ٹیفٹ امریکہ کا صدر رہا ہے، ایک تقریب میں سپاس نامہ نگار نے کہا معزز خواتین و حضرات میں آج ایسی ہستی سے آپ کا تعارف کرا رہا ہوں جس کی طاقت ، ہیبت اور عظمت کے آگے یورپ کے شہنشاہ بھی پانی بھرتے ہیں جواباً ٹیفٹ نے کہا’’ ان عام باتوں کا مقصد میرا سیاسی قد بڑھانا نہیں بلکہ تقریب کی اہمیت کو دو چند اور دوبالا کرنا ہے۔ سارا ہال ہنسی اور قہقوں میں ڈوب گیا۔ (ٹیفٹ امریکہ کا واحد صدر تھا جو بعد میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بھی رہا) کسرِنفسی کے باوصف امریکی صدر ، امریکہ کا صدر ہی ہوتا ہے، امریکہ بہادرکی طاقت اور ہیبت کا اندازہ لگانے کیلئے کم از کم چھوٹے ملکوں کو کسی قیافے اور قیاس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صحیح معنوں میں ہمارا ان داتا ہے ہماری سوچ، فکر، روش اور چال چلن کا ہردر واشنگٹن کی طرف وا ہوتا ہے۔ تمام فیصلے وہیں ہوتے ہیں اور پھر حکمرانوں کے ذریعے حکم کی صورت میں عوام تک پہنچتے ہیں ۔حکم عدولی کی سزائیں بڑی کڑی رکھی گئی ہیں اور انہیں سناتے ہوئے کسی جذبہ ترحم سے کام نہیں لیا جاتاکیونکہ رحم اور رعایت آداب جہانبانی اور جذبہ جہانگیری کے منافی ہیں۔ بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں، کالم ختم ہو جائے گا لیکن تفصیل ختم نہیں ہو گی۔ یہ جو مقہور ایران ہے، یہ جو مفلوج عراق ہے پنبہ کجا کجا نہم افغانستان ہے۔ مجبور کویت ہے، سسکتی ہوئی عرب معیشت ہے، بلکتی ہوئی انسانیت ہے، سب اس کی چشم غیض کے اشارے ہیں جب اس کا ماتھا شکن آلود ہوتا ہے تو حکومتیں بدل جاتی ہیں، جب چہرے پر غیض و غضب کے آثار مترشح ہوتے ہیں تو حاکم تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنی بڑی اور اکلوتی سپر پاور کا صدر کمزور ذہن نہیں ہو سکتا، وہ اس کی طاقت اور ’’ عظمت ‘‘ کا مظہر ہوتا ہے۔
2۔ فرانسیسی سیاسی مفکر مانٹیسک نے کہا تھا۔ Power Corrupts and absolute power corrupts absolutelyیہی وجہ ہے کہ جب امریکی آئین بنا تو ’’فائونڈنگ فادرز‘‘ نے اسکی بنیاد Cheks and Balancesپر رکھی۔ مقصد یہ تھا کہ صدارت کو آمریت میں نہ بدلنے دیا جائے، امریکہ میں کانگرس اور عدلیہ کے علاوہ سب سے بڑا چیک امریکی عوام بنتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، پہلے تو اس کا صدر بننا Freak of historyہے۔ تمام اندازے ، تخمینے ، تجزیے ، دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نتیجہ آنے پر دنیا نے انگشت حیرت دہن میں ڈال لی۔ امریکی تاریخ میں ایسا آج تک نہیں ہوا، شاید پھر کبھی نہ ہو۔ تینوں مباحثے اس نے ہارے، ڈیبیٹس میں دشنام طرازی، ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ہلیری کو اس کے منہ پر Nasty Womanکہا ۔انکم ٹیکس کی تفصیل دینے سے انکار کر دیا۔ تمام امریکی میڈیا کو کرپٹ کہا۔ معتبر ریپلکن رہنمائوں کے متعلق شگوفے چھوڑے، عورتوں کی تذلیل کی ،پوپ کے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیانات دیئے۔ چین ،جاپان، فلپین ،ایران سے ٹکرانے کا عندیہ دیا۔ جرمنی کی انگیلا مارکل کے متعلق جملے کسے،باایںہمہ امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا۔ اسکے اعلانات ’گو پاگل پن‘ کی حدوں کو چھو رہے تھے
لیکن There Was method in madnessاس کائیاں شخص نے امریکی عوام کے ذہن کو ٹھیک طرح سے پڑھا اور انکی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی۔ 9/11دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت بڑا واقعہ تھا جس نے تمام دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ امریکہ کی سربراہی میں نیٹو افواج نے عراق اور افغانستان پر حملہ کر دیا۔ دونوں ملک عملاً تباہ ہو چکے ہیں، لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ باایں ہمہ دہشت گردی بڑھی ہے ختم نہیں ہو سکی۔ داعش کا وجود بھی اسی ناقص حکمت عملی کا شاخسانہ ہے۔ دراصل کسی بھی مرض کی تشخیص کئے بغیر علاج نہیں ہو سکتا۔ دہشتگردوں سے کوئی شخص ہمدردی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو جو نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ لوگ اس کا نشانہ ہے۔ ملکی معیشت کی چولیں ہل گئیں۔ افواج پاکستان بے پناہ قربانی دیکر انکے ٹھکانے ختم کرنے میں مصروف ہیں۔ اگر ان تمام واقعات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو اسکے پیچھے ایک ملک کھڑا ہے، اسرائیل جو ویسے بھی ایک جوہری طاقت بن چکا ہے۔ اس کو تحفظ دینے بلکہ اس کے ناز نخرے اٹھانے کیلئے مغربی طاقتوں نے تمام دنیا کا آرام چین اور سکون تج دیا ہے۔ دہشتگردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ لیکن ان طاقتوں کو اپنے اندر جھانکنے کی بھی ضرورت ہے۔
ٹرمپ کا المیہ یہ ہے کہ وہ شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان پھنس گیا ہے۔ شیطانی ذہن رکھنے والا شخص ابلیس سے تو کسی طور سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن قلزم عبور نہیں کر سکتا۔ اس نے الیکشن کے دوران عوامی جذبات بھڑکانے کیلئے نا قابل عمل وعدے کئے۔ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کر دیگا۔ ایران کو نکیل ڈالے گا۔ چین کا چین اور سکون ختم کر دیگا۔ دیوار چین کی طرز پر میکسیکو کے بارڈر پر ایک نا قابل عبور دیوار کھڑی کر دیگا۔ طرفہ تماشایہ اسکی لاگت بھی میکسیکو سے دلوائے گا۔ فرسودہ نیٹو کو یا تو ختم کر دیگا یا پھر مغربی ممالک کو مجبور کرے گا کہ وہ حصہ بقدر جُثہ ڈالیں۔
اکثر مبصرین کا خیال تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کریگا۔اپنے وعدوں سے پھر کی کی طرح پھر جائیگا۔ ایسا ہونا دو وجوہ سے نا ممکن ہے۔ عادت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی قبر کے گرد بھی سات پھیرے لگاتی ہے۔ اس قدر Impulsiveصدر امریکی تاریخ میں نہیں گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے پوپ کو ترت جواب دیا۔ امریکی جج کو نام نہاد جج کہا۔ فاکس چینل کی صحافی کیلی کیذات پررکیک حملے کئے۔ وعدوں سے مکرنے کی صورت میں عوام اس کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ پریس طنزو تشنیع کے نشتر برسائے گی۔ رسوائی اور جگ ہنسائی ہو گی۔ الیکشن میں اس کا نعرہ تھا۔ We Will make America Great Againسوال یہ ہے کہ ان عاملانہ اقدامات سے امریکہ کی عظمت میں اضافہ ہو گا یا نمایاں کمی آئیگی؟ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے امریکہ مادی اعتبار سے پہلے ہی بہت بڑی طاقت ہے۔ دنیا کی نمبر ایک معیشت ہے۔ اسلحہ کے انبار ہیں۔ کسی تجزیہ نگار نے درست کہا تھا۔ اسکے پاس جوہری ہتھیاروں کا اس قدر ذخیرہ ہے کہ دنیا کو دس مرتبہ تباہ کر سکتا ہے۔ اسکے F.16 طیارے خریدنے کیلئے ملک منتیں کرتے ہیں کلچرل ، ڈامینشن کا یہ عالم ہے کہ دنیا پانی اس کا پیتی ہے۔ حیران کن بات ہے کہ کوکا کولا، پیپسی کا نعم البدل تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اگر گھر آئے ہوئے مہمان کو لسی یا شکنجوین پیش کی جائے تو وہ سبکی محسوس کرتا ہے۔ پھر انکی جینز دیکھیں لوگ اس لباس چاک کو قبائے زریں سمجھتے ہیں۔ ساری دنیا علاج کیلئے امریکہ جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی کو یہ لوگ بام عروج پر لے گئے ہیں۔
اب اور کونسی عظمت ہے جس کا ٹرمپ متلاشی ہے؟ تاریخ کا سبق ہے، ہر کمالے را زوالے۔ سپر پاور کو زک پہنچانے والا کوئی اور نہیں ، انکی اپنی صفوں میں نکل آیا ہے۔ تمام دنیا سے ٹکرانے والا شخص ملکی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ نیٹو سے نکلنے کی صورت میں امریکہ عسکری طور پر کمزور ہو گا۔میکسیکو سے ٹکرانے کی صورت میں تمام لاطینی امریکہ ناراض ہو گا۔ ایران سے ٹکرائو عالمی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔ ہرمز بند ہونے کی صورت میں تیل کی سپلائی بری طرح متاثر ہو گی۔ سائوتھ چائنا سی میں چین سے الجھنے اور شمالی کوریا سے سینگ پھنسانے کے کیا نتائج نکلیں گے ؟ان حالات میں ٹرمپ امریکہ کو ترقی کی صرف ایک ہی شاہراہ پر لے جا سکتا ہے۔ اور وہ ہے ترقی معکوس!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024