اپنے مقتول باپ اور دیگر اہل خانہ کی مسخ شدہ لاشیں گھوم رہی ہیں ۔نام نہاد بنگلہ بدھو کو سارے خاندان سمیت گرم خون بنگالی فوجی افسروں نے چشم زدن میں ذبح کرکے رکھ دیا تھا۔اس لیے حسینہ واجد بھارت کا دورہ کرنے سے مسلسل’ کنی کترا‘رہی ہیں۔ اب بھارت کے بے پناہ دبائو پر انہوں نے اپریل2017 میں نئی دہلی جانے پر آمادگی ظاہرکردی ہے لیکن بنگلہ دیشی فوج بھارتی ہتھیار خریدنے پر کسی طور تیار نہیں ہے اس لئے حسینہ واجد 25سالہ جامع معاہدہ دوستی کی بجائے بھارت کو خوبصورت الفاظ مسلسل مفاہمتی یادداشت پرٹرخانا چاہتی ہے۔
دسمبر 2016میں بھارتی وزیردفاع منوہر پاریکر نے دورہ ڈھاکہ کے دوران بنگلہ دیش کے ساتھ دفاعی تعاون کے جامع سمجھوتے پر زور دیا تھا جس کے جواب میں بنگالی جرنیلوں نے کسی قسم کی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا جسکے بعد نئی دہلی کے حلقوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی جو اب بڑھتے بڑھتے اضطراب کی شکل اختیار کرگئی ہے کیونکہ بنگلہ دیشی سفارت کار بھی بھارت کی غلامی کی بجائے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر زور دے رہے ہیں کہ 1971 کوگزرے چاردہائیاں بیت چکی ہیںاور پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ چکا ہے۔
پاکستانی مظالم کی کہانیوں کے افسانے بے معنی ہوتے جارہے ہیں جسے بنگلہ دیشی ’موم بتی‘مافیا زندہ رکھنے کی سرتوڑ کوشش کررہا ہے جس میں ہمارے کئی ’میرجعفر اورمیر صادق‘ ان کی کھل کر حمایت کررہے ہیں یہ وہی بدبخت ہیں جو نہایت دیدہ دلیری سے اب بھی1971کے مبینہ ’جنگی جرائم‘پر بنگلہ دیش سے باضابطہ معافی مانگنے کاپراصرار کرتے رہتے ہیں۔
ڈھاکہ کے منظرنامے پر مسلم بنگال کی نئی صبح طلوع ہورہی ہے۔ نئے رنگ وروپ میں دوقومی نظریہ ازسرنوجنم لے رہا ہے ۔آج بنگلہ دیشی فوج بھارت سے معاہدہ دوستی اورہتھیاروں کی خریداری پر مزاحمت کررہی ہے کلکتہ کے عین سامنے ڈھاکہ میں ایک نیا پاکستان طلوع ہورہا ہے حریت پسند بنگالیوں کا مقدس لہو سر چڑھ کربول رہا ہے ۔
کہتے ہیں کہ بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے فروری2017 کے آخری ہفتے میں ڈھاکہ دفتر خارجہ میں دوران مذاکرات جب ضرورت سے زیادہ بے تکلفی کامظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو منجھے ہوئے بنگلہ دیشی سفارت کاروں نے صرف سرد مہری کامظاہرہ کرکے اسکی آنکھیں کھول کررکھ دیں۔ بنگالی سفارت کار نے کہا’’ہم بھارت سے دفاعی تعاون کررہے ہیں ۔ہماری مسلح افواج کے درمیان پیشہ وارانہ تعلقات بڑے اطمینان بخش ہیں۔ بھارت اوربنگلہ دیش علاقے میں دہشتگردی کیخلاف باہم مل کر شانہ بشانہ لڑرہے ہیں لیکن ہمارے خیال میں طویل مدتی معاہدہ دوستی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی اس کیلئے حالات سازگارہیں۔
بنگلہ دیش نے گذشتہ دنوں چین سے دوآبدوزوں کا سودا کیا ہے جس پر نئی دہلی میں صف ماتم بچھ گئی ہے جس کے بعد بھارتی دفاعی تجزیہ نگاروں نے بڑے جارحانہ انداز میں یہ سوال اُٹھائے ہیں کہ بنگلہ دیش کے تین اطراف بھارت موجود ہے طاقتور بھارتی بحریہ کی موجودگی میں بنگلہ دیش کو آبدوزیں خریدنے کی کیاضرورت ہے۔بنگلہ دیش کو سمندروں میں کس سے خطرہ ہوسکتا ہے بنگلہ دیشی سفارتی اورفوجی حکام ان سوالات کواپنے اندرونی معاملات میں کھلی بھارتی مداخلت قرار دیتے ہیں کہ بھارت کو ن ہوتا ہے بنگلہ دیش کی ترجیحات کاتعین کرنے والا کہ کس چیز کی ہمیں ضرورت ہے اورکون سی چیز ہمیں خریدنی چاہیے۔
بنگالی فوجی ماہرین یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ اگربھارتی ہتھیار اتنے قابل اعتماد اوراعلی درجے کے ہوتے تو بھارت اسی طرح کے ہتھیار باہر سے کیوں خریدتا ہے جبکہ برما اور نیپال کی افواج ناقص بھارتی ہتھیاروں کی وجہ سے مودی کی جان کو رورہی ہیں۔ بھارت ہتھیاروں کی خریداری کیلئے 500ملین ڈالر قرض دینے کیلئے تیار ہے۔ بنگلہ دیشی حکام قرض لینے کیلئے تیار ہیں لیکن ہتھیار اپنی مرضی سے خریدنا چاہتے ہیں۔ حسینہ واجد وہ فوجی معاملات میں جرنیلوں کی تجاویز کو ترجیح دیتی ہیں وہ اپنی حدود سے باہر نہیں نکلنا چاہتیں۔حسینہ واجد بھارت اورچین کے درمیان بنگلہ دیش کے تعلقات میں توازن قائم کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہیں کہ بھارت عوامی لیگ کافطری حلیف ہونے کے باوجود، بنگلہ دیش کی تعمیر و ترقی میں چین کا کردار بنیادی اہمیت اختیارکرگیا ہے ۔گذشتہ نومبر 2016میں چینی صدرژی کے دورہ ڈھاکہ کے دوران بنگلہ دیش نے 25ارب ڈالر مالیت کے سمجھوتوں پر دستخط کئے تھے۔
حسینہ واجد ’تنے‘ہوئے رسے پر چل رہی ہیں بھارت سے دفاعی معاہدہ کرکے وہ اپنے جرنیلوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔ اسی طرح وہ عام انتخابات سے پہلے بھارت کی ناراضگی بھی مول نہیں لیناچاہتیں جس کیلئے وہ بھارت کو مفاہمتی یادداشت کالالی پاپ دینا چاہتی ہیں۔بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا ان کیلئے سب سے کڑامتحان بن چکاہے کہ وہ بھارت اور چین دونوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی اورنہ ہی وہ دونوں سے بے جاقربت کاتاثردینا چاہتی ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38